گجرات انتخاب میں ذات ،برادری اور اقتصادی عدم مساوات کی آنچ پر ایسی کھچڑی پکی، جس کا ذائقہ بی جے پی کو اب کڑوا لگ رہا ہے۔
2002 میں گجرات فسادات کے بعد ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی اور نریندر مودی نے بڑی جیت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے ہی گجرات کی پہچان پورے ملک میں ‘ ہندو توا کی تجربہ گاہ ‘ کی شکل میں رہی ہے۔
بی جے پی نے یہاں ہندو توا کے حق میں سیاسی اکثریت جٹانے کے کامیاب تجربے کئے اور پھر ان کو پورے ملک میں آزمایا۔ اس کا سیدھا فارمولا تھا،پہلے ریاست کی اکثریتی آبادی کو ہندو توا کےحامیوں میں تبدیل کرنا اور پھر اقلیتی مسلمان آبادی کو ڈر دکھاکر ان کو ذات برادری کی سطح پر ٹوٹنے سے روککر ایک بڑی سیاسی کمیونٹی میں بدل دینا۔
بی جے پی اور سنگھ نے اس فارمولے کو ناقابل شکست بتاتے ہوئے ملک کی کئی ریاستوں میں آزمایا۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی دعویٰ کیا کہ مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنانے میں اسی تجربہ گاہ سے نکلے فارمولے نے اہم کردار ادا کیاہے۔
حالانکہ ہندو توا کی کامیاب تجربہ گاہ بننے کے قریب ڈیڑھ دہائی بعد گجرات میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے ہیں۔ اس انتخاب میں جو نتیجے آئے ہیں اس سے کچھ باتیں صاف ہوئی ہیں۔ پہلی، بی جے پی نے جیت حاصل کی ہے۔دوسری، کانگریس بازی پلٹ پانے میں ناکام رہی ہے۔ تیسری اور سب سے اہم یہ کہ گجراتی عوام نے ہندو تواکی تجربہ گاہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔
تیسرا پہلو اس لئے بھی اہم ہے کہ بی جے پی نے اس انتخاب میں بھی گجرات کو تجربہ گاہ بنانے کی تمام کوششیں کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت پوری بی جے پی نے اورنگ زیب، پاکستان، غدار، مندر، میرجعفر، جئےچند جیسے لفظوں کا بخوبی استعمال کیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ گجرات کی تمام ذاتوں کو ہندوتوا کے پرچم تلے یکجا کرنے میں ناکام رہی۔
اس انتخاب میں تین نوجوان لیڈروں الپیش ٹھاکور، ہاردک پٹیل اور جگنیش میوانی نے نریندر مودی اور سنگھ کے ہندو تواسے متعلق پہچان کو کڑی ٹکردی ہے۔ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنی ریاست میں ہی ان تینوں نے ذات ،برادری اور اقتصادی عدم مساوات کی آنچ پر ایسی کھچڑی پکائی جس کا ذائقہ بی جے پی کو اب کڑوا لگ رہا ہے۔
اس کا نمونہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کےصدر امت شاہ کے گجرات انتخاب کے بعد پارٹی کارکنان کو دئے گئے تقریروں میں صاف دیکھ سکتے ہیں۔ 150 سیٹوں کا ہدف بناکر میدان میں اترے بی جے پی کے صدر اور وزیر اعظم کارکنان کو جیت کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ ہی ذات ،برادری کو درپیش چیلنج سے لڑنے کا سبق بھی پڑھا گئے۔
اس اسمبلی انتخاب میں بی جے پی تین کے ہندسے میں نہیں پہنچ پائی ہے۔ جیت کے لئے ضروری اعداد و شمار پانے میں وہ کامیاب رہی ہے لیکن یہ ایک طرح سے اس کی اخلاقی ہار ہے۔ کئی سیٹوں میں اس کو بہت کم فرق سے جیت حاصل ہوئی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی تابڑ توڑ ریلیوں کے ساتھ پوری کابینہ نے گجرات میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ الیکشنکمیشن کا مبینہ فائدہ لینے، گجراتی وقار سے لےکرذات برادری کارڈ اور پاکستان تک کو اس انتخاب میں شامل کرنے والی بی جے پی کے ہاتھ بس محض جیت لگی۔
اس انتخاب میں اس جوان تکڑی نے اس غلط فہمی کو بھی توڑ دیا کہ گجرات بی جے پی کا وہ ناقابل تسخیرقلعہ ہے جس میں سیندھ نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ وہ بھی بنا کسی بڑی سیاسی مہارت یا وسائل کا سہارا لئے بغیر۔الپیش ٹھاکور نے گجرات میں پسماندہ برادریوں کو یکجا کیا، جو ملک کے باقی زیادہ تر ریاستوں کی طرح یہاں بھی رائےدہندگان کی بڑی آبادی ہے۔ وہ گجرات میں پسماندہ ذاتوں کے ان توقعات کی علامت بنکر ابھرے جن کا دم ہندوتوا کی تجربہ گاہ میں گھٹ رہا تھا۔
کچھ ایسا ہی ہاردک پٹیل کے ساتھ رہا۔ وہ بہت ترقی پسند نہ ہوتے ہوئے بھی اکثریتی پاٹیدار کمیونٹی کی امید بن گئے۔ ہاردک کی قیادت کی خاصیت یہ رہی کہ انہوں نے اپنی تحریک کو پاٹیداروں کی مانگ تک محدود رکھا۔ اس کو دلتوں یا پچھڑوں کے خلاف ٹول کی شکل میں استعمال نہیں ہونے دیا۔اسی طرح جگنیش کی بہتر سیاسی سمجھ کا تعارف کرایا۔ گجراتی سماج میں ذات برادری کے داخلی انتشار کی جو بہتر سمجھ ان کے پاس تھی۔ اس کو انہوں نے سیاسی امکان میں بدل دیا۔
گجرات میں جولائی 2016 میں اونا میں جانوروں کی کھال اتار رہے چار دلت لڑکوں کی مبینہ گئورکشکوں کے ذریعے وحشیانہ پٹائی کے بعد جگنیش میوانی نے دلت تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس کے بعد وہ پورے گجرات میں دلت تحریکوں کا چہرہ بن گئے۔ان سب میں کانگریس کی حصہ داری بس اتنی رہی کہ اس نے عوام کے بیچ سے نکلے ان جوان لیڈروں کے امکان کو سمجھا اور راہل گاندھی نے ان کی سیاست کو قیادت دینے کی دور اندیشی اور جرات دکھائی۔
فی الحال انتخابی نتائجنے یہ صاف کیا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے تجربہ گاہ بنے گجرات نے ہندوتوا اور نئی اقتصادی پالیسیوں سے بدحال برادریوں اور گروہوں کی توقعات کو جوڑتے ہوئے ایسا نتیجہ دیا ہے جس کا امکان کسی کو نہیں تھا۔
آنے والے دنوں میں گجرات کے انتخابی نتیجہ سے نکلا یہ امکان سیاست کی نئی عبارت لکھےگا۔