میڈیا کے سوال پوچھنے کی بات کرنا بیکار ہے کیونکہ وہ سوال پوچھنا بھول چکی ہے۔ وہ کم وبیش اسی راستے پر ہے جس کے لیے ان کو کہا جارہا ہے۔
ہندوستانی میڈیا تقریبا ستّر فیصد ہندوستان سے کس طرح کا سلوک کر رہی ہے، اس کا صحیح اندازہ حال کے کچھ واقعات سے صاف لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کی راجدھانی دلی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے سلسلے میں مین اسٹریم میڈیا کی بے حسی کو دیکھکر لگا کہ وہ اقتدار سے سوال پوچھ کر کسی بھی طرح کی ناراضگی نہیں مول لینا چاہتی۔ میڈیانہیں چاہتی کہ ملک کی اصل تصویر پر بات ہو۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ان بنیادی مسائل کو درکنار کرکے اقتدار اور اس سے وابستہ جماعت کے ذریعے “اسپانسر وندے ماترم”کے غیرضروری تنازعہ کو ہوا دیتی ہے۔”پدماوتی” فلم جیسے موضوع کو کئی ہفتہ کھینچتی ہے۔ مخالفت کے نام پر “غنڈوں” کو ہیرو بناتی ہے اور اسٹوڈیو میں تلوار تک کی نمائش کرواتی ہے۔راجدھانی میں نومبرکےمہینے میں کئی سڑک آندولن ہوئے۔سب سے پہلے دوروزہ (20 اور 21 نومبر) کسان مکتی سنسد کی بات۔ملک کے مختلف ریاستوں سے آئے 180 کسان تنظیموں نے کل ہند کسان’سنگھرش سمیتی ‘کے بینر تلے سنسد مارگ پر کسان مکتی سنسد لگائی۔رام لیلا میدان،امبیڈکربھون،رکاب گنج گرودوارا اور ریلوے اسٹیشنوں سے کسان نعرے لگاتے ہوئے سنسد تک پہنچے۔ ان کے ہاتھوں میں مختلف زبانوں میں پوسٹر اور بینر تھے، جس سے ان کا اتحاد صاف جھلک رہا تھا۔
ان کے سنسدکا اہم نعرہ تھا، ‘ کسان مر رہا ہے، حکمراں سو رہا ہے۔ ‘سنسدکی شروعات مندسور میں پولیس گولی باری میں شہید ہوئے کسانوں، خودکشی کرنے والے کسانوں اور یوتمال میں پیسٹی سائڈ کی وجہ سے مارے گئے کسانوں کو خراج عقیدت دینے کے ساتھ ہوئی۔ساتھ ہی نرمدا بچاؤ تحریک کی علمبردار میدھا پاٹکر نے خودکشی کرنے والے کسانوں کی فیملی کے 545 خاتون کسانوں کی سنسد لگائی۔ میدھا پاٹکر نے کہا، ‘آج ملک کے لئے تاریخی لمحہ ہے کہ جب خواتین اپنی سنسد بٹھا کر اپنے سوالوں پر بات کر رہی ہیں۔ ‘
وہاں موجود ہر کسی کے لئے یہ منظر رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا، لیکن سیاست اور صحافت کے لئے شاید ایسے منظر معنی نہیں رکھتے۔کسان رہنما وی ایم سنگھ کی قیادت میں جٹے کسانوں کی مانگ تھی کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات نافذ کی جائیں۔اسی کمیشن کی سفارش کے مطابق فصلوں کی قیمت پیداواری لاگت سے50فیصدی زیادہ دلائی جائے۔ تمام طرح کے قرض ایک ساتھ معاف کئے جائیں۔
20 نومبر کو 19ریاستوں کے کسان دس ہزار کلومیٹر کی “کسان مکتی یاترا” پوری کرکے دلی پہنچے تھے۔ راجدھانی آنے سے پہلے وہ اپنی ریاستوں میں دھرنامظاہرہ کر کےحکومت کو خبردار کر چکے تھے، لیکن ان کے مطالبات پر غور نہیں کیا گیا۔اتناہی نہیں ان کے مظاہروں کو تقریباً تمام ریاستوں میں کچلنے کا کام کیا گیا۔ ان کو لاٹھی اور گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس میں کئی کسان شہید ہو گئے۔
یہ اس مدھیہ پردیش میں بھی ہوا، جس کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو مودی حکومت نے ذمہ داری دے رکھی ہے کہ 2022 تک کسانوں کو ان کی پیداواری لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت کیسے دی جائے، کا طریقہ کھوج نکالیں۔
خیر! بہت دنوں بعد دلّی میں بڑے پیمانے پر جمع ہوئے کسانوں کی ‘سنسد’کے ساتھ راجدھانی کے اہم اخباروں نے کیسا سلوک کیا، یہ دیکھنے کے لئے دو دن کے اخباروں کا جائزہ لیا گیا۔
اس جائزے میں دینک جاگرن، دینک بھاسکر، امر اجالا، ہندوستان، راجستھان پتریکا، نوبھارت ٹائمس اور جن ستّا جیسے ہندی کے اخبار شامل کئے گئے تو انگریزی سے ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس اور دی انڈین ایکسپریس کو شامل کیا گیا۔اخباروں کی چھان بین سے معلوم ہوا کہ ہندی میں امر اجالا اور راجستھان پتریکا نے کچھ عزت رکھی وہیں باقی اخباروں نے رسم ادائیگی کا کام کیا۔امر اجالا نے 21 نومبر کے ایڈیشن میں دو کالم کی فوٹو کے ساتھ تین کالم کی خبر پہلے پیج پر شائع کی۔ اس کے ساتھ ہی اندر پیج نمبر چار پر دو فوٹو کے ساتھ پانچ کالم میں لیڈ خبر شائع کی۔
اسی اخبار نے اگلے دن کے ایڈیشن میں پیج چار پر تین کالم فوٹو کے ساتھ چار کالم کی خبر دی ہے تو ادارتی صفحے پر کمار پرشانت کا ‘کھیتی ہر سماج کی تراسدی ‘ (کسان سماج کا المیہ) عنوان سے مضمون بھی شائع کیا ہے، جس کے مرکز میں کسان مکتی سنسد ہے۔اس طرح اخبار نے کسان سنسدکو صحیح انداز میں اٹھایا ہے، لیکن پہلے دن کی کوریج میں کسانوں کی مانگ اٹھانے کے ساتھ ہی اس کا زور اس بات پر بھی رہا کہ کسانوں کے رام لیلا میدان سے سنسد مارگ کے لئے نکلے مارچ سے پورا ٹریفک نظام چرمرا گیا۔ ہفتے کا پہلا کام کادن تھا اس لئےآفس جانے والوں کو گھنٹوں جام کا سامنا کرنا پڑا۔
راجستھان پتریکا نے پہلے دن پیج نمبر 14پر دو کالم فوٹو کے ساتھ چار کالم کے مواد کسان مکتی سنسد کے نام کیا تو اگلے دن پیج 12پر کسانوں کے اس اعلان کو اہمیت دی ہے کہ ‘ انتخاب میں رہنماؤں کو گاؤں میں گھسنے نہیں دیںگے۔ ‘پتریکا نے اس دن اپنا اداریہ (بھروسے کا مارا ان داتا!) بھی کسانوں کے نام کیا ہے۔ ان دو اخباروں کے علاوہ ہندی کے زیادہ تر اخباروں نے کسان مکتی سنسد کو لےکر یا تو خانہ پری کی یا پھر معاملے کو دوسرا موڑ دینے کی کوشش کی۔
جن ستّا اور نوبھارت ٹائمس نے پہلے دن بالترتیب فوٹو کے ساتھ پانچ کالم اور چار کالم کی خبر شائع کی تو اگلے دن اس کو غائب کر دیا۔وہیں دینک بھاسکر نے پہلے دن خبر کو بلیک آؤٹ کر دیا تو دوسرے دن پیج چار پر دو کالم میں خانہ پری کرنے والی خبر دی۔دینک جاگرن اور ہندوستان نے تو حد پارکر دی۔ دونوں اخباروں نے پہلے دن سنسد کو بلیک آؤٹ کر دیا تو دوسرے دن ان کے کوریج میں اہم خبر کے ساتھ اس بات پر زور زیادہ رہا کہ کسانوں کے آنے سے کس طرح دلّی کی رفتار پر بریک لگ گئی؟لوگ کیسے گھنٹوں جام میں پھنسے رہے؟ پولیس نے لوگوں کو اطلاع تک نہیں دی۔ ایڈوائزری تک نہیں جاری کی۔
ایسی کئی باتوں کو اٹھاکے اخباروں نے کسانوں کے اہم مسائل سے لوگوں کو بھٹکانے کا کام کیا۔ ویسے صحافت میں یہ ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ پہلی بار تو 70 فیصدی والے ہندوستان (گاؤں اور کسان) کے مسائل کو اٹھاتے نہیں اور اگر کبھی اٹھاتے بھی تو اس کو ایسا موڑ دو کہ متاثرین ہی بدمعاش بن جائے۔اس بات کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لئے نومبر 2009 کے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے، جو ملک کی راجدھانی میں مظاہرہ کرنے آئے گنّا کسانوں سے منسلک ہے۔تب نیشنل میڈیا خاص کر انگریزی اخباروں اور ٹی وی نیوز چینلوں نے ان کے ساتھ ‘ نازیبا’ سلوک کیا۔
تب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آنند پردھان نے لکھا تھا،
‘دلّی کے سب سے بڑے اخبار ہونے کا دعویٰ کرنے والے دونوں انگریزی اخباروں (ٹائمس آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمس) نے اپنے کوریج میں اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا کہ کیسے کسانوں کی اس بھیڑ نے دلّی میں جام لگا دی اور اس سے دلّی والوں کو کتنی تکلیف ہوئی؟ یہ بھی کہ کسانوں کی بھیڑ میں کتنی بد نظمی تھی اور اس نے کس طرح سے شہریوں کے ساتھ بدتمیزی کی، شہر کو گندا کیا اور توڑپھوڑ کرکے چلے گئے۔ گویا کسان نہ ہوں تیمورلنگ کی فوج نے دلّی پر حملہ کر دیا ہو۔ ‘
اس وقت تو انگریزی کے اخباروں نے اس طرح کی خبر شائع کر دی تھی، لیکن موجودہ وقت میں تو وہ کسانوں کی خبر پر توجہ ہی نہیں دیتے۔انگریزی کے اخباروں کی بات کی جائے تو ٹائمس آف انڈیا نے پہلے دن کی سنسد پر توجہ نہیں دی تو دوسرے دن کو دو کالم میں سمیٹ دیا۔وہیں ہندوستان ٹائمس نے خبر تو دور کسان مکتی سنسدکی اطلاع تک دینے کی زحمت نہیں اٹھائی۔اس سلسلے میں د ی انڈین ایکسپریس نے پہلے دن ضرور لاج رکھی۔ اس نے دو بڑی خبروں اور فوٹو کے ساتھ پیج نمبر تین پر پیکیج شائع کیا۔
ویسے انگریزی کے زیادہ تر اخبار کسانوں کے مسئلے کو کبھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے اخباروں کی تشہیر گاؤں میں نہیں ہے یعنی کسان ان کا اخبار نہیں پڑھتے۔ ایسے میں وہ کسانوں سے جڑی خبر شائع کرکے کیوں اپنا اسپیس ضائع کریں۔جب ہندی کے اخبار گاؤں اور زراعت اورکسانی کو لےکے بے حس بنے ہوئے ہیں تو اس تعلق سے انگریزی کے اخباروں کی بات کرنا ہی بےمعنی ہے۔
کسان مُکتی سنسد کے علاوہ 17 نومبر کو ہندوستانی مزدور یونین نے مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی مخالفت میں سنسد مارگ پر مظاہرہ کیا۔ ملک کے الگ الگ شہروں سے آئے ان مزدوروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزدور غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی نوکریاں چھن گئی ہیں۔ روزگار کے نئے مواقع حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔اسی سلسلے میں 11 نومبر کو مختلف ریاستوں سے آئی آنگن باڑی کی خواتین سرگرم کارکنان، آشا کارکنان اور مڈڈےمیل بنانے والی خواتین نے سنسد مارگ پر ڈیرہ ڈال۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی اسکیموں کو زمین پر نافذ کرنے کا کام کرتی ہیں، لیکن حکومت سالوں سے ان کی ان دیکھی کر رہی ہے۔ ہماری مالی حالت خراب ہے۔ ہماری تنخواہ بڑھائی جائے۔ ملازمین کو دی جانے والی سہولتیں دستیاب کرائی جائیں۔مختلف ریاستوں سے بڑے پیمانے پر آئیں خواتین دن بھر اپنی عوامی تہذیب کے ذریعے اپنا احتجاج درج کراتی رہیں۔ مودی ہاےہاے۔ ہم اپنا حق مانگتے-نہیں کسی سے بھیک مانگتے، جیسے نعرے لگاتی رہیں۔
اسی طرح 9 نومبر کو دلّی میں ہی دس ٹریڈ یونین کے ہزاروں ملازمین مودی حکومت کی اقتصادی اور مزدور اصلاح پالیسیوں کی مخالفت کر چکے ہیں، لیکن یہ تمام ملک گیر مظاہرے مرکزی دھارے کی صحافت سے غائب رہے۔
ان کو کور کرنے کا مطلب تھااقتدار پر سوال اٹھانا۔اس کی پالیسیوں پر سوال اٹھانا۔ ایسے مسائل سے بچنے کے لئے صحافت نے بہترین طریقہ نکالا ہے کہ نہ وہ ایسے مسائل کو اٹھائےگی اور نہ اقتدار سے اس کو سوال کرنا پڑےگا۔دونوں ملکے قاری / ناظرین کو گڈی گڈی خواب دکھاتے رہیںگے۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ خواب شاید ہی کبھی پورے ہوں۔
ایسے ہی خواب 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران بی جے پی اور اس کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی (موجودہ وزیر اعظم) نے کسانوں کو دکھائے تھے۔انہوں نے کسانوں کو لبھا نے کے لئے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت بنی تو وہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشیں نافذ کریںگے۔
فصل کی لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت دیںگے۔ ملک کی 70 فیصدی آبادی سے یہ ایک طرح کا سودا تھا۔ اس آبادی نے اس دلچسپ نعرے کو سنجیدگی سے لیا۔ اس نے اپنے ووٹوں سے مودی اور بی جے پی کی جھولی بھر دی۔ وہ اقتدار میں آ گئے۔اقتدار میں آئے ان کو ساڑھے تین سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اب تو مرکز کے ساتھ زیادہ تر ریاستوں میں بھی بی جے پی اور ان کی حلیف جماعتوں کی حکومتیں اقتدار میں ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اپنی مانگوں کو لےکر مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اصل میں مودی کا کسانوں سے کیا گیا وعدہ محض مغالطہمیںلانے کے لئے تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کہنے لگے کہ 2022 تک کسانوں کو دو گنا فائدہ دلائیںگے۔سوال اٹھتا ہے کہ مودی حکومت کو عوام نے 2019 تک کے لئے منتخب کیاہے، ایسے میں وہ 2022 تک کیسے اپنا وعدہ پورا کریںگے۔حالانکہ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ وہ 2024 تک ملک کے وزیر اعظم بنے رہنے کا خواب پالے ہیں۔ اس کا وہ اظہار بھی کر چکے ہیں۔ لیکن اس کی کیا گارنٹی کہ عوام ان کو 2019 میں ایک بار پھر اقتدار سونپ دےگی؟
اصل میں ایسا کرکے وہ کسانوں کو مغالطہمیں رکھ رہے ہیں اور اس مغالطہمیں میڈیا ان کا پورا ساتھ دے رہی ہے۔ وہ مودی حکومت سے یہ سوال نہیں پوچھ رہی کہ اقتدار میں آنے پر پورا کرنے کا وعدہ 2022 تک آخر کیسے بڑھا دیا گیا؟ساتھ ہی عوام نے اگر 2019 میں ان کو دوبارہ نہیں منتخب کیا تو وہ یہ وعدہ کیسے پورا کریںگے؟
کسانوں کے مسئلے اور ان سے متعلق سوالوں کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور حقیقت جاننا ضروری ہے کہ مودی حکومت زراعت کے لئے استعمال ہو نے والی گاڑی ٹریکٹرٹرولی کو پہلی بار زراعت کے زمرہ سے نکالکر تجارتی زمرہ میں ڈالنے جا رہی ہے۔اس سے کسانوں پر دوہری مار پڑےگی۔ حکومت کا یہ فیصلہ نافذ ہونے کے بعد ٹریکٹر خریدنے پر کسانوں کو وہی سب ٹیکس دینے ہوںگے جو کسی تجارتی گاڑی کو خریدنے پر دینے ہوتے ہیں۔ہر بیرئر پر اس کو ٹرک کے برابر ٹول ٹیکس دینا ہوگا۔ مستقبل میں جو قانون تجارتی گاڑیوں پر لگتے ہیں وہی ٹریکٹر پر بھی نافذ ہوںگے۔
ایسے میں زراعت میں کم ہوتے فائدے کے درمیان حکومت کا یہ فرمان کسانوں کے لئے کسی بددعا سے کم نہیں ہے اور یہ سب ٹول مافیا اور حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔اصل میں حکومتوں سے لےکر کھاتےپیتے لوگوں تک تمام کسانوں کو بدمعاش مانتے ہیں اور ان سے اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں دلّی سے لےکر پڑوسی ریاستوں کو جب دھند نے گھیرا اور لوگوں کو سانس لینے میں پریشانی ہونے لگی تو سب کے سب ڈنٹھل جلانے کو لےکر کسانوں پر ٹوٹ پڑے۔
اخباروں کے صفحات اسی رنگ میں رنگ گئے۔ ٹی وی نیوز چینلوں میں بھی ڈنٹھل جلنے کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔ کچھ اینکروں کے منھ تک اس کی لپٹیں پہنچ گئیں۔ یقینی طور پر دھند کی ایک وجہ ڈنٹھل کا جلنا ہے، لیکن دھند کے لئے پوری طرح سے ذمہ دار کسان ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔
سیاست سے لےکر میڈیا تک میں اس خطرناک موسم کے لئے گاڑیوں کی بےتحاشہ بڑھتی بھیڑ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی ڈیزل کی گاڑیوں میں اکیلے فرّاٹا بھرتے کھاتےپیتے لوگوں کی طرف کسی نے اشارہ نہیں کیا۔
اتناہی نہیں عوامی نقل وحمل کو درست کرنے اور سڑکوں پر کاروں کی بھیڑ کم کرنے کی بات کہیں نہیں دکھی۔ دکھا کیا کہ دھند کے لئے کسان کو ذمہ دار ٹھہراؤ۔ اس کو جیل بھیجو۔ کام ختم۔ اپنی خوشی اور سہولت میں کہیں سے بھی کٹوتی نہ کرو۔
خیر!یہاں میڈیا کے سوال پوچھنے کی بات کرنا بےکار ہے کیونکہ وہ سوال پوچھنا بھول چکی ہے۔ وہ کم وبیش اسی راستے پر چل رہی ہے جو اس کو اقتدار اور حکمراں جماعت اشارے میں بتا رہے ہیں۔
اس کو اشارہ ملتا ہے کہ وندے ماترم پر شور مچانا ہے تو نیوز چینلوں کے اسٹوڈیو سے لےکر اخباروں تک وندے ماترم کا شور دکھائی دینے لگتا ہے۔اس کو اشارہ ملتا ہے کہ اب پدماوتی پر ہنگامہ کرانا ہے سو دیکھتے ہی دیکھتے دلّی سے لےکر ملک کے زیادہ تر ریاستوں میں پدماوتی پدماوتی کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ملک کے عوام بھی اسی شورشرابے میں الجھ جاتے ہیں۔اس کا اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ پارلیا منٹ کا سیشن کیوں بڑھایا جا رہا ہے؟ کسانوں کے مسئلے کیا ہیں؟ وہ کیوں سڑکوں پر اترے ہیں؟ ٹریڈ یونین کیوں ناراض ہیں؟
آنگن باڑی خواتین کارکنان،آشا بہووں اور مڈڈےمیل بنانے والی خواتین کی کیا پریشانیاں ہیں؟ جھارکھنڈ اور اڑیشہ میں بھوک سے ہو رہی اموات کا قصوروار کون ہے؟ جج لویا کی موت پر اٹھے سوالوں کا جواب کون دےگا؟پیراڈائز پیپر کے دائرے میں کون آ رہا ہے؟ کالا دھن اب تک کیوں نہیں آیا؟ ای وی ایم مشینوں میں گڑبڑی کیوں ہو رہی ہے؟ اس گڑبڑی سے بی جے پی کو ہی ووٹ کیوں جا رہے ہیں؟غور فرمائیے شورشرابہ نہیں ہوگا تو عوام یہ سارے سوال پوچھیں گے۔ اپوزیشن کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوال پارلیا منٹ کے آنے والے سیشن میں اٹھانا ہوگا۔حکومت نہیں چاہتی کہ یہ سارے سوال اٹھائے جائیں تومیڈیا بھی نہیں اٹھاتی۔ حکومت جو چاہتی ہے زیادہ تر میڈیا وہی کر رہی ہے۔ہاں، ایک آدھ ٹی وی نیوز چینل سے لےکر کچھ ویب سائٹ ‘لیک سے ہٹ کر’ ضرور کام کر ر ہیں۔ ایسے وقت میں ان کی صحافت کو سلام۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)