عآپ کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جس لیڈرنے بھی اروند کیجریوال کے خلاف آواز اٹھائی یا ان سے عدم اتفاق کیا، اس کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
’یہاں جتنے ایم ایل اے بیٹھے ہیں۔ میں ان سبھی سے ہاتھ جوڑکر کہوںگا کہ گھمنڈ میں کبھی مت آنا۔ تکبر مت کرنا۔ آج ہم لوگوں نے بی جے پی اور کانگریس والوں کا تکبر توڑا ہے۔ کل کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی عام آدمی کو کھڑا ہوکر ہمارا تکبر توڑنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ جس چیز کو بدلنے ہم چلے تھے کہیں ہم اسی کا حصہ ہو جائیں۔‘
یہ اس تقریر کا حصہ ہے جو اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی 2013 کا انتخابی نتیجہ آنے کے بعد جنتر منتر پر پارٹی کے تمام ایم ایل اے اور حامیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔اس بیان کے تقریباً چار سال بعد عام آدمی پارٹی اور اس کے کنوینر اروند کیجریوال پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ اسی سیاست کا حصہ ہو گئے ہیں جس کو وہ بدلنے چلے تھے۔
جمہوریت میں انتخاب صرف حکومت بنانے کا عمل نہیں ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں، تنظیم اور قیادت کے امتحان بھی ہوتے ہیں۔ یہ انتخاب سیاسی جماعتوں کی چال، سیرت اور چہرے کو بھی صاف کرتے ہیں۔حال ہی میں راجیہ سبھا کی تین سیٹوں کے لئے امیدواروں کے انتخاب کے عمل نے عام آدمی پارٹی کے اسی چہرے کو صاف کرنے کا کام کیا ہے۔جمہوریت کی امید صرف حکومت میں نہیں کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت کی گنجائش بنی رہنی چاہیے۔
جمہوریت کے اصلی معنی اور سوراج کی بات سمجھانے والی پارٹی کے لئے ان دنوں یہ سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی میں ہو کیا رہا ہے؟یہ سوال عام آدمی پارٹی کے حامی، ووٹر تو پوچھ ہی رہے ہیں، دوسری جماعت کے رہنما اور حامیوں کی بھی دلچسپی بنی ہوئی ہے۔
یہ سوال کیوں اہم ہے یہ جاننے کے لئے ہمیں عام آدمی پارٹی اور اس کے کنوینر اروند کیجریوال کے سیاسی سفر پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی۔دراصل 5 اپریل 2011 کو سماجی خدمتگار انّاہزارے نے سسٹم میں موجود بد عنوانی کے خلاف اور جن لوکپال بل کی مانگ کو لےکر بھوک ہڑتال کی شروعات کی تھی۔اس بھوک ہڑتال کو بھاری حمایت ملی تھی۔ انّا کے ساتھ ہی انڈیا اگینسٹ کرپشن (آئی اے سی) کی 24 رکنی ٹیم لوگوں کی نظر میں آ گئی۔
اسی کور کمیٹی کے کچھ ممبروں نے 26 نومبر 2012 کو سیاست میں جانے کا فیصلہ کیا۔ آئی اے سی کو ملی بھاری حمایت کو لےکر ان ممبروں نے عام آدمی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کیا۔اس کے کنوینر اروند کیجریوال بنے۔ 16 اگست 1968 میں ہریانہ کے ہسار ضلع میں پیدا ہوئے اروند کیجریوال آئی آئی ٹی کھڑگ پور سے گریجویٹ ہیں۔1992 میں وہ انڈین ریونیو سروسیز (آئی آر ایس) میں آ گئے اور دہلی میں انکم ٹیکس کمشنر کے دفتر میں ان کی تقرری ہوئی۔
سال 2000 کی جنوری میں انہوں نے دہلی کے حوالے سے ایک شہری تحریک ‘ پریورتن ‘ کی بنیاد رکھی۔ ارونا رائے اور کئی دیگر لوگوں کے ساتھ ملکر انہوں نے حق اطلاعات قانون کے لئے مہم شروع کی، جو جلد ہی ایک سماجی تحریک بن گی۔کیجریوال کو 2006 میں بہترین قیادت کے لئے میگ سیسے انعام سے نوازا گیا، کیونکہ انہوں نے ہندوستان کےحق اطلاعات قانون کی تحریک کو زمینی سطح پر فعال بنایا۔
26 نومبر 2012 کو کیجریوال نے عام آدمی پارٹی کا سرکاری طور پراعلان کیا۔ کیجریوال اور ان کے دوستوں نے اس پارٹی کی تشکیل کر کے ہندوستان میں بد عنوانی کے خلاف چل رہی تحریک کا سیاسی متبادل ملک کے عوام کو پیش کرنا چاہا۔اس پارٹی میں اس وقت تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا جب تک اس کو سیاسی جیت نہیں حاصل ہوئی تھی۔ 28 دسمبر 2013 کو دہلی اسمبلی انتخاب میں عام آدمی پارٹی کو 70 میں سے 28 سیٹیں ملیں۔
یہ جیت بہت بڑی تھی کیونکہ تب عام آدمی پارٹی بنانے کا سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا۔ اس وقت مانا جا رہا تھا کہ ان کی پارٹی دہلی میں دو-چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ انتخاب کے بعد آئے سروے میں بھی پارٹی کو بہت کم سیٹیں دی جا رہی تھیں۔لیکن کیجریوال نے لوگوں میں ایک اعتماد جگایا، لوگوں کو سمجھایا کہ وہ بد عنوانی کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو ہوا وہ تاریخ بن گئی۔ اس انتخاب کے دوران کیجریوال کی ہر بات نرالی تھی۔وہ نیلی ویگن آر کار میں گھومتے تھے۔ کوئی محافظ نہیں ہوتا تھا۔ وہ دہلی کے باہری حصوں کے گاؤں میں پہنچکر لوگوں سے ہاتھ ملاتے تھے۔ ان کے مسائل سنتے تھے۔
لوگوں کی بجلی، پانی جیسے مدعوں کو انہوں نے عآپنے انتخابی مہم کا مدعا بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی میں ہر چھوٹے سے چھوٹے کارکن کی بات سنی جائےگی۔ہندوستان میں سیاست ہمیشہ غلط وجہوں سے گفتگو میں رہتی تھی۔ مانا جاتا تھا کہ مالی قوت، جسمانی قوت، ذاتی کارڈ اور فرقہ پرستی کے بغیر انتخاب جیتنا مشکل ہے لیکن بدعنوانی سے پریشان عوام کو ان سب سے الگ اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی میں امید دکھی۔ تاریخ بنی اور سیاست کے معنی بدل گئے۔
پارٹی نے دہلی میں کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی حالانکہ 49 دنوں میں ہی جن لوک پال بل پیش کرنے کی تجویز کو حمایت نہ مل پانے کی وجہ سے اروند کیجریوال کی حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔دہلی اسمبلی میں ملی جیت سے پرجوش عام آدمی پارٹی نے آئندہ پارلیمانی انتخاب میں 432 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے۔ حالانکہ اس میں سے زیادہ تر کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔پارٹی کو صرف چار سیٹوں پر ہی جیت حاصل ہوئی۔ حالانکہ اس دوران پارٹی سے بڑی تعداد میں سماجی کارکن، صحافی، فلمساز، وکیل، انسانی حقوق کارکن جڑے۔پارٹی نے اگلی بڑی کامیابی 2015 کے دہلی اسمبلی انتخاب میں حاصل کی۔ پارٹی نے دہلی کی 70 اسمبلی سیٹوں میں 67 پر جیت حاصل کی۔
لیکن، 2015 میں وزیراعلیٰ بننے کے بعد اروند کیجریوال نے کچھ ایسے فیصلے لئے جن سے ان میں متبادل اور صاف ستھری سیاست کی امید دیکھ رہے لوگوں کا اعتماد ڈگمگانے لگا۔جہاں اس سے پہلے والے اسمبلی انتخاب میں ملی جیتکے بعد بڑی تعداد میں لوگ عام آدمی پارٹی سے جڑے تھے، وہیں اس جیتکے بعد سے ہی لوگوں کا دور جانا شروع ہو گیا۔
حالانکہ یہ سلسلہ اسمبلی انتخاب کے پہلے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس کی شروعات عآپ کے ٹکٹ پر لکشمی نگر سیٹ سے اسمبلی انتخاب جیتے ونود کمار بنّی نے کی۔وہ عآپ چھوڑکر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی کےنیشنل ایگزیکٹو ممبر رہیں شازیہ علمی نے کیجریوال پر پارٹی میں اندرونی جمہوریت نہیں بنانے کا الزام لگاکر عآپ سے کنارہ کر لیا تھا۔لیکن سب سے زیادہ تعجب تب ہوا جب دہلی کے اقتدار میں آنے کے بعد کیجریوال نے مارچ 2015 میں سب سے پہلے یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو عام آدمی پارٹی کی ‘ پالیٹکل افیرس کمیٹی ‘ سے باہر کر دیا۔حکومت اور پارٹی میں جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے کیجریوال کے اس فیصلے نے سب کو بہت چونکایا۔ اس کے بعد سے ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
شانتی بھوشن، آنند کمار، انجلی دمانیا، مینک گاندھی، کیپٹن گوپی ناتھ، کپل مشرا سمیت کئی بڑے اور عام آدمی پارٹی میں فعال ناموں نے پارٹی سے کنارہ کر لیا۔ان سارے لوگوں نے کیجریوال پر ٹکٹ بٹواروں میں من مانی کرنے، ایمانداری کی سیاست سے پیچھے ہٹنے، کارکنوںکا استعمال کرکے ان کو چھوڑ دینے، پارٹی کی اندرونی جمہوریت کو ختم کرنے جیسے الزام لگائے۔
یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی سے ہٹانے والے معاملے میں اروند کیجریوال کا ایک مبینہ آڈیو ٹیپ بھی سامنے آیا جس میں وہ بری طرح سے پارٹی کے سینئر رہنما یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن اور آنند کمار کو گالیاں دیتے ہوئے لات مارکر پارٹی سے باہر کرنے کی بات کر رہے ہیں۔اس کے بعد پارٹی کارکنان سمیت عوام میں یہ صاف پیغام گیا کہ عام آدمی پارٹی بھی فرد واحد اروند کیجریوال کے ارد گرد گھومنے والی پارٹی ہے۔
عام آدمی پارٹی کی سیاست پر نظر رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں پارٹی میں اسی کو جگہ ملی جو اروند کیجریوال کی گڈبک میں شامل تھا اور جس نے آواز اٹھائی اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔حالیہ راجیہ سبھا سیٹوں کے تنازعے کے دوران مخالف تیور عآپنانے والے کمار وشواس نے بھی پارٹی سپریمو اروند کیجریوال پر اس طرح کے الزام لگائے۔کمار وشواس نے کہا، ‘ میں جانتا ہوں کہ عآپ کی (کیجریوال) خواہش کے بغیر ہماری جماعت میں کچھ ہوتا نہیں، عآپ سے غیرمتفق رہکر وہاں زندہ رہنا مشکل ہے۔ ‘
فی الحال عام آدمی پارٹی نے جس طرح راجیہ سبھا کی سیٹوں کو لےکر سنجےسنگھ کے علاوہ سشیل گپتا اور این ڈی گپتا کا انتخاب کیا ہے۔ اس پر تمام سوال اٹھ رہے ہیں۔عام آدمی پارٹی کے بانیوں میں شامل، اروند کیجریوال کے معاون رہے اور اب سوراج ابھیان سے جڑے یوگیندر یادو نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘ پچھلے تین سال میں میں نے نہ جانے کتنے لوگوں کو کہا کہ اروند کیجریوال میں اور جو بھی غلطی ہوں، کوئی اس کو خرید نہیں سکتا۔ اسی لئے کپل مشرا کے الزام کو میں نے خارج کیا۔ آج سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ کیا کہوں؟ حیران ہوں، مبہوت ہوں، شرمسار بھی۔ ‘
اسی طرح عام آدمی پارٹی کے سابق رہنما اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘ عآپ نے جن لوگوں کو راجیہ سبھا کا ٹکٹ دیا ہے، ان کی عوامی خدمات کے شعبے میں کوئی خاص پہچان نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی شعبے کے ماہر ہیں، جن کو راجیہ سبھا بھیجا جائے۔ والنٹیرس کی آواز کو نظرانداز کرنا یہ دکھاتا ہے کہ پارٹی کا اب پوری طرح سے زوال ہو چکا ہے۔ ‘
اس کے علاوہ عآپ پارٹی چھوڑ چکیں انجلی دمانیا نےاس پر کئی ٹوئٹ کئے۔ انجلی دمانیا لکھتی ہیں، ‘ عآپ راجیہ سبھا کے لئے میرا سانیال، کمار وشواس، آشوتوش اور آشیش کھیتان کے نام پر خیال کیوں نہیں کر رہی ہے۔ کیا یہ لوگ سابق کانگریسی سے 1000 گنا بہتر نہیں ہیں؟ اس سے بڑی تعداد میں لوگ پارٹی سے چلے جائیںگے اور اس پارٹی کو لےکر جو تھوڑی امیدیں ہیں وہ بھی ختم ہو جائیںگی۔ ‘انہوں نے آگے لکھا، ‘ عآپ چھوڑنے کے بعد بھی میں نے اس کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا کیونکہ میرے دل کے ایک کونے میں عآپ کے لئے جگہ تھی۔ مجھے امید تھی کہ پارٹی اصلاح کرےگی۔ لیکن اب مجھے یقین ہے کہ عآپ کا نظریہ ختم ہو گیا ہے۔ اب سے یہ میرے لئے کسی دوسری پارٹی کی طرح ہی ہے۔ ‘
کیا واقعی میں عام آدمی پارٹی بھی باقی پارٹیوں جیسی ہو گئی ہے؟ کیا واقعی میں اروند کیجریوال پارٹی کو تاناشاہ کی طرح چلا رہے ہیں جس میں ان کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ہے؟اس سوال پر سینئر صحافی اوم تھانوی کہتے ہیں، ‘ اروند کیجریوال تاناشاہ کی طرح پارٹی چلا رہے ہیں یہ کہنا تو ابھی جلدبازی ہوگی لیکن انہوں نے جس طرح سے راجیہ سبھا کے لئے نام طے کئے ہیں اس کو لےکر حیرانی ہوتی ہے اور لوگوں میں بےچینی بڑھی ہے۔ اس میں سے ایک تو ایک مہینے پہلے تک کانگریسی تھے اور دونوں لوگ کاروبار کی دنیا سے آتے ہیں۔ اپنی پارٹی کے کئی دعوے دار کو درکنار کر کے جس طرح سے دو انجان چہروں کو ٹپکایا گیا ہے اس سے اس بات کو ضرور ہوا ملےگی کہ اروند کیجریوال پارٹی میں ایک طرح کی اجارہ داری پنپا رہے ہیں۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘ اروند کیجریوال کا سیاست میں آنا بہت اہم واقعہ ہے اور جتنی جرات اور ہوشمندی انہوں نے دکھائی ہے وہ اپنے عآپ میں انوٹھا ہے۔ انہوں نے فرقہ پرستی اور بد عنوانی جیسی برائیوں سے پارٹی کو بچاکر رکھا ہے لیکن پارٹی کو پوری طرح جمہوری طریقے سے چلانا ضروری ہے۔ یہ دکھنا بھی چاہیےپارٹی جمہوری طریقے سے کام کر رہی ہے نہ کہ اجارہ داری طریقہ۔’
اوم تھانوی کہتے ہیں، ‘ عآپ کے سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ملک کے کچھ اہم نام پارٹی سے جڑے اور آہستہ آہستہ الگ ہو گئے۔ ان کے الگ ہونے پر کیجریوال بہت غم زدہ ہوئے ہوں ایسا بھی کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کیجریوال کے عمل کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان کی خوبیوں کے ساتھ یہ کیجریوال کی ایک بڑی کمی کو بھی دکھاتاہے۔ ‘
کچھ ایسا ہی ماننا سینئر صحافی پرمود جوشی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اروند کیجریوال بالکل بھی جمہوری طریقے سے نہیں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جس کو سیاسی اقتدار ملا وہ جمہوری ہونے کے بجائے تاناشاہی کے راستے پر لے گیا۔ ہمارے یہاں تمام پارٹیاں-بی جے پی، کانگریس یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹیوں میں اس طرح کا رجحان دکھتا ہے۔ لیکن عآپ سے یہ امید کر رہے تھے کہ جو روایتی طورطریقے ہیں یا جو اقتدار کی سیاست ہے اس میں تبدیلی کریںگے۔ کیونکہ اروند کیجریوال کہا کرتے تھے کہ ہم حکومت کرنے نہیں آئے ہیں، ہم اقتدار کا مزہ لینے نہیں آئے ہیں۔ تبدیلی کی سیاست کرنے آئے ہیں۔ ‘
جوشی آگے کہتے ہیں، ‘ راجیہ سبھا میں ٹکٹ کے بٹوارے کے بعد اب ہمیں باقی پارٹیوں اور عآپ میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ عآپ بھی ہائی کمان مرکوز پارٹی بن گئی ہے۔ یہ پارٹی بھی رجحان میں تقسیم گئی ہے۔ یہ بہت معمولی لوگوں کی پارٹی تھی لیکن آج ا س کے وزرا اور ایم ایل اے کی فہرست دیکھیں تو بڑی تعداد میں کروڑپتی شامل ہیں۔ ایک رائےدہندگان کی شکل میں عآپ کی سیاست سے دھکا لگا ہے۔ تبدیلی کی بات کرنے والے ہی اگر اس پر قائم نہیں رہ پائیں تو ہمیں کس سے امید کرنی چاہیے۔ ‘
پرمود جوشی کہتے ہیں، ‘ کیجریوال شروعات میں بہت ہی آسان اور سیدھے لگتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ ڈرامائی لگنے لگے۔ ان سے امیدیں تھیں لیکن ان امیدوں کو دھکا لگا۔ جن سوالوں کو لےکر وہ سامنے آئے تھے اب ان سوالوں پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔ وہ سارے سوال اب بہت پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔ ‘دراصل عآپ میں حالیہ تنازعہ سشیل گپتا اور نارائن داس گپتا کی راجیہ سبھا کی امّیدواری کو لےکر ہے۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ دونوں بڑے سرمایہ دار ہیں اور ان کی عوامی زندگی میں کوئیخدمات نہیں ہیں۔
اس میں سے سشیل گپتا حال ہی میں کانگریس چھوڑکر عآپ میں شامل ہوئے ہیں۔ الزام یہ بھی ہے کہ اروند کیجریوال پیسے والوں کے آگے جھک گئے ہیں۔سشیل گپتا دہلی کے بڑے کاروباری ہیں۔ انہوں نے وکالت کی ہے۔ ان کی جائیداد میں 48 کروڑ 47 لاکھ روپے (خود کے پاس)، 20 کروڑ 67 لاکھ روپے قیمت کی غیر منقولہ جائیداد (خود کے نام)، 88.07 کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد (بیوی کے نام) ہے۔
کل جائیداد 170 کروڑ 29 لاکھ روپے کی ہے۔ جس میں دین داریاں 7.60 کروڑ روپے (خود کے نام)، 89 کروڑ 72 لاکھ روپے (بیوی کے نام) ہے۔ وہ ایک آڈی، ایک سینٹرو کار اور ایک ٹریکٹر کے مالک ہیں۔اس کے علاوہ نارائن داس گپتا بھی کروڑپتی ہیں۔ پیشے سے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ نارائن داس گپتا کی منقولہ جائیداد 1 کروڑ 76 لاکھ روپے (خود کے پاس)، 2 کروڑ 97 لاکھ روپے (بیوی کے پاس) ہے۔
بیوی کے پاس 4 کروڑ 97 لاکھ روپیے کی غیر منقولہ جائیداد ہے۔ کل جائیداد 9 کروڑ 60 لاکھ روپےکی ہے۔ گھر میں ایک بھی گاڑی نہیں ہے۔اس بات پر پارٹی کے رہنما کمار وشواس اور عام آدمی پارٹی دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ پہلے عآپ سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد امیدوار سنجے سنگھ نے کہا کہ کمار وشواس ناراض ہیں تو ان کو منائیںگے۔ لیکن بعد میں پارٹی کے ایک دوسرے رہنما گوپال رائے نے کمار وشواس کو ہی کٹہرےمیں کھڑا کر دیا۔
گوپال رائے نے کہا، ‘ ان کے ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، ناراض تو سارے لوگ ان سے ہیں۔ جو وعدے انہوں نے پارٹی سے کئے ان کو پورا کرنے کی جگہ پوری پارٹی کا چھیچھالیدر کرتے رہے اور اوپر سے امید کرتے رہے کہ راجیہ سبھا میں بھیج دیا جائے اور پھر بھی ناراض ہوکر بیٹھے ہیں۔ ان کو ٹھنڈے دماغ سے پچھلے آٹھ مہینوں کی سرگرمیوں پر دوبارہ غور کرنا چاہیے پارٹی نے ابھی صرف یہی فیصلہ لیا ہے کہ راجیہ سبھا ان کو نہیں بھیجا جائےگا۔ اس کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ‘
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کمار وشواس دہلی کی حکومت گرانے کی سازش رچ رہے تھے۔ ان کے گھر میں اس کے لئے مجلس تک ہوئیں یہی وجہ ہے کہ ان کو راجیہ سبھا نہیں بھیجا گیا۔فی الحال اس واقعہ کے بعد عام آدمی پارٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ابھے کمار دوبے کہتے ہیں، ‘ راجیہ سبھا کے واقعہ سے پہلے اروند کیجریوال نے عام طور پر ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا جس کو غلط ٹھہرایا جائے۔ سیاست میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ کبھی عآپ کو خاموش رہنا پڑتا ہے۔ کبھی عآپ جارحانہ ہوتے ہیں۔ اس عمل نے ان کی سیاست پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ ‘
عآپ چھوڑکر جانے والے رہنماؤں کو لےکر دوبے کہتے ہیں، ‘ ایک پارٹی میں جس طرح کے کارکنان اور رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے عآپ سے نکلنے والے زیادہ تر لوگ اس میں فٹ نہیں ہوتے ہیں۔ عآپ سے باہر نکلے زیادہ تر رہنما جیسے انجلی دمانیا، مینک گاندھی، پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو سیاسی جماعتوں میں کام نہیں کر رہے ہیں۔ یہ جماعتوں کی دنیا سے باہر کے لوگ ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کام کرنے کی اپنی شرطیں ہوتی ہیں۔ ایک طرح کا پارٹی نظم وضبط بنانا پڑتا ہے۔ قیادت کی بات ماننی پڑتی ہے۔ اگر نہیں مانیںگے تو یا تو قیادت رہےگی یا پھر عآپ رہیںگے۔ پھر بھی میں مانتا ہوں کہ عآم عادمی پارٹی کو کوشش کرنی چاہیےتھی سب اس میں رہیں لیکن وہ نہیں کر پائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے معاملہ کیسے بڑھتا ہے کیونکہ عام آدمی پارٹی اس حالت پر ہے جہاں سے اگر وہ چوکی تو باقی پارٹیوں جیسی بن جائےگی۔ ‘
حالانکہ سینئر صحافی ارمیلیش اس سے الگ رائے رکھتے ہیں۔ اروند کیجریوال کے سیاسی سفر پر وہ کہتے ہیں، ‘ راجیہ سبھا انتخاب کے دوران جو ہوا وہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ یہ پہلے بھی بہت بار ہوا ہے۔ اروند کیجریوال کے اندر تاناشاہی رجحان موجود ہے۔ وہ پہلے افسر رہے ہیں۔ پھر این جی او سیکٹر میں کام کیا ہے تو یہ کریلا اوپر سے نیم چڑھا والی کہاوت ہو گئی ہے۔ وہ پارٹی کو سی ای او کی طرح چلاتے ہیں۔ جو لوگ پارٹی میں اعلیٰ سطح پر ہیں یا ان کے قریبی ہیں وہ لوگ این جی او کے زمانے میں بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور جن کو وہ حکم دیا کرتے تھے۔ اروند کیجریوال میں اس سینس میں تھوڑی سی بھی جمہوریت نہیں ہے’
حالانکہ اب بھی بہت سارے لوگ عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال سے اخلاقی، اختیاری اور اصول پر مبنی سیاست کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی نہ اس طرح کی سیاست کے لئے بنی تھی، نہ لوگوں نے یہ سب کرنے کے لئے اس کو ووٹ دیا تھا۔
Categories: فکر و نظر