پارلیامنٹ کی دو اور اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کراری ہارکے بعد ریاست میں قیادت کی تبدیلی کی بحث پھر سے شروع ہوگئی ہے۔
اجمیر اور الور کی پارلیامانی سیٹوں اور مانڈل گڑھ کی اسمبلی سیٹ کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب میں کانگریس نے بازی مار لی ہے۔ اجمیر سے ڈاکٹر رگھو شرما، الور سے ڈاکٹر کرن سنگھ اور مانڈل گڑھ سے وویک دھاکڑ کو جیت حاصل ہوئی ہے۔غور طلب ہے کہ پہلے ان تینوں سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔ وسندھرا راجے نے ان تینوں سیٹوں پر جیت کے لئے پورا زور لگایا تھا۔ انہوں نے خود کئی دنوں تک تشہیر میں پسینہ بہایا جبکہ ان کے وزراانتخاب کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سے ہی انتخابی میدان میں کیمپ کر رہے تھے۔ باوجود اس کے نتیجہ خوش کن نہیں رہا۔
ایسے وقت میں جب راجستھان میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کراری ہار نے پارٹی کی مرکزی قیادت کی پیشانی پر پسینہ لا دیا ہے۔غور طلب ہے کہ ضمنی انتخابات میں تشہیر کے دوران بی جے پی کے رہنما لگاتار یہ کہتے تھے کہ یہ انتخاب اسمبلی انتخاب کا سیمی فائنل ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ اس سیمی فائنل کی تینوں سیٹیں ہم جیتیںگے اور فائنل میں بھی ہم ہی فتح حاصل کریں گے۔ لیکن پارٹی کو نہ صرف ہار کا منھ دیکھنا پڑا، بلکہ وہ کہیں مقابلے میں بھی نہیں دکھی۔
اجمیر اور الور کی 16 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف ایک پر ہی پارٹی کے امیدوار اضافہ کرنے میں کامیاب ہو پائے جبکہ مانڈلگڑھ اسمبلی سیٹ پر کانگریس کے باغی امیدوار گوپال مالویہ کے حیرت انگیز مظاہرہ کے باوجود پارٹی جیتنے میں ناکام رہی۔حالانکہ ضمنی انتخاب کے ان نتیجوں سے نہ تو ریاستی حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑےگا اور نہ ہی مرکز پر۔ لیکن اس سے پارلیامنٹ میں راجستھان سے کانگریس کی نمائندگی ختم ہونے سے بچ گئی۔
غور طلب ہے کہ 2014 میں ہوئے پارپارلیامانی انتخابات میں راجستھان کی تمام 25 سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ وہیں، راجیہ سبھا کی 10 سیٹوں میں سے 8 پر بی جے پی کے رکن پارلیامان ہیں۔ جو دو رکن پارلیامان؛ابھشیک منو سنگھوی اور نریندر بڑھانیا کانگریس کے ہیں ان کادور بھی اسی سال 3 اپریل کو ختم ہو رہا ہے۔
اگر پارلیامنٹ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی جیت جاتی تو پارلیامنٹ میں راجستھان سے کانگریس کا ایک بھی رکن پارلیامنٹ نہیں رہتا، جو تاریخی ہوتا۔بی جے پی کے لئے ضمنی انتخاب میں کراری ہار سے زیادہ فکرمند کرنے والا سوال یہ ہے کہ سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخاب پر ان کا کیا اثر پڑےگا۔ کیا راجستھان کے عوام نے پرانی روش پر چلتے ہوئے اس بار کانگریس کو اقتدار سونپنے کا من بنا لیا ہے؟
قابل ذکر ہے کہ ریاست میں لمبے عرصے سے پانچ سال میں اقتدارکی تبدیلی کی روایت رہی ہے۔ بی جے پی کے اندر بھی اس بحث نے پھر سے زور پکڑ لیا ہے کہ اگر پارٹی نے وسندھرا راجے کی قیادت میں اسمبلی انتخاب لڑتی ہے تو نتیجہ ضمنی انتخاب کی طرح ہی مایوس کن ہوںگے۔ حالانکہ اس مسئلے پر سینئر رہنما تو کھلکر نہیں بول رہےہیں، لیکن پارٹی کے کارکنان اور حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ‘ مودی تجھ سے بیر نہیں، وسندھرا تیری خیر نہیں ‘ جیسے میسیج خوب چل رہے ہیں۔
دراصل، راجستھان میں بی جے پی کے سامنے دوہرا چیلنج ہے۔ پہلا اقتدار مخالف لہر اور دوسرا خود کو نظر اندازکیے جانے سے ناراض رہنما اورکارکن، بی جے پی کا ایک خیمہ یہ مانتا ہے کہ ان دونوں چیلنج کے لئے وسندھرا راجے کا طریقہ کار ذمہ دار ہے۔نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بی جے پی کے ایک سینئر ایم ایل اے کہتے ہیں، ‘ وسندھرا راجے نے بھاری اکثریت ملنے کے باوجود راجستھان کی سب سے زیادہ غیرمعروف حکومت دی ہے۔ سماج کے کسی بھی طبقے کے لئے حکومت نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے۔ الٹے سماج کے کئی طبقے حکومت کی سستی کی وجہ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ سینئر رہنماؤں کو نظرانداز کرنے اور کارکنان سے فراموشی کی وجہ سے تنظیم کا ڈھانچہ پوری طرح سے چرمرا گیا ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اسمبلی انتخاب میں پارٹی کی بربادی طے ہے۔ ‘
اصل میں بی جے پی جو وعدے کرکے اقتدار میں آئی تھی، ان میں سے زیادہ تر ادھورے ہیں۔ حکومت کے کھاتے میں گنانے کے لئے تو کئی کامیابیاں ہیں، لیکن زمین اور سماج کے بڑے طبقوں پر اس کا اثر نہیں ہے۔خاص طورپر نوجوان حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ وسندھرا راجے نے انتخاب سے پہلے نوجوانوں کو 15 لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابتک 50 ہزار کو بھی نوکری نہیں ملی ہے۔
حکومت نے جو اسامیاں نکالیں بھی، ان میں سے زیادہ تر قانونی بکھیڑے میں پھنس گئیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی تحریکوں سے نمٹنے میں دیری بھی سردرد ثابت ہوئی ہے۔ حکومت کی اندیکھی کی وجہ سے ہی ڈاکٹروں کی ہڑتال، انندپال انکاؤنٹر اور کسان تحریک جیسے موضوع تل کا تاڑ بن گئے۔
دراصل، وسندھرا راجے کی سیاست کرنے کا اپنا انداز ہے۔ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتیں۔ ان کے قریبی پنچایتی راج کے وزیر راجیندر راٹھوڑ کئی بار عوامی طور سے کہہ چکے ہیں کہ راجستھان میں وسندھرا راجے ہی بی جے پی ے اور بی جے پی ہی وسندھرا راجے ہے۔راجے کے اب تک کے سیاسی سفر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی بی جے پی میں ان کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا۔ چاہے ٹکٹ بٹوارا ہو یا کابینہ کے ممبروں کا انتخاب۔
وسندھرا نے سنگھ کی پسند اور سینئرٹی کو درکنار کر کےگھنشیام تیواری، پرتاپ سنگھ سنگھوی، نرپت سنگھ راجوی، گرجنٹ سنگھ، سوریہ کانتا ویاس اور بابو سنگھ راٹھوڑ جیسے سینئر ایم ایل اے کو کابینہ میں جگہ نہیں دی۔یہی نہیں، بی جے پی کے کئی رہنما وسندھرا کے طریق کار کی وجہ سے پارٹی چھوڑکر سیاست کی الگ راہ پکڑ چکے ہیں۔ ان میں دو ایم ایل اے ڈاکٹر کروڑی لال مینا اور ہنومان بینیوال بڑے نام ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی اپنی برادری میں مضبوط پکڑ ہے۔
ڈاکٹر کروڑی کی پارٹی میں واپسی کے لئے سنگھ لمبے وقت سے کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ راجے کی قیادت میں ‘ گھر واپسی ‘ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ میں نے وسندھرا کے طریقہ کار کی وجہ سے ہی پارٹی چھوڑی تھی۔ ان کی قیادت میں پارٹی میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘
بی جے پی کے سینئر ایم ایل اے گھنشیام تیواڑی نے وسندھرا کے خلاف کھلے عام بغاوت کر رکھی ہے۔ وہ نئی پارٹی بناکر اسمبلی انتخاب لڑنے تک کا اعلان کر چکے ہیں۔ حکومت ہی نہیں تنظیم کی سطح پر بھی وسندھرا راجے کی طوطی بولتی ہے۔ یہاں تک کہ ریاستی صدر بھی ان کی پسند کا آدمی ہی بنتا ہے۔
ان دنوں ریاست میں بی جے پی کا کمان اشوک پرنامی کے پاس ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ وہ وسندھرا کی مہربانی سے ہی اس عہدے پر ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو راجے چاہتی ہیں۔وسندھرا مخالف خیمہ کو یہ شکایت لمبے وقت سے ہے کہ راجے اورپرنامی کی جوڑی اقتدار اور تنظیم میں زمینی رہنماؤں پر توجہ دینے کے بجائے اپنوں کو احسان مند کرتی ہے۔ دونوں کا ہی کارکنوںسے سیدھا مکالمہ نہیں ہے۔
پارٹی کی مرکزی قیادت کے پاس یہ رپورٹ پہلے سے ہے۔ سکریٹری کے عہدے پر چندرشیکھر مشرا کی تقرری اس کی تصدیق کرتی ہے، لیکن وہ بھی کارکنوں میں جوش نہیں پھونک پا رہےہیں۔ایسے میں کیا یہ مانا جائے کہ وسندھرا کا متبادل تلاش کرنابی جے پی کی مجبوری بن گی ہے؟ سیاسی گلیاروں میں یہ بحث للت گیٹ واردات کے بعد سے ہی گرم ہے کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت وسندھرا کو جلدہی دہلی بلاکر مودی کابینہ میں شامل کرنے والی ہے۔
یہی نہیں، ان کی جگہ وزیراعلیٰ کے لئے اوم پرکاش ماتھر، راجیہ وردھن سنگھ راٹھوڑ، ارجن میگھوال، سنیل بنسل، گلاب چند کٹاریہ اور ارون چترویدی جیسے ناموں کی بحث عام ہے۔ کیا واقعی میں ایسا ہو سکتا ہے؟ذرائع کے مطابق پارٹی پہلے بھی کئی بار وسندھرا کو ہٹانے کی سوچ چکی ہے، لیکن ایم ایل اے کے ٹوٹنے کے ڈر سے ایسا نہیں کر پائی۔ پارٹی کے سامنے راجے کو ہٹانے سے زیادہ بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان کی جگہ کس کو لایا جائے۔ باقی جتنے بھی نام ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اتنا بڑا رتبہ نہیں ہے کہ پوری پارٹی بخوشی ان کی قیادت قبولکرلے۔
وسندھرا کو ہٹانے کی بحث پر ریاست کے صدر اشوک پرنامی کہتے ہیں کہ ‘ وسندھرا راجے پورے پانچ سال وزیراعلیٰ رہیںگی اور اگلا انتخاب بھی انہی کی قیادت میں لڑا جائےگا۔ خود وزیراعلیٰواضح کر چکی ہیں کہ ان کو ہٹانے کی بحث ان کے پچھلے دور کے وقت سے چل رہی ہیں، لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ‘
قیادت کی تبدیلی کا مدعا آتے ہی وسندھرا خیمہ کے لیڈر پچھلے مہینے باڑمیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کی بار بار یاد دلاتے ہیں، جس میں انہوں نے راجے حکومت کے کام کاج کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلی حکومت بھی انہی کی قیادت میں بنےگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر