جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہو جاتی ہے، وہاں یہ مبینہ چانکیہ نیتی کا ڈھول پیٹتے ہیں، جہاں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ زیادہ اعتماد ہمیں لے ڈوبا۔
بی جے پی ضمنی انتخاب کو لےکر بالکل مطمئن تھی۔ اس کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کو اتنی کراری ہار ملےگی۔ بی جے پی ہی نہیں اپوزیشن بھی خاص طور پر اتر پردیش کے، وہ بھی اتنے مطمئن نہیں تھے کہ اتنی شاندار جیت ہوگی۔پھول پور کو لےکر جب میں اپوزیشن کی بات سنتا تھا تو ان کے کارکن وہاں دعویٰ کرتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں جیت جائیں، لیکن اپوزیشن میں تو ان کے بڑے رہنما اور فعال کارکن بھی اس طرح کے دعوے نہیں کرتے تھے۔
وہ خاموش طریقے سے کام کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ بہت کاپر اعتماد نہیں تھے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ رہنما سے زیادہ عوام اور وہاں کی فعال عوام نے بی جے پی کے امیدواروں کو ہرانے میں زیادہ محنت کی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ کو دہلی یا باہر بیٹھے میڈیا کے لوگ اور چینلوں پر بیٹھے مبصر سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں ایسا اس لئے ہوا ہے کہ اترپردیش میں جو عام رائےدہندگان ہیں، ان میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ جو بی جے پی پر پوری طرح فریفتہ ہیں کہ یہی ٹھیک ہیں۔ سماجی سطح پر دیکھیں تو ان میں اونچی ذاتوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ تمام اونچی ذاتیں نہیں لیکن ان ذاتوں کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی مانتا ہے کہ بی جے پی ان کے لئے بہتر ہیں۔
کاروباری طبقے کا ایک بہت چھوٹا حصہ ابھی بچا ہے جو بی جے پی کی حمایت میں ہے کیونکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے وہ پریشانی محسوس کرتا ہے۔ وہ سیاسی طور پر تو بی جے پی سے ناراض ہیں لیکن ان کی ناراضگی ووٹ میں تبدیل نہیں ہوتی۔حالانکہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کاروباری کمیونٹی پوری طرح بی جے پی کی حمایت میں ہے۔ اس میں بھی تقسیم ہے۔ لیکن جو دلت، پچھڑے اور اقلیت ہیں، ان کا ایک بڑا حصہ، خاص طور پر او بی سی کا ایک طبقہ تھا جو 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی حمایت میں بھی گیا تھا۔
اتر پردیش کے غیریادو طبقے میں کرمی اور کوئیری دو اہم ذاتیں ہیں، ان میں بی جے پی نے زبردست پھوٹ لگائی تھی۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ بسپا اور سماجوادی پارٹی (سپا) دونوں کی اعلیٰ قیادت نے ان دونوں برادریوں کے کارکن، سماجی طور پرفعال لوگ، ابھرتے ہوئے طبقے چاہے کاروبار میں ہو، یا خدمات میں ہو وغیرہ کو ناراض کر رکھا تھا۔
اس وقت ان دونوں برادریوں کا بہت بڑا حصہ بی جے پی میں چلا گیا کیونکہ ان کو لگا کہ بی جے پی ان کو سماج میں زیادہ بہتر حصےداری دےگی۔ 2014 میں بی جے پی غیریادو او بی سی میں بہت بڑی تقسیم کرا پانے میں کامیاب رہی۔ اس کے بعد اتر پردیش میں جو اس کی انتخابی کامیابی تھی، اس کا بنیادی منتر بھی یہی تھا۔
اونچی ذاتوں کا پولرائزیشن بھی بی جے پی کی حمایت میں گیا، ساتھ ہی غیریادو او بی سی میں بڑے طبقے کی بی جے پی کی طرف جانا، یہ ان کی کامیابی کے دو بڑے اسباب تھے۔اب اس انتخاب وہ طبقہ، خاص طور پر پچھڑے طبقے کا بیتے 4 سال سے مودی حکومت کو دیکھ رہا ہے۔ دلت تو پہلے سے ہی کئی وجہوں سے بی جے پی سے ناراض ہیں۔ مودی اور ان کی پارٹی کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دلتوں میں بھی انہوں نے تقسیم کرا دیا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ دلتوں میں ویسا تقسیم کرانے میں ان کو ویسی کامیابی ملی ہے، جیسی او بی سی میں ملی۔
دلت اپوزیشن کے ساتھ جڑا تھا، لیکن او بی سی کافی حد تک چھٹک گیا تھا۔ اس انتخاب میں اس کو لگا کہ 4 سال سے مودی کی حکومت چل رہی تھی، اس میں اس کو نہ انصاف مل رہا ہے، نہ تو اس کو حصےداری مل رہی ہے۔انصاف اور حصےداری نہ ملنے کے ان دونوں پہلوؤں کی وجہ سے ناراضگی جمع ہوتی رہی۔ ان آبادیوں کے جن نوجوان نے اپنی فیملیوں، اپنی آبادیوں کو موبلائز کیا کہ اب ان کے خلاف جانا چاہیے۔
عام طور پر لوگ نظرانداز کر رہے ہیں کہ مایاوتی اور اکھلیش یادو کے درمیان جو انڈرسٹینڈنگ ہوئی، بھلےہی وہ سیاسی طور پر کوئی اعلانیہ اتحاد نہیں تھا، لیکن جس دن مایاوتی نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے حامی اور کارکن اس پارٹی یا اس امیدوار کو ووٹ دیں جو بی جے پی امیدوار کو ہرانے میں سب سے قابل اور لائق ہو، اس کا فوری اثر ہوا۔
پہلے تو لوگوں کو سمجھ نہیں آیا کہ کیسے کہا کیوں کہا، لیکن پھر اس کا اتنا تیز اثر پڑا کہ کارکنان نے اپنے کوآرڈنیٹر سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ کوآرڈنیٹر نے لکھنؤ میں اپنے صدر دفتر میں رابطہ کیا کہ ہم کس حد تک حمایت میں جائیں۔ پھر اوپر سے اشارہ ملا کہ ہمیں اپنی سو فیصدی طاقت لگا دینی ہے۔
پھول پور اور گورکھ پور کے کئی اسمبلی حلقوں میں دیکھا گیا کہ بسپا کے کارکن بنا اپنے کسی امیدوار کے، جیسے اپنے امیدوار کو جتانے میں محنت کرتے ہیں، ویسے انہوں نے اس امیدوار کو جتانے کی کوشش کی۔دوسرا پہلو ہے، جسے سبھی نظر انداز کرتے رہے کہ اترپردیش میں گورکھ پور اور پھول پور دونوں جگہ ہی سپا نے اپنے پرانے ڈھرّے میں پھیر بدل کیا۔ اپنی پرانی کمیوں کو رویو کیا۔خاص طور پرپسماندہ ذاتوں کے تئیں جو ایروگینس دکھائی دیتا ہے، اس میں تبدیلی دکھائی دی۔ اکھلیش یادو نے گورکھ پور میں اپنی پارٹی کے امیدوار کو خارج کرکے ایک دوسری پارٹی نشاد پارٹی کے رہنما پروین نشاد کو اپنا ٹکٹ دے دیا۔
نشاد پارٹی مقامی سطح کی ایک چھوٹی پارٹی ہے، جو انتخاب لڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس علاقے میں پیس پارٹی اور نشاد پارٹی کا بہت اچھا تال میل رہا ہے۔ پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ایوب، جو ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں، کی مایاوتی اور اکھلیش یادو سے بھی اچھا تعلق ہے۔ ڈاکٹر ایوب نے بھی وہاں محنت کی۔ نشاد پارٹی نے بھی اپنے آپ کو سپا سے جوڑا۔اس سے یہ پیغام گیا کہ او بی سی میں ایسا طبقہ، خاص طور پریادو جو سپا سے اپنے آپ کو آئڈنٹفائی کرتا ہے، جو خود کو بہت پسماندہ ذاتوں سے آگے مانتا ہے یا طاقتور سمجھتا ہے، وہ انتہائی پسماندہ ذاتوں کو آگے لانے کے لئے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے۔
اس سے بھی دوسری دیگر انتہائی پسماندہ ذاتوں اور دلت طبقے میں یہ پیغام گیا کہ سپا کی قیادت پہلے کے مقابلے انتہائی پچھڑوں اور دلتوں کے تئیں فراخدلاور سمجھدار ہوا ہے۔ تو ان باتوں نے گورکھ پور اور پھول پور کے پورے Equation کو بدل ڈالا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کی ہار کی یہ اصل وجہ ہے۔جو لوگ مانتے ہیں کہ بی جے پی میں اندرونی تنازع تھا، مٹھ کے امیدوار کو ٹکٹ نہیں ملا، کسی اور کو مل گیا، ایسے کسی داخلی انتشار سے بی جے پی ہاری، یہ فضول کی تھیوری ہے۔ یہ پچھڑوں، دلتوں اور اقلیتوں کی ابھرتی ہوئی نئی یکجہتی کو یہ تھیوری نظرانداز کرتی ہے۔
قومی سطح پر بنی بی جے پی کی ‘ ناقابل شکست ‘ اور آدتیہ ناتھ ‘ اسٹار ‘ امیج کے پیچھے صرف تشہیر ہے۔ ملک کے میڈیا کا بڑا حصہ، جس کو کوئی بھجن منڈلی کہتا ہے، کوئی مردنگ منڈلیکہتا ہے، یہ بڑے چینل بنا کسی حقیقت کو جانے، بنا پختہ جانکاری کے کچھ بھی کہتے رہتے ہیں۔اس طرح کی باتیں پلانٹ کی جاتی ہیں۔ نتیجہ آنے کے دوران کی ہی بات ہے کہ ایک بڑے چینل میں ایک اینکر کو کہتے سنا گیا کہ بہت بری خبر آ رہی ہے، بہار میں بھی بی جے پی ہار رہی ہے۔ اب ان کو یہ بری خبر لگتی ہے یا کسی کے جیتنے کو کوئی اچھی خبر بتا دے! اخبار، صحافی یا چینل کے لئے خبر خبر ہے، لیکن چینل کے آدمی کو لگتا ہے کہ ارے! یہ ہار رہا ہے تو بہت برا ہوا، یا یہ جیت رہا ہے تو اچھا ہوا!
جب ہماری میڈیا اس طرح کی ہوگی، تو وہ چاہے جس پارٹی کو ‘ ناقابل شکست ‘ پروجیکٹ کرےگا کیونکہ کوئی نگرانی نہیں ہے، کوئی ذمہ داری، کوئی وابستگی نہیں ہے صحافت کے تئیں۔اسی لئے دیکھا گیا تھا کہ جب یوگی وزیراعلیٰ بنے تب کچھ دیر کے لئے لوگوں نے ملک کے عزت مآب وزیر اعظم کا بھجن کم کرکے یوگی کا بھجن زیادہ شروع کر دیا تھا۔ ‘ یوگی جی کیا کھاتے ہیں، کیسے پانی پیتے ہیں، کیسے ہرن کو گودی میں لےکر گھاس کھلاتے ہیں۔’
مجھے لگتا ہے کہ اس وقت حکمراں جماعت کے اندر بھی بہت سی باتیں چل رہی تھیں کہ سنگھ پریوار کی طاقتوں کا مودی کے بعد یوگی کو ابھارنے کی یہ کوشش تھی ۔ میڈیا کا جو حصہ اس پریوارسے متاثر ہے، اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں لگا تھا۔
اسی میڈیا کے ذریعے کہا گیا کہ تریپورہ کی جیت میں یوگی کا بہت اہم رولہے، انہوں نے وہاں رہنے والے ناتھ طبقے کو جوڑا جیسی باتیں کہنا بہت مضحکہ خیز ہے۔میڈیا کے ذریعے ہی یہ بھی اچھالا گیا تھا کہ مودی کے بعد یوگی بڑے رہنما کی شکل میں ابھر رہے ہیں، ان کے ذریعے ہی یہ کہا گیا کہ ان کا قد مودی کے بعد ہو جائےگا۔ ضمنی انتخاب کے نتیجوں نے میڈیا کی اس کوشش کو جھٹکا دیا ہے۔
ساتھ ہی 30 سالوں سے گورکھ پور میں قائم اس فضا کو ایک نشاد نوجوان کا ختم کرنا دکھاتا ہے کہ یہ جو لگاتار اتر پردیش میں انکاؤنٹر کے نام پر جو قتل ہو رہا تھا، اس کا بھی انتخاب میں بہت اثر پڑا ہے۔ اعداد و شمار کی مانیں تو ان تصادم میں مارے گئے 90 فیصدلوگ پسماندہ طبقے سے آتے ہیں۔
جس طرح سے 4 سال میں مودی کے خلاف اقتدار مخالف لہر کام کر رہی ہے، ٹھیک ویسے ہی 1 سال کے اندر یوگی کے خلاف بھی ایسا ہی ماحول تیار ہو گیا اور ان نتیجوں نے ان دونوں ہی رہنماؤں کا قد گرایا ہے۔ یہ نتیجہ دونوں کی حکومتوں کے خلاف جو عوامی ناراضگی جمع ہو رہی ہے، اس کا نمونہ ہے۔
اسی طرح میڈیا کے ذریعے مشتہر بی جے پی کی ‘ چانکیہ نیتی ‘ ناکام ہوئی۔ بی جے پی شروع سےہی میڈیا کو لےکر کافی حساس اور پرو ایکٹو رہی ہے۔وہیں لیفٹ کے پاس جیسے ہی کوئی صحافی جاتا ہے، وہ چاہے کوئی بھی ہو وہ اس کو بورژوا میڈیا کہتے ہیں۔ لیفٹ میڈیا کو فوراً حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اب ان میں تھوڑی سمجھداری آ رہی ہے۔
کانگریس کے لمبے عرصے تک اقتدارمیں رہی تو وہ میڈیا کو مینج کرتے تھے، لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کے پاس جب اقتدار ی ڈھانچہ نہیں تھا، تب بھی وہ میڈیا کے تئیں کافی باخبر تھے کہ کیسے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے۔بعدکے دنوں میں جب ان کے پاس اقتدار آئی تو انہوں نے گرسیکھے۔ لال کرشن اڈوانی جب اطلاعات و نشریات وزیر تھے، تو راشٹردھرم، پانچجنیہ یا اس طرح کے جو سنگھ حمایتی ادارے تھے، ان کے صحافیوں کو انہوں نےمیں اسٹریم میڈیا میں اہم مقام دلوایا۔ ان کے ذریعے پھر کئی لوگوں کی تقرری ہوئیں۔
میرا ماننا ہے کہ بی جے پی بہت مائیکرو لیول پر میڈیا مینج کرتی ہے۔ وہ میڈیا والوں کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتی ہے کہ میڈیا کو لگتا ہے کہ اس پر تو بڑی اچھی رپورٹ بن سکتی ہے۔ جیسے یہ صفحہ سربراہ کے بارے میں ایسے بتائیںگے کہ جیسے کوئی بڑی نئی بات کی گئی ہو۔ لیفٹ کے پاس ہو سکتا ہے ایسی کئی چیزیں ہوں جس کو وہ میڈیا کو دینا ضروری نہیں سمجھتے ہوں۔
ایک اور مثال دیتا ہوں۔ میں سی بی آئی جج لویا کی پُراسرار موت سے جڑی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا، جس میں ذکر تھا کہ کہیں کہا گیا تھا کہ جس دن کسی خاص شخص کو لےکر کوئی فیصلہ آئےگا، اس دن ملک میں کوئی اور بڑا واقعہ ہو جائےگا، جس سے وہ معاملہ دب جائے۔ اس کو اہمیت نہ دی جائے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کس قدر تصدیق شدہ تبصرہ تھا۔
تو جب سیاسی فلسفی یہاں تک سوچتے ہیں تب آپ تصور کیجئے کہ میڈیا مینجمنٹکے بارے میں وہ کتنے باخبر ہیں۔ تو یہ جو ‘ چانکیہ نیتی ‘ ہے یہ سب میڈیا منیجمنٹ ہے۔ جہاں یہ کامیاب ہو جاتے ہیں، وہاں ان کی مبینہ ‘ چانکیہ نیتی ‘ کا ڈھول پیٹتے ہیں، جہاں ناکام ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ زیادہ خوداعتمادی ہمیں لے ڈوبی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بار گورکھ پور اور پھول پور میں جو ان لوگوں نے قدم اٹھایا ہے، اس کا منطقی انجام یہ ہے کہ ان لوگوں کو آگے کے تمام انتخاب ساتھ لڑنے چاہیے۔اس انتخاب میں تو کوئی واضح اتحاد نہیں تھا، لیکن نتیجہ آنے کے بعد اکھلیش یادو اور مایاوتی کی جو ملاقات ہوئی، اس کے بعد اکھلیش نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس کو مناسب انجام تک پہنچائیںگے، دونوں جانب سے اتفاق ہے۔
یقینی طور پر یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ حالانکہ دونوں کی ہی قیادت میں بہت سی کمزوری ہیں، دونوں ہی اپنے اپنے وقت میں عوام موافق اور بہتر حکومت دینے میں ناکام رہے، لیکن باوجود اس کے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اترپردیش میں سپا اور بسپا ملکر انتخاب لڑتے ہیں، تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی طاقت ان کو ہرا سکےگی۔ وہاں کا سماجی ڈھانچہ اور حالات ایسے ہیںکہ اس میں یہ بڑی جیتکے حق دار ہوںگے، اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔
مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ کہ سپا و بسپا قیادت کے دونوں فیملیوں کے سی بی آئی، ای ڈی اور ایسے ہی شاطرانہ چال میں پھنسنے کے ڈر سے اتحاد نہ کرنے کے خدشہ کو بھی یہ بےبنیاد ثابت کریںگے۔ ضمنی انتخاب میں جس طرح کی یکجہتی دکھی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ اس ڈر کو خارج کرنے میں لگے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی حادثہ نہیں ہوا تو ان کا اتحاد کامیاب ہوگا۔
کچھ روز پہلے سونیا گاندھی نے ڈنر دیا تھا جس میں 20 حزب مخالف پارٹیوں کے رہنما آئے تھے۔ شرد پوار پہلے تھوڑے ادھر ادھر ہوتے تھے لیکن حال کے کچھ مہینوں میں وہ بھی مستقل مزاجی سے کام لے رہے ہیں۔ تو ایسے بہت سارے رہنما ہیں جو ساتھ یکجا ہو رہے ہیں اور ایک طرح کی یکجہتی ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔
بہار میں لالو یادو کے جیل میں ہونے کے باوجود راجد نے اپنی طاقت پر انتخاب جیت لیا۔ ہرجگہ یکجہتی دکھ رہی ہے۔ ممتا بنرجی بھی اس بارے میں مطمئن ہیں۔ اس انتخابی نتیجے اور حال کے واقعات سے لگتا ہے کہ حزب مخالف یکجہتی کو 2019 سے پہلے عملی جامہ پہنا دیا جائےگا۔
پھول پور،گورکھ پور میں اپنا امیدوار اتارتے ہوئے کانگریس نے سوچا ہوگا کہ ضمنی انتخاب میں اپنی پارٹی کی طاقتکو آزمایا جانا چاہیے۔ دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اتر پردیش میں فعال کچھ حزب مخالف جماعتوں کے درمیان یہ انڈرسٹینڈنگ بھی بن گئی ہو کہ آپ اپنا امیدوار کھڑا کیجئے، ہم اپنا۔
وہیں کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھلےہی پھول پور میں کانگریس امیدوار کے کم ووٹ آئے، لیکن اگر یہ زیادہ بھی آتے تو سپا و بسپا کے امیدوار کو ہی فائدہ ملتا۔میں بہت مستند طریقے سے نہیں کہہ سکتا لیکن ضمنی انتخاب میں الگ امیدوار دینے سے 2019 کی بڑی سیاسی لڑائی پر کوئی اثر پڑےگا۔مقامی انتخابات میں مقامی Equation ہوتےہیں، جو یقینی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ 1988 میں الٰہ آباد میں ہوئے ضمنی انتخاب میں وی پی سنگھ کانگریس سے باہر آ کر لڑے اور جیتے۔ اس ضمنی انتخاب کے بعد پورے ملک میں فضا بدل گئی تھی۔
ایسے بہت سے ضمنی انتخاب ملک میں ہوئے ہیں، جنہوں نے فضا بدل دی تھی۔ ایک زمانے میں محسنہ قدوائی کا ضمنی انتخاب بھی ہوا تھا، اس انتخاب نے کانگریس کی واپسی طے کی تھی۔ بھلےہی کانگریس یہ انتخاب لڑی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کا قومی سیاست کے نئے Equation پر کوئی اثر ہوگا۔
یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ ضمنی انتخاب میں تو حزب مخالف کو کامیابی مل جاتی ہے، چاہے راجستھان ہو، مدھیہ پردیش یا اڑیسہ ، لیکن جب عام انتخاب ہوتے ہیں تو حزب مخالف کو ایسی کامیابیاں کم ملتی ہیں۔گجرات میں لگتا تھا کہ حزب مخالف کامیاب ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ لیکن اب عوام سوال اٹھا رہی ہے۔ اس کو چناؤ کے پروسس پر بھی شک ہے۔ کسی ملک میں اگر رائےدہندگان جس کو ووٹ دینا چاہتا ہے اور اس کو ووٹ دے پانے کے عمل پر اس کو شک ہے تو یہ جمہوریت کے لئے بہت خطرناک ہے۔
الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ آکر اس کا حل کرنا چاہیے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ضمنی انتخاب کے دوران گورکھ پور کے ڈی ایم کے کردار پر سوال اٹھ چکے ہیں۔بی جے پی کے لئے یہی سبق ہے کہ وہ جملوں سے 2019 کا انتخاب نہیں جیت سکتی۔ ارریہ ایک مثال ہے، جہاں ریاستی صدر نے نعرہ دیا تھا کہ بی جے پی کو نہیں جتایا تو ارریہ آئی ایس آئی کا اڈہ بن جائےگا۔ عوام اب ایسے جملوں کو سمجھتی ہے۔ وہاں لوگوں نے راجد امیدوار کو ووٹ کیا۔ وہاں نہ مذہب نے کام کیا نہ ذاتنے۔
دوسری نصیحت حزب مخالف جماعتوں کے لئے ہے کہ انھیں اپنی انااور جزوی مفادات کو چھوڑ کر جمہوریت کا خیال کرنا چاہیے۔ جمہوریت بچی رہے گی تبھی ان کی سیاست بچی رہےگی۔اس کے علاوہ جماعتی اتحاد کو سیاسی ایجنڈے کی شکل میں لینا چاہیے، یہ نہیں کہ اتحاد سے حکومت بنا لی لیکن پھر کچھ نہیں کیا اور ریاست پچھڑتا گیا۔ ایک زمانے میں لوگ کانگریس کے خلاف صف بند ہوئے تھے اور آج جمہوریت کی یہ ضرورت ہے کہ مضبوط حزب مخالف ابھرکر آئے۔
(ارملیش سینئر صحافی ہیں۔ مضمون میناکشی تیواری سے بات چیت پر مبنی ہے۔)
Categories: فکر و نظر