سچ تو یہ ہے کہ آپ ہندوؤں کی حمایت میں بھی نہیں بول رہے ہیں۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے غیراعلانیہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہندومسلم کشیدگی پیدا کرکے آپ ان کے سیاسی مفاد کو پورا کر رہے ہیں۔
ہندوؤں کے قتل کو ٹھہرایا جائز! بنا اجازت ترنگا یاترا نکالی ہی کیسے؟ بھارت ماتا کی جئے جیسے اشتعال انگیز نعرے لگائے ہی کیوں؟ دینک بھارت نام کے افواہ پھیلانے اور فسادات کروانے والے فیس بک پیج میرے اور پنکج جھا کے بارے میں کچھ بھی بیہودہ چھاپ رہا ہے۔ افواہ پھیلانے والوں کی سرگرمی اور بغیر حقیقت پرکھے بہاؤ میں آ جانے والی عوام کا عالم یہ ہے کہ صرف آپ تک سچ،حقیقت پہنچانے والے نامہ نگاروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کی فیملی تک کو بخشا نہیں جا رہا ہے۔
پنکج جھا کاس گنج گئے تھے۔ وہاں کیا ہوا اس پر رپورٹ کی، بغیر کسی لاگ لپیٹ کے، بغیر کسی کو گناہ گار ٹھہرائے اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
پڑھیے انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر کیا لکھا ہے؛
سویرے سے کچھ خاص طرح کے لوگ ہمیں فون کر گالیاں دے رہے ہیں، جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں، بیٹی کا اغوا کرنے کا چیلنج دے رہے ہیں۔ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ملک میں ترنگا یاترا نکالنے کے لئے بھی اجازت کی ضرورت پڑےگی؟ لیکن ایسا تو کاس گنج کے ڈی ایم نے کہا تھا، تو سوال ان سے بنتا ہے۔ سالوں کی صحافت کرتے ہوئے آج یہ دن بھی دیکھنا پڑا ہے۔ ان نمبروں کو اٹھانا میں نے بند کر دیا ہے۔ آپ پوچھیںگے کیوں؟ ادھر سے آتی ہیں گالیاں اور گولی مارنے کی دھمکیاں۔
بیٹی کا اغوا؟ سچ مچ؟ ہندومسلم ٹکراؤ میں ماحول اکثر مشتعل ہوتا ہے اور ایک بھی اشتعال انگیز بیان ماحول میں آگ لگانے جیسا کام کر سکتا ہے۔ اگر ماحول میں زہر گھولنے کا کام صرف شدت پسند اداروں کا ہوتا تو بات سمجھ آتی۔ یہاں تو مین اسٹریم سے جڑے صحافیوں نے حقائق کو طاق پر رکھکر، ملک کی عوام کے سامنے اپنی سہولت کے حساب سے غلط بیانی کی۔
غور کیجئے اس اینکر کے ہیڈ لائنس پر…
-
ہندوستان میں ہی کیا قومی پرچم پھہرانے پر جھگڑے ہوںگے؟
-
ترنگا ہندوستان میں نہیں تو کیا پاکستان میں پھہرایا جائےگا؟
-
کاس گنج میں ترنگے کے دشمن کون لوگ ہیں۔ پولیس ان کے نام کیوں نہیں بتا رہی؟
-
ملک کے اندر ایسے کتنے پاکستان پنپ رہے ہیں؟
-
کیا وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے فرقہ وارانہ نعرے ہیں؟
تیسری بات پر غور کیجئے۔ کاس گنج میں ترنگے کے دشمن کون ہیں؟ واقعی؟ یہ حقیقت کیوں چھپائی گئی کہ مسلمان بھی جھنڈا پھہرا رہے تھے؟ یہ بات تو تصویروں اور خود آئی جی ٹھاکر کے بیانات سے واضح ہوتی ہے۔ اس میں آپ کو کوئی انقلابی کھوجی صحافت کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
ترنگا یاترا کی اجازت نہیں تھی، یہ بات تو خود انتظامیہ کہہ رہی ہے۔ اے بی پی خبر صرف آپ کے سامنے حقیقت رکھ رہا تھا۔ مگر اس چینل کے اینکر نے تو پہلے ہی دن ایک خاص کمیونٹی کو پاکستانی قرار دے دیا۔
مسلمان بھی تو ترنگا ہی لہرا رہے تھے؟ پھر کیوں ان کو ترنگے کا دشمن بتایا جا رہا تھا؟ اور جب مسلمان کمیونٹی بھی ترنگا پھہر رہا تھا، تب ملک کے اندر پاکستان پنپنے کی بات کہنا کتنا جائز ہے؟
ماحول جب پہلے سے ہی گرم ہے تو پاکستان کو بحث میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ کس کے سیاسی مفاد کے لئے ایسی باتیں کی جا رہی ہیں؟ اور بات یہاں آکے تھمتی نہیں۔
کاس گنج تشدد کی رپورٹنگ کے بعد اے بی پی خبر کے صحافی پنکج جھا کو فون پر ان نمبرات سے دھمکیاں مل رہی ہیں؛
غلطی پکڑے جانے کے باوجود کوئی معافی نہیں۔ ایسا جھوٹ پھیلانے والوں پر کوئی کارروائی نہیں۔ اسی گروپ سے جڑے ایک دوسرے صحافی نے تو ایک اچھے خاصے انسان کو مردہ اعلان کر دیا۔ اور سوشل میڈیا میں چلایا جانے لگا کہ چندن گپتا کے ساتھ ساتھ راہل اپادھیائے بھی فسادات میں چلی گولی کی نذر چڑھ گیا۔
غلط بیانی، جھوٹ، جزوی حقیقت، یہ سب کب سے میڈیا کا کام ہو گیا؟ اور وہ بھی ایک فرقہ وارانہ ٹکراؤ میں؟ میڈیا غلطیاں کرتا ہے، اس میں دو رائے نہیں۔ مگر جان بوجھ کر؟ کیا یہ صحیح نہیں کہ اسی چینل کو اپنے ایک دوسرے نامہ نگار کو کاس گنج بھیجنا پڑا اور نئے سرے سے رپورٹ فائل ہوئی؟
اور اس نامہ نگار کے ذریعے فائل کی گئی رپورٹ، اس پروگرام کے جھوٹ کے بالکل الٹ تھی؟ اگر آپ کی بات میں سچائی تھی، تو اڑے رہتے اس پر؟ مگر چینل بھی جانتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔ مگر یہ محض ایک معمولی غلطی نہیں ہے۔
کاس گنج میں مسلمانوں کےمبینہ ترنگا مخالفت کو آپ نے اپنے اس ایک پروگرام کے ذریعے پورے ملک میں پھیلا دیا ہے۔ اس اینکر کے جھوٹ کا خمیازہ صرف ایک کمیونٹی نہیں، اس نفرت کے نتائج وہ تمام لوگ بھگتیںگے، جو اس کی چپیٹ میں آئیںگے۔ کیونکہ جب فرقہ وارانہ آگ لگتی ہے تو وہ مذہب پوچھکے کسی کا گھر نہیں جلاتی۔ اس کا قہر جمہوری ہوتا ہے۔ سب کو برابری سے نگلتا ہے۔
اس جھوٹ کا خمیازہ میرے اور پنکج جھا جیسے صحافی بھی بھگت رہے ہیں۔ میں چیلنج دیتا ہوں کہ آپ ثابت کریں کے میں نے یا پنکج نے کب چندن کی موت کو جائز ٹھہرایا۔ ہم نے جو کہا سب ہمارے بلاگ اور رپورٹس کے ذریعے عوام کے سامنے ہے۔
ہم صرف حقائق ہی پیش کر رہے تھے۔ جیسا کہ ہونا بھی چاہیے۔ مگر سماج میں تشدد کو بڑھاوا دینے والی اینکرنگ کی کیا جوابدہی ہے؟ ہندومسلم میں کشیدگی بنی رہے، یہ کس سیاسی الو کو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟
کیا یہ بات بریلی کے ضلع مجسٹریٹ راگھویندر وکرم سنگھ نے نہیں کہی کہ آخر یہ تمام یاترائیں مسلمان اکثیریت علاقوں سے کیوں نکالی جاتی ہیں اور کیوں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اور میں پھر واضح کر دوں کہ بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم اشتعال انگیز نعرے نہیں ہیں۔ مگر محلّے میں جا کر پاکستان کا طعنہ مارنا غلط ہے۔
کیا اتر پردیش کے گورنر رام نائک نے کاس گنج کے فساد کو ریاست پر کلنک نہیں کہا؟ اب ان کے بارے میں کیا کہیےگا؟ ان کو غدار وطن کہنے کی گستاخی تو نہیں کر سکتے نہ ہم؟
دقت یہ ہے کے فرقہ وارانہ معاملوں پر رپورٹنگ دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ دو کمیونٹی میں ہوئے تصادم میں، اکثریت سے جڑے لوگ چاہتے ہیں کہ میڈیا دوسری کمیونٹی کو بدمعاش قرار دے۔
مگر، رپورٹنگ کثرت پرستی نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ چندن گپتا ایک ہندو تھے مگر اس کے چلتے آپ جھوٹ دکھلا کر ماحول کو اور خراب تو نہیں کر سکتے؟ کتنے اور چندن گپتا کی قربانی چاہتے ہیں یہ اینکر؟
اور سب سے بڑی بات، سچ تو یہ ہے کہ آپ ہندوؤں کی حمایت میں بھی نہیں بول رہے ہیں۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے غیراعلانیہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہندومسلم کشیدگی پیدا کرکے آپ ان کے سیاسی مفاد کو پورا کر رہے ہیں۔
ماحول کو خراب کرکے، سکون و امن کو طاق پر رکھکر آپ کس حُب الوطنی کی بات کرتے ہیں؟ کیا ملک سلگتا رہے، یہی حب الوطنی ہے آپ کی؟ بنیادی مدعوں پر بحث نہ کرکے، کسانوں، نوکری پیشہ لوگوں، حکومت کی ناکامیوں کے مدعےکو نہ اٹھاکر آپ لوگوں کا دھیان کیوں بھٹکا رہے ہیں؟ اور چلو مان بھی لیا کہ تم پارٹی خاص کے پچھلگو ہو، تو ملک میں عدمِ استحکام پیدا کرکے آپ مودی جی کے میک ان انڈیا کے خواب کو کیسے پورا کر رہے ہو؟ کم سے کم سیاسی وفاداری تو سلیقےسے نبھاؤ؟
اگر ملک میں انتہاپسندی گروپ بندی، مین اسٹریم میں داخل ہو رہے ہیں تو اس لئے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کو ہوا دینے کے لئے میڈیا کا ایک طبقہ موجود ہے، جس کو بڑی تعداد میں دیکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے جرم کو چھپاتے بھی نہیں، البتہ اس کو کیمرے میں رکارڈ کرکے وائرل کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میڈیا کا ایک طبقہ ہے جو مدعے کو بھٹکا کر انھیں مظلوموں کے طور پر پیش کرےگا۔
ایسے لوگوں کو ہوا دےکر، آپ عام انسان کی جان جوکھم میں ڈال رہے ہیں۔ ہمارے بچّوں کی حفاظت اور مستقبل کو طاق پر رکھ رہے ہیں۔ یہ صرف صحافت سے بےایمانی نہیں، البتہ اس ملک کے سب سے اہم، سب سے اہم اکائی، ہماری فیملی کے ساتھ ناانصافی ہے۔
اس کے سکون، اس کی خوشی،امن پر یہ لوگ وار کر رہے ہیں۔ اور یہ، نہ صرف صحافی کے طور پر، بلکہ ایک باپ کے طور پر مجھے منظور نہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور اے بی پی نیوز سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ مضمون ان کے فیس بک پیج پر شائع ہواہے۔ )
Categories: فکر و نظر