سنیل نام کا نوجوان باعمل مسلمان اور سلیم کسی ہندوکا نام ہوسکتا ہے۔کئی سال قبل کالی کٹ کی ایک مسجد کے باہر ایک بھکاری کو میں نے بغور اخبار پڑھتے ہوئے دیکھا جو نمازیوں کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔
وادی کشمیر اگر جنت ارضی کے نام سے موسوم ہے تو کیرالا کو اپنے قدرتی حسن‘ ہریالی ،نیلگوں وچمکدار آسمان‘ قدرتی جھیلوں اور پانی کی فراوانی کی وجہ سے God’s Own Countryیعنی خدا کا مسکن کہا جاتا ہے۔ سیاسی طور پر جنوبی ایشیا میں یہ اب کمیونسٹوں یعنی بایاں بازو کا واحد قلعہ ہے، جس پر سیندھ لگانے کےلئے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی شاخ مرکز میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کمر کس رہی ہے۔ بحرعرب کے ساحل پر صوبہ کے اقتصاد ی مرکز کوچین یا کوچی میں ہر سا ل ایک عظیم ادبی میلہ منعقد ہوتا ہے۔ چونکہ اس خطہ میں شرح خواندگی صد فیصد ہے اس لئے اس کو خاصی پذیرائی ملتی ہے۔ اس سال منتظمین نے ہندوستان اور پاکستان کے معاملات اور کشمیر کے موضوع پر حرف آخر سمجھے جانے والے معمر آئینی ماہر اور قانون دان اے جے نورانی کے ساتھ گفتگو کا پروگرام رکھا تھا اور مجھے اس کی اینکرنگ کی دعوت دی۔
ہندوستان میں آج کل اس طرح کے پروگرام میں شرکت کرنا اور پھر اس کو اینکر کرنا ’آ بیل مجھے مار‘ کے مصداق ہے۔ مگر چونکہ پروگرام کیرالا میں تھا، میں نے حامی بھر لی۔ سامعین نے بھی مایوس نہیں کیا۔ ان کی دلچسپی اور سوالا ت کی بھر مار کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹہ کے پروگرام کو تین گھنٹہ تک طوالت دینی پڑی۔ جہاں نورانی نے انتہائی دلچسپ پیرایہ میں اپنے ذاتی مشاہدات پر مبنی لیڈروں کی بد عہدیوں ، تنگ نظری، شیخ عبداللہ اور دیگر لیڈروں کے ساتھ گذرے لمحات اور تواریخی واقعات بیان کئے، میں نےاس تناظر میں ایشو کے ماخذکو بیان کرتے ہوئے بتانے کی سعی کی کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں عقل سے کام لیتیں ہیں تو عوام پر مرکوز یعنی People Centric Solutionکی گنجائش موجود ہے۔کھچا کھچ بھرے وسیع ہال میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے مقامی لیڈران بھی شامل تھے۔ مگر ہندوستان کے دیگر علاقوں کے برعکس خلل ڈالنے یا شرارت انگیزی کرنے کے بجائے وہ بھی بحث میں شامل ہوگئے۔ ان کی وجہ سے مجھے بھی کشمیر پنڈتوں کی ہجرت اور ایسے دیگر ایشوز کی پرتیں کھولنے کا موقعہ ملا۔ پروگرام کے اختتام پر ان میں سے بھی کئی افراد نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ابھی تک کبھی بھی انسانی بنیادوں پر اس ایشو کو پرکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کو عالمی تناظر میں مسلمانوں کی بے چینی اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی اور دراندازی کا ہی ایشو سمجھتے آئے ہیں۔
گرچہ مورخین نے سندھ کو باب الاسلام کے درجہ سے نوازا ہے مگر جنوبی ایشیا میں اسلام سب سے پہلے کیرالا ہی پہنچا تھا۔مسجد نبوی کے بعد دنیا میں سب سے پہلی مسجد اسی صوبہ میں تعمیر ہوئی۔جو 632ء میں مالابارکے راجہ چیرامن پیرومل نے کوڈنگالور میں تعمیرکرائی ۔ اس مسجدکا ماڈل وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی فرمانروا کو دو سال قبل اپنے دورہ کے دوران تحفہ میں دیا۔ تاریخی اعتبار سے کیرالا کے عرب دنیا سے رشتے نبی آخرالزمان حضرت محمدسے پہلے کے قائم ہیں۔ مورخین اور خود مالا بارکے راجہ چیرامن پیرمل کے مورث 87 سالہ راجہ ویلیا تپورم کے بقول چیرامن پیرمل نے پیغمبر محمدکے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور ان کا نام تاج الدین رکھا گیا تھا۔
روایت ہے کہ راجہ پیرمل کھانا کھانے کے بعد اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہے تھے کہ انہوں نے شق القمرکا معجزہ دیکھا۔ چند ماہ بعد صحابی رسول مالک بن دینارکے ہمراہ عرب تاجروں کا ایک جہاز بھٹک کر یہاں کے ساحل پر پہنچا تو راجہ نے عرب مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی انہیں معجزے کا واقعہ سنایا اورپیغمبر محمدسے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عرب تجارکے ہمراہ مکہ گئے لیکن واپسی میں بیمار پڑگئے اور عمان میں ان کا انتقال ہوگیا جہاں سلالہ کے مقام پر انہیں دفن کر دیا گیا۔ان کی قبر وہاں موجود ہے۔ راجہ نے حضرت مالک بن دینارکی کوڈنگالور میں مسجد تعمیرکرانے میں پوری مدد کی تھی۔ یہ مسجد چیرامن مالک مسجدکے نام سے مشہور ہے۔ ساتویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ حضرت مالک بن دینارنے اپنے بیٹے حبیب دینارکو یہاں کی ذمہ داری سونپ کر منگلورکا رخ کیا اور راستے میں مزید بارہ مساجد اسی ڈیزائن کی تعمیرکیں۔ ان کا انتقال یہیں ہوا اور وہ قصرگوڑ میں مدفون ہیں۔ عربوں کے کیرالا پرگہرے اثرات ہیں۔
ان کی مادری زبان ملیالی میں عربی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ عربی تہذیب کا اثر آج بھی نمایاں ہےلاکھوں ملیالی باشندے بلا تفریق مذہب و ملت عربی سیکھتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلیج کے ملکوں میں بر سر روزگار ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ اس صوبہ کو مغربی ایشیا میں سفارتی آوٹ ریچ کےلئے بھر پور استعمال کرتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس کو مزید جہت عطا کی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی میں ہندوؤں کا تناسب 56 فیصد مسلمانوں کا 25 فیصد اور عیسائیوں کا 19فیصد ہے۔صوبہ کے نامور قانون دان کے راج کے مطابق چونکہ اس صوبہ میں اقلیتوں کا تناسب کم و بیش 50فیصد ہے، اس لئے ہندو قوم پرستوں کی دال شاید ہی گل جائے۔یہ علاقہ تین بڑے مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشہورہے۔یہاں ہندو‘ مسلمان‘ عیسائی اور دیگر فرقے صدیوں سے باہم شیر و شکر ہوکر رہ رہے ہیں۔دیگر علاقوں کی طرح یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی الگ الگ بستیاں نظر نہیں آتیں۔ متعدد مقامات پر مندر سے متصل مسجد اور چرچ نظر آئیں گے۔ فرقہ وارانہ خطوط پر الگ الگ بستیاں بسانے کا کوئی رجحان بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بالعموم نام کی بنیاد پر کسی کے مذہب کی شناخت بھی نہیں کی جاسکتی۔ سنیل نام کا نوجوان باعمل مسلمان اور سلیم کسی ہندوکا نام ہوسکتا ہے۔
مگر اکثر تجزیہ کار پڑوسی صوبہ کرناٹک میں ہونے والے انتخابات کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مئی میں اس صوبہ میں ہونے والے انتخابات میں اگر بی جے پی سیکولر کانگریس کو پچھاڑ کر اقتدار میں آتی ہے تواس کے لئے کیرالا کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ ان کی شکایت ہےکہ لیفٹ فرنٹ یعنی کمونسٹ مغربی بنگال، تری پورہ اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں ہو رہی ہزیمت سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی مقابلہ کرنے کے بجائے وہ اقتدار کا سہارا لے کر غنڈہ گردی پر زیادہ تکیہ کرتے ہیں۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ کے مطابق صوبہ میں پچھلے کئی برسوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے 120اراکین ہلاک کر دئے گئے ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کرہندو انتہا پسنداپنے آپ کو مظلوم و مقہور جتلا کر ہندو نوجوانوں کی ہمدردیا ں بٹورنے میں مصروف ہیں۔ ہندو فرقہ پرست عناصر اس بہانے سے مسلمانوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں کہ ریاست کا ساحل قومی سلامتی کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہا۔ چونکہ یہاں مسلمان زیادہ آباد ہیں لہٰذا ملیالی زبان کے مقامی اخبارات میں آئے دن یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ پاکستان کے جاسوس جہاز اورکشتیاں ساحل پر لنگر انداز ہورہی ہیں۔ یہ خبریں بھی تراشی جاتی ہیں کہ مسلم اکثریتی ضلع ملاپورم میں پاکستانی خفیہ ایجنسی اپنے پاؤں جما رہی ہے اور وہاں کے مسلمان ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔اس پروپیگنڈا کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔
اس صوبہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ برطانیہ کا ویسٹ منسٹر جمہوری نظام جنوبی ایشیا میں صرف اسی خطہ میں اپنی اصل آن و بان کے ساتھ موجود ہے۔ چند سال قبل کچھ صحافیوں کے ساتھ مجھے کانگریس کے موجودہ صدر راہل گاندھی کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔ ملکی حالات پر غیر رسمی بات چیت اور اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی روح صرف کیرالا میں ہی رواں دواں ہے۔دیگر علاقوں میں اس کو استحصالی طبقات نے آلودہ کرکے رکھ دیا ہے۔کہیں خاندانی راج ہے اورکہیں دولت مندوں اور صنعتکاروں کے زیر اثر اسمبلیاں بنتی بگڑتی ہیں۔ انہوں کے کہا کہ کیرالا واحد صوبہ ہے جہاں کے کانگریسی لیڈرکبھی ان کے پاس دوڑتے چلے نہیں آتے بلکہ اپنے مسائل خود ہی سلجھا لیتے ہیں۔ وہاں کسی بھی پارٹی کی مرکزی کمان اپنا کوئی امیدوار نہیں تھوپ دیتی بلکہ یورپی ممالک کی طرز پر انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے ہیں اور وہ پارٹی ہائی کمان سے زیادہ عوام اور ورکروں کے سامنے جوابدہ رہتے ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ادیب و معروف سفارت کار اور اقوام متحدہ کے سابق نائب سیکرٹری جنرل ششی تھرور کو اس صوبہ سے لوک سبھا لانے میں ان کو خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔ان کو پارٹی کے مقامی ورکروں کی خاصی خوشامد کرنی پڑی۔
ہندوستان کے دیگر علاقوں کے برعکس کیرالا کے مسلمان اپنی سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی اس طاقت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کا احیاء یہیں سے ہوا جس کے روح و رواں مولوی محمد اسماعیل اور ابراہیم سلیمان سیٹھ تھے۔ مسلم لیگ کی کیرالا شاخ کو مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ایک رہنما سی ایچ محمدکویا ریاست کے مختصر عرصے کے لیے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے اس وقت 18اراکین ہیں۔ یہ کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ یعنی یو ڈی ایف کا ایک اہم جز ہے۔فی الحال یہاں اقتدار بائیں بازوکی پارٹیوں پر مشتمل لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) کے پاس ہے۔ یہی دو اتحاد بار ی باری حکومت سنبھالتے ہیں۔ ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اب اپنی جگہ بنالی ہے۔ان میں جماعت اسلامی ہندکی حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ‘ بابری مسجد کے انہدام کے مسئلہ پر مسلم لیگ سے الگ ہونے والی مرحوم ابراہیم سلیمان سیٹھ کی انڈین نیشنل لیگ اور عبدالنذیر مدنی کی پیپلزڈیمو کرٹک پارٹی قابل ذکر ہیں۔گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی کیرالا شاخ نے بائیں بازو کے محاذ کی حمایت کی تھی۔ غالباً یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پہلا موقع رہا ہوگا کہ جماعت نے کمیونسٹوں کی حمایت کی۔
غالباً کیرالا واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کا اپنا طاقتور میڈیا بھی موجود ہے۔ ملیالی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ ”مادھیہ مم‘‘ کئی مقامات سے بہ یک وقت شائع ہوتا ہے اور یہ ریاست کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا ہے۔ خلیج کے کئی ممالک سے بھی اس کے ایڈیشن نکل رہے ہیں۔اس کا ٹی وی چینل بھی خاصا مقبول اور پروفیشنل ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک مقامی ذمہ دار اس کے مالک ہیں مگر وہ اس کے ایڈیٹورل معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ ادارتی اور دیگر شعبوں میں کئی نام گرامی ہندو اور عیسائی شخصیات اس میڈیا گروپ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ یہ غالباً دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں اخبارات کے سب سے زیادہ قارئین بھی ہیں۔کئی سال قبل کالی کٹ کی ایک مسجد کے باہر ایک بھکاری کو میں نے بغور اخبار پڑھتے ہوئے دیکھا جو نمازیوں کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ صوبہ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے سماجی شعبوں میں اعلیٰ معیار قائم کیاہے۔ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔
یہ ہندوستان کا 90 فیصد ربر‘70 فیصد ناریل اور 60 فیصد لیمن فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود صنعتی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے۔مگر سماجی ترقی کے لحاظ سے صوبہ رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیرالا ماڈل یا کیرالا رجحان کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس شعبے میں اس نے کئی ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔صوبہ کی شرح خواندگی صدفیصد ہے جبکہ ہندوستان کی 65 فیصد۔ اس کا صنفی تناسب بھی سب سے بہتر ہے۔ ایک ہزار مردوں پر 1058 عورتیں ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب ایک ہزار پر 933 ہے۔عالمی صحت تنظیم نے کیرالا کو بچیوں سے محبت کرنے والا دنیا کا واحد خطہ قرار دیا ہے۔
Categories: فکر و نظر