فکر و نظر

کیا ہماری نوکرشاہی مجرم سیاست دانوں کے حق میں کام کرتی ہے؟

کیا ہمارے سیاست داں نوکرشاہی کی  ملی بھگت کے بغیر ہی کالا دھن جمع کرنے اورطرح طرح کے جرم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

Anil-Goswami-Ranjit-Sinha-PTI

یکم نومبر 2017 کو سیاست دانوں پر چل رہے مجرمانہ مقدموں کی فوری سماعت اور قصوروار ثابت ہونے والے نیتاؤں کو انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کی مانگ کی جانچ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ان پر مقدمہ چلانے کے لئے خصوصی عدالت قائم کرنے کی ہدایت دی۔سول سوسائٹی گروپ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمس (اے ڈی آر) نے 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں کامیاب ہونے والے 543 میں سے 541 سیاست دانوں کے ذریعہ الیکشن کمیشن میں جمع حلف نامہ کا تجزیہ کیا ہے۔

ای ڈی آر نے پایا کہ جیتنے والے 34 فیصد امیدواروں پر ریپ، قتل اور آگ زنی سمیت مختلف مجرمانہ معاملے چل رہے ہیں۔ یہ فیصد لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔2004 میں یہ 24 فیصد تھا، جو 2009 میں بڑھ‌کر 30 فیصد ہو گیا۔ اے ڈی آر کےمطابق  2014 کے لوک سبھا انتخاب میں مجرمانہ ریکارڈ والے امیدواروں کےانتخاب جیتنے کا امکان 13 فیصد تھا، جبکہ صاف ستھرے ریکارڈ والے امیدوار کے لئے یہی امکان محض پانچ فیصد تھا ۔’ہندوستان میں عوامی زندگی کی مجرمانہ فطرت اور ا س کے پھیلاؤ کے مدنظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی انتخابی جمہوریت کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت کا دوررس نتیجہ بر آمد ہوگا۔ لیکن، سوال ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟

سوال ہے کہ کیا کبھی اقتدار میں، تو کبھی اقتدار سے باہر رہنے والے ہمارے رہنما، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے کیوں نہ ہوں-ملک اور ریاستوں کی راجدھانیوں میں بیٹھے آئی اے ایس، آئی پی ایس افسران یعنی نوکرشاہوں کے تعاون(چاہے مرضی سے ہو یا بنا مرضی کے) کے بغیر ہی کالا دھن حاصل کر نے اورطرح طرح کے جرم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ جواب ہے، نہیں۔ آئیے جانتے ہیں کیوں؟مجرمانہ بیک گراؤنڈ والے سیاست دانوں اور نوکرشاہوں کے درمیان ایک طرح کی بھائی چارگی ہوتی  ہے اور یہ ہندوستانی جمہوریت کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

سیاست دانوں کے کسی بھی  پارٹی سے ہونے اور نوکرشاہوں کی خاص پوسٹنگ کا اس سے بہت زیادہ لینا دینا نہیں ہے۔ اپنے پروبیشن کے دنوں سے لےکر دلّی میں ڈیپوٹیشن پر بھیجے جانے تک، محنتی نوکرشاہوں میں اپنے سیاسی آقاؤں کےلیے ایک نرم گوشہ رہتا ہے۔یہ جذبہ آپسی ہے اور معقول طریقے سے اس کا آپسی لین دین کیا جاتا ہے۔ ہمیں سیاست دانوں اور نوکرشاہوں کے تعلقات کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے چیزوں کو بڑے تناظر میں رکھ‌کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ہم شرد کمار بھٹناگر کے معاملے پر غور کر سکتے ہیں۔ 24 مارچ،1986کو جب بو فورس سودے پر دستخط کئے گئے تھے، تب وہ راجیو گاندھی حکومت میں دفاعی سکریٹری (6 جولائی 1984سے31 مئی، 1988) تھے۔پہلی بار گڑبڑی کی بات تب اٹھی، جب 16 اپریل، 1987 کو ایک سویڈش ریڈیو نے یہ دعویٰ کیا کہ اےبی بوفورس نے سودا پکاکرنے کے لئے ہندوستان کے اہم پالیسی سازوں کو رشوت دی تھی۔

میڈیا کی گہری چھان بین ا ور عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر راجیو گاندھی نے 6 اگست، 1987 کو الزامات کی تفتیش کرنے کے لئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی۔مگر ہوشیاری اور ڈھٹائی دکھاتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نے بھٹناگر کو سکّم کا گورنر (فروری، 1989سے31 جنوری، 1990) مقرر کر دیا۔ اس قدم کا مقصد بھٹناگر کو تفتیش کی زد سے دور رکھنا تھا۔

22 جنوری، 1990 کو سی بی آئی نے اےبی بوفورس کے اس وقت کے صدر مارٹن آردبو، دلالی کے ملزم وین چڈّا اور ہندوجا بھائیوں کے خلاف آئی پی سی (انڈین پینل کوڈ) اور پروینشن آف کرپشن ایکٹ کی دیگر دفعات کے تحت مجرمانہ سازش، ٹھگی، دھوکہ دھڑی کے مبینہ جرم کے لئے ایف آئی آر درج کی۔سی بی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ کچھ خاص سرکاری ملازمین اور ہندوستان اورغیر ممالک میں رہنے والے کچھ پرائیویٹ لوگوں نے مل‌کر 1982 سے 1987 کے درمیان ایک مجرمانہ سازش رچی تھی، جس کے تحت رشوت خوری، بد عنوانی، ٹھگی اور دھوکہ دھڑی کے جرائم کو انجام دیا گیا۔

2002 میں، سی بی آئی کی ایک خاص عدالت نے یہ محسوس کیا کہ ‘ مذاکرات کار کمیٹی کے صدر کے طور پر ایس کے بھٹناگر نے جو عمل اپنایا، اس میں کافی گڑبڑی تھی، جس کے سبب معروضی اور غیر جانبدارانہ طریقوں سے کام نہیں کیا جا سکا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایس کے بھٹناگر کی طرف سے جان بوجھ کر بوفورس گن سسٹم کو زیادہ بہتر اور کم داموں پر دستیاب دکھانے کی کوشش کی گئی’۔لیکن تب تک بھٹناگر پر مقدمہ چلانے کی بات تو دور، پوچھ تاچھ کرنے کےلئے بھی کافی دیر ہو چکی تھی، کیونکہ اگست، 2001 میں وہ دنیا سے رخصت‌ہو چکے تھے۔

دوسری مثال 1997 بیچ کے جموں و کشمیر کیڈر کے آئی اے ایس افسر انل گوسوامی کی ہے۔ گوسوامی نے سی بی آئی کے کام کاج میں دخل دینے اور ایک ملزم کی گرفتاری کو روکنے کی کوشش کرنے کے الزامات کے درمیان فروری، 2015 میں مرکزی داخلہ سکریٹری جیسے بڑے عہدے سے ‘ استعفی ‘ دے دیا تھا۔استعفے کے وقت دو سال کی ان کی طےشدہ مدت میں چار مہینے بچے ہوئے تھے۔ گوسوامی پر سی بی آئی کے دو سینئر افسروں کو شاردا گھوٹالہ معاملے کو لےکر فون کرنے اور سابق مرکزی وزیر بادل سنگھ کی گرفتاری کو روکنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا۔ 2014میں گوسوامی کے بیٹے کی شادی میں بادل سنگھ چیف گیسٹ تھے۔

غور طلب ہے کہ گوسوامی کو منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے مرکزی داخلہ سکریٹری کے طور پر مقرر کیا تھا۔2014 میں یو پی اے دور اقتدار کے بالکل آخری وقت میں گوسوامی ایک اور تنازعے میں گھر گئے تھے۔گوسوامی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی وکیل بیوی نیرو گوسوامی کی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تقرری کرانے کے لئے فروری، 2014 میں سپریم کورٹ کے  اس وقت کے دو ججوں کو فون کیا تھا۔سپریم کورٹ کے ججوں نے آن رکارڈ آکے تقرری کو متاثر کرنے کے لئے کی گئی غیر مناسب کوششوں کے بارے میں بتایا تھا۔ایک سینئر جج جسٹس ٹی ایس ٹھاکر (جو بعد میں چیف جسٹس بن کر ریٹائر ہوئے)نے تو تحریری طور پر اس وقت کے چیف جسٹس پی ستھاشیوم کو کہا تھا کہ وہ نیرو گوسوامی کی پیشہ ور انہ صلاحیتوں کو لےکر مطمئن نہیں ہیں۔

ایک اور مثال 1974 بیچ کے بہار کیڈر کے آئی پی ایس افسر رنجیت سنہا کی ہے، سی بی آئی چیف کے طور پرمسٹر سنہا کا دورتنازعات سے بھرا رہا۔1996 میں جوائنٹ ڈائریکٹر یواین بسواس کے ماتحت سی بی آئی میں ڈی آئی جی کے طور پر کام کر رہے سنہا پر چارا گھوٹالہ معاملے کے ملزم لالو پرساد یادو کی مدد کرنے کے لئے تفتیش کو بھٹکانے کی کوشش کرنے کا الزام لگا تھا۔ اس معاملے کی تفتیش کی نگرانی خود پٹنہ ہائی کورٹ کر رہا تھا۔

بسواس اس مقدمہ میں چیف انویسٹی گیٹر تھے اور ان کو کورٹ نے معاملے کی رپورٹ جمع کرنے کے لئے کہا تھا۔ لالو پرساد یادو اور دیگر لوگوں کے لئے مشکل کھڑی کرنے والی بسواس کی اصل رپورٹ کو سی بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جوگندر سنگھ نے سنہا کے ہاتھوں تیار ایک نرم رپورٹ سے بدل دیا اور اس بدلی ہوئی رپورٹ کو ہی کورٹ میں جمع کرایا گیا۔جب کورٹ نے یہ پوچھا کہ آخر جمع کی گئی رپورٹ میں اصلی الزامات کی تفصیل شامل کیوں نہیں کی گئی ہے، تو بسواس نے کورٹ کے سامنے یہ قبول  کیا کہ رپورٹ کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے ذریعے بدل دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا کہ اصل رپورٹ زیادہ سخت تھی۔

سنہا کی رپورٹ کی جانچ کرنے کے بعد کورٹ نے اس کو نامکمل اور کاٹ چھانٹ کی ہوئی قرار دیا۔ سی بی آئی کو قصوروار قرار دیتے ہوئے، کورٹ نے سنہا کوکیس سے ہٹانے کا حکم دیا۔سی بی آئی ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سنہا نے رانچی ہائی کورٹ کی اجازت لےکر چارا گھوٹالہ کی جانچ‌کر رہے چار اہم افسروں کا تبادلہ کر دیا، لیکن اس حکم کو بعد میں سپریم کورٹ نے ایک مفاد عامہ عرضی کی سماعت کرتے ہوئے منسوخ کر دیا۔

چارا گھوٹالہ کے اہم ملزمین میں سے ایک، لالو یادو اور سنہا کی قربت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ریل کے وزیر کے طور پر اپنے دور اقتدار کے دوران لالو یادو نے ریلوے محافظ دستہ کے ڈائریکٹر جنرل کی کرسی کو تین مہینے کے لئے تب تک خالی رکھا، جب تک سنہا نے اس عہدے کو سنبھال نہیں لیا۔سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے طور پر سنہا نے چارا گھوٹالہ کے تین زیر التوا معاملوں میں لالو کے خلاف الزامات کو ہٹانے کی پیروی کی۔

راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر ان میں سے ایک معاملے میں قصوروار قرار دئے گئے ہیں۔ لالو کے خلاف الزامات کو ہٹانے کی سفارش کرتے ہوئے سنہا نہ صرف ڈائریکٹر، استغاثہ سے، بلکہ پٹنہ شاخ کے دیگر سینئر افسروں، جن میں پٹنہ زون کے چیف بھی شامل تھے، سے بھی الگ رائے ظاہر کر رہے تھے۔یہ محض ایک نمونہ ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کے فولادی ڈھانچے یعنی نوکرشاہی کے اندرغیراخلاقی عناصر کس طرح اپنے سیاسی آقاؤں کے ساتھ قریبی رشتے گانٹھ‌کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ہندوستان کا فولادی ڈھانچہ، اصل میں اس ملک کی حکومت سے متعلق معاملوں میں ‘ چوری ‘ کا ڈھانچہ بن گیا ہے۔ ہندوستان کے پالیسی سازوں کو ایسے عناصر کو ان کے خراب کاموں کے لئے جواب دہ ٹھہرانے کا حل تلاش کرناہوگا۔

(بسنت رتھ 2000 بیچ کے جمو ںو کشمیر کیڈر کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔)