فلیش نیٹ انفو سالیوشنس (انڈیا) پرائیویٹ لمیٹیڈ سے لےکر شرڈی انڈسٹریز تک، مودی حکومت کے وزیر پیوش گوئل نے اپنے اہم کاروبار سے جڑی جانکاریاں چھپائی ہیں۔
نریندر مودی حکومت میں وزیر بننے کے بعد سینئر بی جے پی رہنما پیوش گوئل نے ان کی اور ان کی بیوی کی ملکیت والی ایک ذاتی کمپنی کی پوری ملکیت چپ چاپ اس کی بازار قیمت سے تقریباً 1000 گنا قیمت پر اجے پیرامل کی ملکیت والی ایک کمپنی کو بیچ دی۔ ارب پتی پیرامل کی بجلی سمیت انفراسٹرکچر کے علاقے میں کافی دلچسپی ہے۔اس تجارتی معاہدے کا ابتک انکشاف نہیں ہوا تھا۔ یہ فروخت 14 ستمبر 2014 کو، یعنی گوئل کے وزیر بننے کے چار مہینے کے بعد ہوئی۔یہ لین دین اخلاقیات سے جڑے کئی سوال کھڑے کرتا ہے، کیونکہ 2014 اور 2015 میں وزیر اعظم دفتر میں وزیر کے طور پر جائیدادوں اور دین داریوں کے ضروری اعلان میں نہ تو اس کمپنی فلیش نیٹ انفو سالیوشنس (انڈیا) پرائیویٹ لمیٹیڈ پر ان کی ملکیت کا کوئی ذکر ہے، نہ ہی اس کی فروخت کا۔
اس فروخت مفادات کے ٹکراؤ اور بدعنوان سرمایہ دارانہ کھیل کے الزامات کو جنم دینے والا ہے، کیونکہ نہ صرف پیرامل گروپ کا مفاد power and new and renewable energy کے علاقے سے جڑا ہوا تھا، اس نے ان علاقوں میں سرمایہ کاری بھی بڑھائی۔ فروخت کے وقت گوئل بجلی، کوئلہ اور نئی اور new renewable energyوزارت کے وزیر مملکت (فری چارج ) تھے۔پیرامل گروپ کے ساتھ لین دین حال کے ہفتوں میں کارپوریٹ انڈیا کے ساتھ گوئل کی نزدیکیوں کو اجاگر کرنے والی دوسری مثال ہے۔ دونوں معاملوں میں گوئل اپنے کاروباری تعلقات کے معاملے میں شفافیت کی کسوٹی پر کھرے اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس مہینے کی شروعات میں شرڈی انڈسٹریز جس کے وہ 2010 تک ڈائریکٹر تھے اور جو 2014 میں سینکڑوں کروڑ روپے کے قرض کی ادائیگی کرنے سے مکر گئی، کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر، فی الحال ریلوے اور کوئلہ وزیر کا عہدہ سنبھال رہے گوئل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے آٹھ سالوں سے ان کا (کمپنی سے) کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اس کے معاملوں کے لئے ذمہ دار نہیں ہیں۔جو بات انہوں نے نہیں بتائی، وہ یہ تھی کہ ڈائریکٹر کے طور پر ان کے استعفیٰ دینے کے بعد بھی وہ اور ان کی بیوی اس کمپنی کے اہم شیئر ہولڈر بنے رہے اور انہوں نے ان کی ملکیت والی تقریباً 4.2 فیصد حصےداری ایک ہولڈنگ کمپنی کے ذریعے 2013 میں جاکر بیچی۔ یعنی اس تاریخ سے پانچ سال بعد، جب سے انہوں نے شرڈی کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے کی بات کہی تھی۔
گوئل اور ان کی بیوی نے سال 2000 میں ملکر فلیش نیٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس غیر درج فہرست کمپنی میں ان کی 99.9 فیصد کی حصےداری تھی۔ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک رفارمس (اے ڈی آر) کے مطابق، 2010 میں راجیہ سبھا کا ممبر بننے کے بعد انہوں نے راجیہ سبھا سیکریٹریٹ میں اپنے اقتصادی مفادات کی تفصیل دیتے ہوئے یہ قبول کیا تھا کہ فلیش نیٹ میں ان کی حصےداری کی فطرت ‘ مالکانہ حق والی ‘ ہے۔لیکن وزیر اعظم دفتر میں 2014 اور 2015 میں گوئل کے ذریعے کئے گئے جائیدادوں کے اعلان میں فلیش نیٹ کی ملکیت کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ نہ اس بات کا کہ انہوں نے اور ان کی بیوی نے اپنی حصےداری پیرامل اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ کو بیچ دی۔
2014 کے لئے ان کے اعلان، جس پر 24 جولائی 2014 کی تاریخ درج ہے، میں ‘ Unquoted securities’ کی کل قیمت (بہی کھاتہ-قیمت) 101300 روپے بتائی گئی ہے۔ یہ مانتے ہوئے کہ انہوں نے صحیح اعلان کیا ہوگا، اس رقم میں فلیش نیٹ کی 53.95 فیصد حصےداری (جو اس وقت تک ان کے پاس تھی) کی بہی کھاتہ قیمت بھی ضرور شامل ہوگی۔
31 مارچ، 2015 کو کمپنی کے شیئرہولڈروں کے سامنے پیش کی گئی ڈائریکٹر رپورٹ کے مطابق ان کے شیئرس کو، اور ان کی بیوی کے 49.5 فیصد شیئرس کو بھی، 29 ستمبر 2014 کو پیرامل اسٹیٹس کو منتقل کیا گیا۔دلچسپ یہ ہے کہ وزیر اعظم دفتر میں 31 مارچ 2015 کی تاریخ میں گوئل کے ذریعے کئے گئے جائیداد کے اعلان میں بھی بہی کھاتہ-قیمت پر انکوٹیڈ سکیورٹیز کی قیمت کے طور پر 101300 روپے کا ہی ذکر کیا گیا ہے، جبکہ اس وقت تک وہ فلیش نیٹ میں اپنی حصےداری بیچ چکے تھے۔
اس سے متعلق دی وائر نے جس چارٹرڈاکاؤنٹینٹ سے بات چیت کی انہوں نے سوال اٹھایا، ‘ اگر شیئرس کو 29 ستمبر 2014 کو بیچ دیا گیا تھا، تب پیوش گوئل کے ذریعے کئے گئے جائیداد کے اعلان میں شیئرس کی اختیاری قیمت (ہولڈنگ ویلیو) میں فروخت سے پہلے اور فروخت کے بعد کوئی تبدیلی کیوں نہیں آئی ہے؟ ‘ کابینہ وزرا کے لئے اپنی، بیوی اور بچوں کی جائیدادوں اور کی گئی سرمایہ کاری کو عام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ شفافیت کے اونچے معیاری اصول کو متعین کرنے کے لئے کیا جاتا ہے،خاص کر مفادات کے ٹکراؤ کی کسی ممکنہ حالت میں۔ گوئل کی راجیہ سبھا نامزدگی کے وقت دئے گئے حلف نامہ میں بھی پیرامل کو بیچے گئے شیئرس کی قیمت کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
میڈیا رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ پیرامل گروپ نے 2013 میں Renewable energyکے کاروبار میں داخل ہوا اور جولائی 2014 میں اس نے بجلی علاقے سمیت بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کی مختلف اسکیموں میں 1 ارب امریکی ڈالر کے برابر کی سرمایہ کاری کے لئے اے پی جی ایسیٹ مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ ایک قرار کیا۔دوسرے الفاظ میں کہیں کہ گوئل نے اپنی ایک کمپنی ایک ایسے کارپوریٹ گھرانے کو بیچی جس نے اسی علاقے میں سرمایہ کاری کی تھی، جس کا ذمہ وہ فری چارج والے وزیر مملکت کے طور پر سنبھال رہے تھے اور جو اس علاقے میں اپنے پاؤں پھیلانے کا مقصد پہلے سے ہی ظاہر کر چکا تھا۔پیرامل اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ کو مالی سال 15-2014 میں، یعنی جس سال اس نے گوئل کی کمپنی خریدی، تقریباً 119 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : پیوش گوئل کے کاروبار سے متعلق دی وائر کی رپورٹ پر بی جے پی اور پیرامل گروپ کا جواب
گوئل اور پیرامل میں سے کسی نے بھی منتقل کئے گئے شیئرس کی قیمت کے بارے میں دی وائر کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ لیکن پیرامل انٹرپرائزیز کے بورڈ نے 12 جون 2014 کو پیوش گوئل اور ان کی بیوی کے فلیش نیٹ میں تمام 50070 شیئرس کو 10000 روپے فی شیئر تک کے (اس سے زیادہ نہیں) قیمت پر، یعنی 9990 روپے کے زیادہ سے زیادہ پریمیم پر یا 10 روپے کی درج قیمت سے تقریباً 100000 فیصد زیادہ کی قیمت پر خریدنے کی اجازت دی تھی۔
اگلےسال پیرامل انٹرپرائزیز کے ذریعے جمع کئے گئے ریٹرن سے پتا چلتا ہے کہ فلیش نیٹ میں گوئل فیملی کے شیئرس کی قیمت 48 کروڑ روپے لگائی گئی تھی، یعنی فی شیئر 9586 روپے ۔ چونکہ گوئل کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے، اس لئے ان کو اصل میں ادا کی گئی رقم کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
رجسٹرار آف کمپنیز میں کئے گئے اعلان کے مطابق فروخت کے وقت فلیش نیٹ نے ٹیکس چکانے کے بعد تقریباً 34 کروڑ روپے کا منافع دکھایا۔
فروخت کے 6 مہینے بعد مارچ 2015 میں ختم ہوئے مالی سال کے لئے کی گئی قانونی فائلنگ میں کمپنی نے اپنی کل جائیداد (نیٹ ورتھ) صرف 10.9 کروڑ روپے دکھائی۔
گوئل نے 25 نومبر 2004 سے 26 مئی 2014 تک، یعنی Power and renewable energy محکمہ کے وزیر کے طور پر حلف لینے کے دن تک، فلیش نیٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ سیما گوئل اپریل 2009 سے 26 مئی 2014 تک اس کی ڈائریکٹر تھیں۔ لیکن، ڈائریکٹر کے طور پر استعفیٰ دینے کے بعد بھی گوئل فیملی کے پاس اس کمپنی کی تقریباً 99 فیصدی حصےداری بنی رہی۔سبھی راجیہ سبھا رکن پارلیامان کو حلف لینے کے 90 دنوں کے اندر اپنی جائیدادوں اور دین داریوں کی پوری تفصیل دینی ہوتی ہے اور ان کو ہرسال اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھی اطلاع دینی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان کو اپنے اقتصادی مفادات کی بھی پوری تفصیل دینی ہوتی ہے۔ جس میں فائدےمند ڈائریکٹر کا عہدہ اور کمپنیوں میں ناظم حصےداری (کنٹرولنگ اسٹیک) بھی شامل ہے۔
اے ڈی آر کے ذریعے جمع کئے گئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گوئل نے 2011 میں فلیش نیٹ میں اپنی کنٹرولر حصےداری کا اور 2015 میں ختم ہوئے مالی سال میں بطور ڈائریکٹر ان کو ملے محنتانہ کا ذکر کیا تھا۔لیکن، ایسی کوئی اطلاع نہیں ملتی کہ فلیش نیٹ کے شیئرس کی فروخت کے بارے میں انہوں نے جانکاری دی یا نہیں دی یا دی تو کیا جانکاری دی، کیونکہ ایسا کوئی دستاویز راجیہ سبھا کی ویب سائٹ پر عوامی تجزیہ کے لئے موجود نہیں ہے۔اجے پیرامل کو بھیجا گیا سوال نامہ، جس میں گوئل کی کمپنی کی خرید، شیئرس کی قیمت اور اس کے تعین کے طریقے اور گوئل فیملی کے ساتھ ان کے رشتے کی فطرت کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی، پر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پیرامل گروپ کی کارپوریٹ کمیونیکیشنس نمائندہ ڈمپل کپور نے جواب دینے کا وعدہ کیا، مگر ان کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
گوئل کے ای میل پر بھیجے گئے سوالوں اور موبائل میسیج کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ گوئل اور پیرامل کی طرف سے جواب آنے پر اس رپورٹ میں اس کو بھی شامل کیا جائےگا۔دی وائر نے وزیر اعظم کے چیف سکریٹری نرپیندر مشرا سے بھی یہ سوال پوچھا کہ کیا ان کے دفتر کو گوئل کے ذریعے پیرامل کو فلیش نیٹ بیچنے کے بارے میں جانکاری تھی جس سے ملے پیسے کا کوئی ذکر وزیر اعظم دفتر میں گوئل کے ذریعے جائیدادوں اور دین داریوں کے کسی اعلان میں نہیں ملتا۔ لیکن ابھی تک ان کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
ستمبر 2014 میں پیرامل اسٹیٹس کے ذریعے خریدے جانے کے بعد فلیش نیٹ کا نام بدلکر آسن انفو سالیوشنس پرائیویٹ لمیٹیڈ کر دیا گیا۔ مالی سال 2017 میں کمپنی کو 14.78 کروڑ کا نقصان ہوا۔
جس وقت فلیش نیٹ کی فروخت ہوئی تھی، اس وقت اجے پیرامل، ان کی بیوی سواتی، نندنی پیرامل اور آنند پیرامل پیرامل اسٹیٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کسی وجہوں سے اکتوبر 2014 میں، یعنی اس خرید کا عمل پورے ہونے کے محض چند دنوں کے اندر، ان چار پیراملوں نے بورڈ سے استعفیٰ دے دیا۔
پیوش گوئل کے پاس 2013 تک شرڈی انڈسٹریز کی بھی حصےداری تھی۔ یہ کمپنی اس کے اگلے ہی سال 650 کروڑ روپے کے قریب قرض کو چکانے سے مکر گئی۔ ان میں سے زیادہ تر قرض سرکاری بینکوں سے لیا گیا تھا۔شرڈی کو بعد میں نیشنل کمپنی لاء ٹریبونل کے ذریعے 60 فیصد ہیئرکٹ (اصل بقایا اور بینک کو چکائی جانے والی رقم کا فرق) دیا گیا۔ قرض کی بحالی کے بعد ڈیفالٹ کرنے والے پرموٹروں کو اس کمپنی کو کنٹرول کرنےکے لئے کی جانے والی نیلامی سے دور رکھنے کے سرکاری اصول کو طاق پر رکھتے ہوئے، جو اس طرح کا شاید پہلا استثنیٰ تھا، شرڈی کے پرموٹروں کو کمپنی کا کنٹرول پھر سے اپنے ہاتھ میں لے لینے کی اجازت دے دی گئی۔
2013 تک شرڈی میں گوئل کی حصےداری ایک دوسرے فرم Sajal Finance and Investments کے معرفت تھی۔ گوئل 2008 سے 2010 تک شرڈی انڈسٹریز کے چیئر مین رہے اور 2008 سے 2010 کے درمیان اس کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہے۔ شرڈی کو اسی وقت ادائگی کرنے میں دقت آنے لگی تھی اور آخرکار اس نے 2014 میں اپنے ہاتھ کھڑے کر دئے۔دی وائر نے اس سے پہلے شرڈی اور اس کے پرموٹروں کے ساتھ گوئل کے رشتوں پر اسٹوری کی تھی۔ اس پر بی جے پی کے ذریعے گوئل کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا :
‘ یہ دھیان میں رکھنا اہم ہے کہ شرڈی انڈسٹریز میں 2010 کے بعدکے کسی معاملے سے شری گوئل کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، کیونکہ جولائی 2010 کے بعد اس کمپنی میں ان کا کوئی رول نہیں رہا اور کمپنی پر آئی مصیبت کا تعلق اس دور سے ہے جب کانگریس اقتدار میں تھی۔ کسی بھی صورت میں، پچھلے شری گوئل کا شرڈی انڈسٹریز کے ساتھ گزشتہ آٹھ سالوں سے کوئی رشتہ نہیں تھا اور وہ اس کے معاملوں کے لئے جواب دہ نہیں ہیں۔ شری گوئل کے تحت آنے والی کسی وزارت کا بھی اس کمپنی سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ ‘
لیکن، دستاویزوں سے پتا چلتا ہے کہ گوئل کی سجل فنانس کے پاس 2013 کے آخر تک شرڈی انڈسٹریز کے 725000 شیئر یعنی 4.18 فیصد کی حصےداری تھی۔شرڈی کے علاوہ گوئل کے پاس سجل فنانس کے معرفت شرڈی گروپ کی ایک اور ڈفالٹر کمپنی Asis Logistics کی بھی حصےداری تھی۔فروری 2009 میں سیما اور پیوش سجل فنانس کے ڈائریکٹر بنے اور ستمبر 2009 میں اس فرم کے مالک بھی بن گئے۔ بعد میں 2013 میں شرڈی گروپ کی ایک کمپنی لابھ کیپٹل سرویسز نے سجل فنانس کا حصول کر لیا۔پیوش گوئل کی بیوی بھی شرڈی کے ڈفالٹر پرموٹروں کی ملکیت والی اسیس انڈسٹریز سے ایک غیر محفوظ قرض کی مستفید ہیں، جو موجودہ وقت میں 1.59 کروڑ روپے کے برابر ہے۔
Categories: فکر و نظر