کیا انگریزی اخباروں میں چھپی خبروں کا ہندی میں ترجمہ کرنے پر بھی ہتک عزت ہو جاتی ہے؟ ترجمے کی خبروں یا پوسٹ سے ہتک عزت کا ریٹ کیسے طے ہوتا ہے، شیئر کرنے والوں یا شیئر کئے گئے پوسٹ پر لائک کرنے والوں پر ہتک عزت کا ریٹ کیسے طے ہوتا ہے؟ چار آنہ، پانچ آنہ کے حساب سے یا ایک ایک روپیہ فی لائک کے حساب سے؟
آسٹریلیا کے جن شہروں کا نام ہم لوگ کرکٹ میچ کی وجہ سے جانتے تھے، وہاں پر ایک ہندوستانی کمپنی کے خلاف لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سنیچر کو ایڈلیڈ، کینبرا، سڈنی، برسبین، میلبرن، گولڈ کوسٹ، پورٹ ڈگلس میں مظاہرہ ہوئے ہیں۔ سنیچر کو آسٹریلیا بھر میں 45 مظاہرہ ہوئے ہیں۔ اڈانی واپس جاؤ اور اڈانی کو روکو ٹائپ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ وہاں کے ٹیکس دہندہ نہیں چاہتے ہیں کہ اس پروجیکٹ کی سبسیڈی ان کے پیسے سے دی جائے۔
اڈانی گروپ کے سی ای او کا بیان شائع ہوا ہے کہ مظاہرہ صحیح تصویر نہیں ہے۔ مقامی لوگ ہماری حمایت کر رہے ہیں۔ جیاکرا جنک راج کا کہنا ہے کہ جلد ہی کام شروع ہوگا اور نوکریاں ملنے لگیںگی۔ یہاں کا کوئلہ ہندوستان جاکر وہاں کے گاؤں کو بجلی سے روشن کرےگا۔
گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کے چینل اے بی سی نے اڈانی گروپ پر ایک لمبی ڈاکیومنٹری بناکر دکھائی۔اس کا لنک آپ کو شیئر کیا تھا۔ نوجوان صحافی اس لنک کو ضرور دیکھیں، ہندوستان میں اب ایسی رپورٹنگ بند ہی ہو چکی ہے۔ اس لئے دیکھکر آہیں بھر سکتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ اس ڈاکیومنٹری میں پرشانت بھوشن ہیں، پرانجائے گوہا ٹھاکرتا ہیں۔
پرانجائے گوہا ٹھاکرتا نے جب EPW میں اڈانی گروپ کے بارے میں خبر چھاپی تو ان پر کمپنی نے ہتک عزت کر دیا اور نوکری بھی چلی گئی۔ ابھی تک ایسی کوئی خبر نگاہ سے نہیں گزری ہے کہ اڈانی گروپ نے اے بی سی چینل پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہو۔
سودیشی صحافیوں پر ہتک عزت، غیر ملکی صحافیوں پر ہتک عزت نہیں۔ اگر وائر کی خبر اے بی سی چینل دکھاتا تو شاید امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ ہتک عزت بھی نہیں کرتے۔ کیا ہمارے وکیل،کمپنی والے غیر ملکی مدیروں یا چینلوں پر ہتک عزت کرنے سے ڈرتے ہیں؟
ایک سوال میرا بھی ہے۔ کیا انگریزی اخباروں میں چھپی خبروں کا ہندی میں ترجمہ کرنے پر بھی ہتک عزت ہو جاتی ہے؟ ترجمے کی خبروں یا پوسٹ سے ہتک عزت کا ریٹ کیسے طے ہوتا ہے، شیئر کرنے والوں یا شیئر کئے گئے پوسٹ پر لائک کرنے والوں پر ہتک عزت کا ریٹ کیسے طے ہوتا ہے؟ چار آنہ، پانچ آنہ کے حساب سے یا ایک ایک روپیہ فی لائک کے حساب سے؟
پیوش گوئل کو پریس کانفرنس کر کے اس کا بھی ریٹ بتا دینا چاہئے تاکہ ہم لوگ نہ تو ترجمہ کریں، نہ شیئر کریں نہ لائک کریں۔ حکومت جس کے ساتھ رہے، اس کا مان ہی مان کریں۔ عزت ہی عزت کریں۔ نہ سوال کریں نہ سر اٹھائیں۔ ہم بچّے بھی کھیلتے ہوئے گائیں-مان ہانی مان ہانی ، گھوگھو رانی کتنا پانی۔ پانچ لاکھ، دس لاکھ، ایک کروڑ، سو کروڑ۔
یہ بھی پڑھیں : مودی حکومت آنے کے بعد امت شاہ کے بیٹے کی کمپنی کے ٹرن اوور میں 16000 گنا اضافہ
یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے کہ بھیتر خانے کی خبروں کو چھاپنے کا جوکھم کوئی نہیں اٹھا سکے۔اس سے سبھی کو اشارہ چلا جاتا ہے کہ جھکتے ہو، جھکتے ہی رہو۔ اشتہار روکوا کر دھن ہانی کر دیںگے اور دوسرا کورٹ میں لےکر ہتک عزت کروا دیںگے۔ اب یہ سب ہوگا تو صحافی تو کسی بڑے شخص پر ہاتھ ہی نہیں ڈالےگا۔ یہ لیڈر لوگ جو دن بھر جھوٹ بولتے رہتے ہیں، کیا ان کے خلاف ہتک عزت ہوتی رہے؟
امت شاہ ایک سیاسی شخص ہیں۔ تمام الزام لگتے رہے ہیں۔ وہ اس کا مقابلہ بھی کرتے ہیں، جواب بھی دیتے ہیں اور نظرانداز بھی کرتے ہیں۔ وائر کی خبر میں الزام تو ہیں نہیں۔ جو کمپنی نے رکارڈ جمع کئے ہیں اسی کا تجزیہ ہے۔ پھر کمپنی رجسٹرار کو دستاویز جمع کرانے اور اس بنیاد پر لکھنے یا بولنے سے مسئلہ ہے تو یہ بھی بند کروا دیجئے۔
امت شاہ کے بیٹے کے بارے میں خبر چھپی۔ باپ پر تو فیک انکاؤنٹر معاملات میں الزام لگے اور بری بھی ہوئے۔ سہراب الدّین معاملے میں تو سی بی آئی ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر اپیل ہی نہیں کر رہی ہے۔ ان پر کرپشن کے الزام نہیں لگے ہیں۔ اس کے بعد بھی امت شاہ آئے دن سیاسی الزامات کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ جواب بھی دیتے ہیں اور نظرانداز بھی کرتے ہیں۔ قاعدے سے ان کو ہی آکر بولنا چاہئے تھا کہ بیٹے نے میری حیثیت کا کوئی فائدہ نہیں لیا ہے۔ مگر وزیرریل بولنے آ گئے۔ ہتک عزت کا فیصلہ اگر بیٹے کا تھا تو ریل وزیر کیوں اعلان کر رہے تھے؟
اس خبر سے ایسی کیا ہتک عزت ہو گئی؟ کسی ٹی وی چینل نے اس پربحث و مباحثہ کر دیا؟ نہیں نہ۔ سب تو چپ ہی تھے۔ چپ رہتے بھی۔ رہیںگے بھی۔ کئی بار خبریں سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے کی دستاویز پر کوئی تیسرا ذمہ نہیں اٹھاتا، کئی بار چینل یا اخبار رک کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ خبر کیسی شکل لے رہی ہے؟ سیاست میں کس طرح سے اور حقیقی شکل سے کس طرح سے۔ یہ ضروری نہیں کہ ٹی وی دوسرے ادارے کی خبر کو کرے ہی۔ ویسے ٹی وی کئی بار کرتا ہے۔ کئی بار نہیں کرتا ہے۔ ہم ہی ایک ہفتے سے اعلیٰ تعلیم کی حالت پر پرائم ٹائم کر رہے ہیں، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
لیکن، جب چینلوں نے کانگریس رہنما کپل سبل کے پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تو ان کو پیوش گوئل کے پریس کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے تھا۔ جب سبّل کا نہیں دکھائے تو گوئل کا کیوں دکھا رہے تھے؟ اوّل تو دونوں کو ہی دکھانا چاہئے تھا۔ لائیو یا بعد میں اس کا کچھ حصہ دکھا سکتے تھے یا دونوں کا لائیو دکھاکر بعد میں نہیں دکھاتے۔ یہ معاملہ تو سیدھے سیدھے حزب مخالف کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کا ہے۔سبّل وکیل ہیں۔ ان کو بھی عدالت میں حزب مخالف کے اسپیس کے لئے جانا چاہئے۔ بحث چھیڑنی چاہئے۔
اس طرح سے دو کام ہو رہے ہیں۔ میڈیا میں مخالف کو دکھایا نہیں جا رہا ہے اور پھر پوچھا جا رہا ہے کہ مخالف ہے کہاں۔ وہ تو دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ دوسرا، پریس کو ڈرایا جا رہا ہے کہ ایسی خبروں پر ہاتھ مت ڈالو، تاکہ ہم کہہ سکے کہ ہمارے خلاف ایک بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انتخاب میں پیسہ اسی طرح بہہ رہا ہے۔ اس سے زیادہ بہنے والا ہے۔ دیکھ لیجئےگا اور ہو سکے تو گن لیجئے۔
پڑھییے : دی وائر کی رپورٹ پر جے امت شاہ کا جواب
ایک سوال اور ہے۔ کیا وائر کی خبر پڑھنے کے بعد سی بی آئی امت شاہ کے بیٹے کے گھر پہنچ گئی،انکم ٹیکس افسر پہنچ گئے؟ جب ایسا ہوا نہیں اور جب ایسا ہوگا بھی نہیں تو پھر کیا ڈرنا۔ پھر ہتک عزت کیسے ہو گئی؟ فرضی مقدمہ ہونے کا بھی چانس نہیں ہے۔ اصلی تو دور کی بات ہے۔اے بی سی چینل نے اڈانی گروپ کی خبر دکھائی تو ED اڈانی کے یہاں چھاپے مارنے لگا کیا؟ نہیں نہ۔ تو پھر ہتک عزت کیا ہوئی؟
عدالت کو بھی حکم دینا چاہئے کہ خبر صحیح ہے یا غلط، اس کی تفتیش سی بی آئی کرے ای ڈی کرے، انکم ٹیکس محکمہ کرے پھر ثبوت لےکر آئے، ان ثبوتوں پر فیصلہ ہو۔ خبر صحیح تھی یا نہیں۔ خبر غلط ارادے سے چھاپی گئی یا یہ ایک خالص صحافیانہ عمل تھا۔
ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا تھا۔ اس خبر کا بدلہ لینے کے لئے کسی حزب مخالف رہنما کے یہاں لائیو ریڈ کروا دیا جاتا۔ جیسا کہ ہو رہا ہے اور جیسا کہ ہوتا رہےگا۔ سی بی آئی،انکم ٹیکس محکمہ، ای ڈی ان کے افسر تو پان کھانے کے نام پر بھی حزب مخالف کے رہنما کے یہاں ریڈ مار آتے ہیں۔ کسی حزب مخالف کے رہنما کی سی ڈی تو بنی ہی ہوگی، گجرات میں انتخاب ہونے والے ہیں، کسی نہ کسی کی بن ہی گئی ہوگی۔ بہار انتخاب میں بھی سی ڈی بنی تھی۔ جن کی بنی تھی پتا نہیں کیا ہوا ان معاملات میں۔ یہ سب آج سے ہی شروع کر دیا جائے اور آئی ٹی سیل لگاکر کاؤنٹر کر دیا جائے۔
(-یہ مضمون رویش کمار نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے)
Categories: فکر و نظر