بی جے پی مسلمانوں کا ڈر دکھاکر ہندوؤں کا پولرائزیشن کر رہی ہے اور ترنمول کانگریس بی جے پی کا خوف دکھاکر مسلمانوں کا ووٹ اپنے حق میں کر رہی ہے۔ اس سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور بڑھےگی اور بنگال تشدد کی آگ میں جھلسےگا۔
ترنمول کانگریس صدر ممتا بنرجی۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
رام نومی کے جلوس کو لےکر بنگال کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ ابھی بجھی ہی تھی کہ ایک بار پھر تشدد آمیز جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔مغربی بنگال کے 20 ضلعوں کے 48606 گرام پنچایت، 9217 پنچایت کمیٹی اور 825 ضلع کونسل سیٹوں کے لئے ایک، تین اور پانچ مئی کو انتخابات ہونے جار ہے ہیں۔ انتخاب کے لئے دو اپریل سے نامزدگی شروع ہے اور اسی وقت سے تشدد آمیز جھڑپ کی خبریں لگاتار آ رہی ہیں۔تشدد آمیز جھڑپوں میں دو لوگوں کی موت بھی ہو چکی ہے۔حزب مخالف پارٹیوں کا الزام ہے کہ حکمراں ترنمول کانگریس حزب مخالف جماعتوں کے امیدواروں پر جان لیوا حملے کر رہی ہے تاکہ وہ پرچہ داخل نہ کر سکیں۔
کمیونسٹ پارٹی ، بی جے پی اور کانگریس نے ایک سُر میں ممتا حکومت کی تنقید کی ہے، تو دوسری طرف ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری ارجن چٹرجی نے ان الزامات کو سرے سے خارج کر دیا ہے۔ویسے، بنگال کی سیاسی تاریخ کو اگر غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ تشدد کے یہ واقعات نہ تو پہلی بار ہو رہے ہیں اور نہ ہی آخری بار ہوںگے۔بنگال میں سیاسی تصادم کی ایک لمبی اور خوں ریز تاریخ رہی ہے۔ نیشنل کرائم رکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار اس کی گواہی دیتے ہیں۔این سی آر بی کے اعداد و شمارکے مطابق، سال 2016 میں بنگال میں سیاسی وجوہات کی بنیاد پر تصادم کے 91 واقعات ہوئے اور 205 لوگ تشدد کے شکار ہوئے۔ اس سے پہلے یعنی سال 2015 میں سیاسی تصادم کے کل 131 واقعات درج کئے گئے تھے اور 184 لوگ اس کے شکار ہوئے تھے۔ سال 2013 میں بنگال میں سیاسی وجہوں سے 26 لوگوں کا قتل ہوا تھا، جو کسی بھی ریاست سے زیادہ تھا۔
1997 میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت میں وزیر داخلہ رہے بدھ دیب بھٹاچاریہ نے اسمبلی میں جانکاری دی تھی کہ سال 1977 سے 1996 تک مغربی بنگال میں 28000 لوگ سیاسی تشدد میں مارے گئے تھے۔ یہ اعداد و شمار سیاسی تشدد کی خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔بنگال میں 1977 سے 2010 کے درمیان ہوئے سیاسی تصادم پر تحقیقی کتاب لکھنے والے سماجی کارکن سوجات بھدر کہتے ہیں؛
‘ کتاب کو لےکر ریسرچ کرتے ہوئے میں نے جانا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ سیاسی تشدد کے واقعات اگر کہیں ہوئے ہیں تو وہ بنگال ہے۔ ‘
بنگال کے بزرگ صحافی ورون گھوش بتاتے ہیں، ‘ بنگال میں سیاسی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 60 کی دہائی کی شروعات سے ہی بنگال میں سیاسی تشدد ہوتا رہا ہے۔’ بنگال میں سیاسی تصادم میں اضافے کے پیچھے خاص طور پر تین وجوہات مانی جا رہی ہیں۔بےروزگاری، قانون پر حکمراں جماعت کا تسلط اور بی جے پی کا ابھار۔سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر وشوناتھ چکرورتی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
‘ بنگال میں صنعت کم ہیں جس سے روزگار کے مواقع نہیں بن رہے ہیں جبکہ آبادی بڑھ رہی ہے۔ زراعت سے بہت فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے میں بےروزگار جوان کمائی کے لئے سیاسی پارٹی سے جڑ رہے ہیں تاکہ پنچایت اور میونسپلٹی کی سطح پر ہونے والے ترقی کے کاموں کا ٹھیکہ مل سکے۔ مقامی سطح پر ہونے والی وصولی بھی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے قریبی امیدوار کسی بھی قیمت پر جیت جائیں۔ اس کے لئے اگر تشدد آمیز راستہ اپنانا پڑے تو اپناتے ہیں۔ اصل میں یہ ان کے لئے اقتصادی لڑائی ہے۔ ‘
چکرورتی مزید بتاتے ہیں، ‘لا اینڈ آرڈرمیں حکمراں پارٹی کی مداخلت بھی سیاسی تشدد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ‘ رول آف لاء’ کو حکمراں ترنمول کانگریس نے اپنی مٹھی میں کر لیا ہے اور قانونی اور پولیس کے معاملوں میں بھی سیاسی مداخلت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس افسر بے لاگ کارروائی نہیں کر پا رہے ہیں۔’قابل ذکر ہے کہ پنچایت کے انتخابات کو لےکر حزب مخالف پارٹیاں حکمراں پارٹی کے ساتھ ہی پولیس پر بھی جانبداری کا الزام لگا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس ترنمول کانگریس کے کیڈر کی طرح سلوک کر رہی ہے۔
ممتا حکومت پر پہلے بھی الزام لگتے رہے ہیں کہ کئی افسروں کا تبادلہ صرف اس لئے کروا دیا گیا، کیونکہ وہ کچھ واقعات کو لےکر قانون کے مطابق کارروائی کر رہے تھے۔کمیونسٹ پارٹی اور ترنمول کانگریس حکومت کے دوران ریاست میں اہم عہدوں پر اپنی خدمات دینے والے ریٹائر ڈآئی پی ایس افسر نذرالاسلام بھی مانتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ پر حکمراں پارٹی کی مداخلت بڑھی ہے، جو باعث تشویش ہے۔
نذرالاسلام کہتے ہیں، ‘کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے آخری 10 سالوں میں ریاست میں سیاسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا تھا لیکن اتنا نہیں ہوا تھا۔ ترنمول کانگریس کی حکومت میں اس میں بےتحاشہ اضافہ ہوا ہے۔’ انہوں نے بتایا، ‘ میں ایسا نہیں کہہ رہا ہوں کہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے وقت پولیس کے کام کاج میں مداخلت نہیں تھی۔ مداخلت اس وقت بھی تھی لیکن اس سطح پر نہیں تھی۔ پہلے یہ سب چھپ چھپاکر ہوتا تھا لیکن اب کھلےعام ہو رہا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے۔ ‘
نذرالاسلام مانتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اس کا نتیجہ خوفناک ہو سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ‘ حکمراں پارٹی جس طرح سے حزب مخالف پارٹیوں کے خلاف پولیس انتظامیہ کا بےجا استعمال کر رہی ہے، حزب مخالف پارٹیاں خاص کر بی جے پی سمجھ رہی ہے کہ اس کو ترنمول کانگریس کے ساتھ ہی پولیس انتظامیہ سے بھی مڈ بھیڑکرناہے۔ اس سے ریاست میں تشدد آمیز جھڑپیں بڑھی ہیں۔ آنے والے وقت میں جھڑپیں اور بڑھیںگی۔’ آنند بازار پتریکاکی رپورٹ کے مطابق ترنمول کے تشدد کا جواب حزب مخالف پارٹیاں خاص کر بی جے پی بھی تشدد آمیز طریقے سے دے رہی ہے۔ خاص طور سے شمالی بنگال میں ترنمول کے لئے بی جے پی چیلنج بنکر ابھری ہے۔
مغربی بنگال الیکشن کمیشن کی طرف سے گزشتہ دنوں جاری نامزدگی کے اعداد و شمار کے مطابق، ترنمول کانگریس نے 1614 سیٹوں کے لئے نامزدگی کا پرچا داخل کیاہے جبکہ بی جے پی نے 1143 سیٹوں کے لئے پرچہ داخل کیا۔ کانگریس اور سی پی ایم اس معاملے میں کافی پیچھے ہے۔ سی پی ایم محض 351 سیٹوں اور کانگریس 124 سیٹوں کے لئے ہی پرچہ داخل کر پائی ہے۔یہ اعداد و شمار بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ بنگال میں اب مقابلہ ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ دوسری طرف، سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں ووٹ فیصد بڑھنے کے بعد بی جے پی نے بنگال میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن تیز کر دیا ہے اور اس سے بھی تصادم کو ہوا ملی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کا ڈر دکھاکر ہندوؤں کا پولرائزیشن کر رہی ہے اور ترنمول کانگریس بی جے پی کا خوف دکھاکر مسلمانوں کا ووٹ اپنے حق میں کر رہی ہے۔ اس سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور بڑھےگی اور بنگال تشدد کی آگ میں جھلسےگا۔وشوناتھ چکرورتی کہتے ہیں، ‘دونوں پارٹیوں کی کارگزایوں سے ریاست میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن تیز ہو گیا ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں فرقہ وارانہ تصادم بھی بڑھیںگے، جو ریاست کی صحت کے لئے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔’ ریاست میں سیاسی تشدد بھلےہی نئی بات نہ ہو لیکن ترنمول کانگریس مخالف پارٹیوں پر جس طرح حملہ کر رہی ہے، وہ بنگال کے لئے ایک دم نیا ہے۔
سینئر صحافی ورون گھوش کہتے ہیں، ‘ میں نے 70-60 کی دہائی میں اجے مکھرجی کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے بنگال میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان چلے تشدد آمیز دور کو دیکھا ہے۔ اس دور میں بھی حزب مخالف پارٹیوں پر اس طرح حملے نہیں ہوتے تھے۔ ابھی حکمراں ترنمول کانگریس حزب مخالف پارٹیوں کو پوری طرح ختم کر دینے پر آمادہ ہے۔’ اس تعلق سےسوجات بھدر نے کہا، ‘ حکمراں پارٹی جو کر رہی ہے، اس سے صاف ہے کہ وہ حزب مخالف پارٹیوں سے خوف زدہ ہے۔ لیکن سیاسی لڑائیاں جمہوری طریقے سے لڑی جانی چاہئے۔’ وہ مزید کہتے ہیں، ‘ ممتا بنرجی تاناشاہ بنکر ایک طرف حزب مخالف پارٹیوں پر حملہ کروا رہی ہیں اور دوسری طرف نریندر مودی کے خلاف ڈیموکریٹک فرنٹ بھی تیار کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں ان پر یہ سوال اٹھےگا کہ ڈیموکریٹک فرنٹ بنانے والی ممتا بنرجی خود کتنی ڈیموکریٹک ہیں۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر