غورطلب ہے کہ اپنی عرضی میں ہادیہ کے ‘شوہر ‘ شفین نے عدالت سے اپنے اس حکم کوواپس لینے کی التجا کی ہے۔
نئی دہلی:کیرل کی اکھلا/ہادیہ کیس میں آج عدالت عظمیٰ نےکیرل ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا عدالت عالیہ اپنے حقوق کا استعمال کرکےمسلم نوجوان اورہندو خاتون کی اس شادی کو رد کر سکتی ہے،جس نے نکاح کرنے سے پہلے اسلام مذہب قبولکر لیا تھا؟
غورطلب ہے کہ اپنی عرضی میں ہادیہ کے ‘شوہر ‘ شفین نے عدالت سے اپنے اس حکم کوواپس لینے کی التجا کی ہے،جس میں این آئی اےکو پتا لگانے کے لئے کہا گیا تھا کہ کیا اس شادی میں مبینہ لو جہاد کا کوئی زاویہ شامل ہے۔
شفین کی جانب سے سینئروکیل دشینت دوے نے دلیل دی کہ کثیر مذہبی معاشرے میں عدالت عظمیٰ کو اس معاملے کی تفتیش کرنے کا حکم این آئی اےکو نہیں دینا چاہیے تھا۔انہوں نے اس حکم کو واپس لینے کے لئے دائر عرضی پر جلد سماعت کی گزارش کی ہے۔اس عرضی پر بنچ نے کہاہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عالیہ آئین کے آرٹیکل 226میں پیش کردہ حق کا استعمال کرکے شادی کو رد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
مرکز ی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے اس معاملے کی سماعت ملتوی کرنے کی التجا کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ میں پیش ہو رہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل منندر سنگھ ذاتی کام کی وجہ سے باہر گئے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے کہا ہے کہ اس عرضی پر 9 اکتوبر کو غورکیا جائےگا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: حقوق انسانی, خبریں, ویڈیو