فکر و نظر

سنبھل سے گڑ گاؤں تک مسلمانوں کے دینی حق پر ہندتوا کی مار!

ملک کی سیکولر سیاست کی ان ‘متنازعہ‘ احاطوں پر اوڑھی گئی خاموشی نے ہندوتوا کے لئے راستہ آسان کر دیا ہے۔ آج کے وقت میں ہندوتوا کے سامنے کسی بھی قسم کا کوئی چیلنج نہیں ہے۔

Gurgaon-Namaz-PTI

پچھلے چار سال میں ہندو توا نے نفسیاتی طور پر جو اضافہ کیا ہے، اسے 20 اپریل کو گروگرام (گڑگاؤں) کے سیکٹر-53 میں ہوئے واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مٹھی بھر شر پسند عناصروں کے ذریعے تقریباً 500 کے آس پاس نمازی کو نماز پڑھنے سے روکنے کا معاملہ یہ بتاتا ہے کہ ہندوتوا کو اپنے منصوبوں کو عمل میں لانے کے لئے اب کسی قسم کی جسمانی تشدد کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ چند ہندتووادی لڑکے صرف جئےشری رام کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کو ان کے دینی حق سے محروم کر سکتے ہیں۔ گڑگاؤں کے اس واقعہ پر وائرل ہوئے 1.30 منٹ کے ویڈیو کو دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان چند لڑکوں کی نعرے بازی اور مسلمانوں کو وہاں سے بھگانے کے خلاف ایک بھی نمازی مسلمان یہ سوال پوچھنے کی جرات نہیں کر پاتا ہے کہ آپ کیوں ہمیں نماز نہیں پڑھنے دے رہے ہیں یا آپ کون ہوتے ہیں، ہمیں نماز پڑھنے سے روکنے والے؟ ان شرپسند عناصروں کی اس کارروائی پر مسلمانوں کی طرف سے کاؤنٹر کرنے کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔

اس ویڈیو میں یہ لڑکے مسکراتے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں، جیسے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔ ان کے چہرے پر جو مسکان ہے وہ ایک فاتح کی مسکان ہے۔ ان شر پسند عناصروں کو مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے کسی ہتھیار کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بہت ہی بے ساختگی اور آسانی کے ساتھ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے اس مشن میں کہیں سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی ہے۔ ان کی خوداعتمادی کو دیکھ‌کر یہ قطعی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کوئی غیر آئینی کام کر رہے ہیں۔ ان مٹھی بھر ہندتووادی لڑکوں کے اندر اتنی گستاخی اور 500 کے آس پاس مسلمانوں کے اندر ڈر‌کے سیاسی فارمولے واضح ہیں۔ ہندتووادی لڑکے یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ریاست اور فرقہ وارانہ سیاست ان کے ساتھ ہے اور وہ یہ بھی جانکاری رکھتے ہیں کہ سیکولرسیاست ایسی کوئی بھی کوشش نہیں کرے‌گی جس سے ان کا بال بھی بانکا ہو۔ ان کے اپنی گستاخی کی وجہ سیکولر سیاست کی اسی کمزوری میں شامل ہے اور اسی لئے یہ چند لڑکے جن کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں ہے، صرف جئے شری رام کا نعرہ لگاکر ایک بڑی مسلم اکثریت کو اپنے اشارے پر نچا سکتے ہیں۔ ہندو مذہب کے لئے واقعات کو کامیابی کے ساتھ انجام دینا اب کتنا سہل اور آسان ہو چکا ہے۔

پچھلے چار سال میں ارتقا پذیر ہندوتوا کا یہ جدید ورژن ہے۔

نماز نہ پڑھنے دینے کا یہ کوئی واحد معاملہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال امروہہ سے قریب 36 کلومیٹر دور واقع سیدنگلی قصبے سے محض پانچ کلومیٹر دور واقع سکت پور گاؤں میں رونما ہوئے ایک واقعہ کو دیکھنا ہوگا۔ اس واقعہ کی جانچ کے لئے رہائی منچ کی ایک تفتیشی جماعت کے ساتھ یہ مضمون نگار بھی سکت پور گاؤں پہنچا تھا، جہاں پر فرقہ وارانہ تشدد کا ایک معمولی سا واقعہ ہوا تھا۔ اس گاؤں کی کل آبادی میں تقریباً 2500 ہندو ہیں اور 500 کے آس پاس مسلم ہیں۔ اس گاؤں کے زیادہ تر مسلم پسماندہ طبقے سے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ان کو گاؤں میں ایک مسجد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ گاؤں کے مسلمانوں نے پچھلے پانچ-چھ سال میں ایک گھر میں ہی ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی، جہاں پر وہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ لیکن 2017 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ہندوؤں نے مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا۔ ان کی دلیل تھی کہ مسلمان اس نئی مسجد کو بناکر ایک نئی روایت کی شروعات کر رہے ہیں۔ تنازعہ کے بعد مسجد کے باہر پولیس بٹھا دی گئی اور دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ اس واقعہ کے درمیان گاؤں میں معمولی سا تشدد بھی ہو تھا۔ یہاں پر بھی گڑگاؤں کی ہی طرح بنا جسمانی تشدد کے، تشدد کا محض ڈر دکھاکر مسلمانوں کو ان کے دینی حق سے محروم کر دیا گیا۔ گاؤں کے مسلمانوں نے رمضان کے وقت بھی نماز نہ پڑھ پانے اور اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے کا من بنا لیا تھا۔ اجتماعی طور پر نماز نہ پڑھنے دینے کی اسی طرح کے کئی اور واقعات الگ الگ شکلوں میں مغربی اتر پردیش کے کئی ضلعوں میں رونما ہوئے تھے۔

بابری مسجد کو ‘ متنازع ‘ بنانے میں ہندوتوا کو کئی سالوں تک انتہائی محنت کرنی پڑی، لیکن سکت پور کی مسجد اور سنبھل کی مشہور جامع مسجد کو تو کچھ ہی گھنٹوں کے اندر ‘ متنازع ‘ بنا دیا گیا۔ سنبھل کی مسجد کے متنازع بننے کی کہانی تو کافی دلچسپ ہے اور اس کے لئے تو ہندوتوا کو رتی بھر بھی کوشش نہیں کرنی پڑی۔ یہ اس طرح ممکن ہوا کہ سدرشن نیوزز نے 8 اپریل 2017 کو 47 منٹ کے ایک پروگرام ‘ بنداس بول : ہری مندر کا سچ، جامع مسجد کا جھوٹ ‘ میں یہ دعویٰ کیا کہ بابر کے ذریعے ساڑھے پانچ سو سال پہلے سنبھل میں بنائی گئی جامع مسجد دراصل ہری ہر مندر ہے۔ اس خاص ایپی سوڈ کے بعد سے ہی جامع مسجد کے متنازع ہونے کو لےکر ہونے والی سیاست تیز ہو گئی اور مسجد کے باہر پولیس بٹھا دی گئی۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو متنازع بنانے کا جو سلسلہ بابری مسجد سے شروع ہوتا ہے وہ ابتک جاری ہے، جس کو سنبھل، سکت پور، گڑگاؤں اور دیگر مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ان متنازع مقامات سے سیکولر سیاست اپنے آپ کو پوری طرح دور رکھتی ہے۔ بابری مسجد کی تباہی کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نرسنگھ راؤ نے کہا تھا کہ وہاں پر بابری مسجد کی تعمیرنو کرائی جائے‌گی۔ بابری مسجد مسماری کے پچیس سال گزر جانے کے بعد کانگریس کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں آیا، جس میں بابری مسجد کی تعمیرنو کی بات کہی گئی ہو۔ ٹھیک اسی طرح سماجوادی پارٹی 2002 سے پہلے تک 6 دسمبر کو یومِ سیاہ کے طور پرمنایا کرتی تھی، لیکن 2002 میں ملائم سنگھ یادو کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد یومِ سیاہ کی رسم ادائیگی بھی ختم کر دی گئی۔ ملک کی سیکولر سیاست بابری مسجد کی تعمیرنو کے سوال کے آس پاس دکھنے کے نفع و نقصان سے بخوبی آشنا ہے۔ صرف اویسی ہی ایک اکیلے رہنما ہیں، جو بابری مسجد کی تعمیرنو کی بات کرتے ہیں۔ جب اویسی یہ کہتے ہیں کہ ‘ وہ ایک مسجد توڑیں‌گے تو تم لوگ سو مسجدیں بناؤ ‘ تو ظاہرہے کہ  یہ بات مسلمانوں کو اپیل کرتی ہوگی۔ ملک کا مسلمان جانتا ہے کہ ان کے سیکولر رہنما دینی اور دنیاوی دونوں سوالوں پر ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

بابری مسجد کی تباہی کا سوال ایک ایسا سوال ہے جس نے پچھلے تین دہائیوں کی ہندوستانی سیاست کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہ ایک ایسا مدعا بھی ہے جس نے ملک کے سترہ کروڑ لوگوں کے سوچنے کے ڈھنگ کو بدل دیا۔ اسی بابری مسجد کی تعمیرنو کے سوال پر ہندوتوا اور مسلم سیاست کے علاوہ کوئی اور رجحان اور خیال دکھائی نہیں پڑتا ہے۔ بابری مسجد کی مسماری کے بعد ہونے والے سارے مباحثے کے مرکز میں صرف یہی مدعا رہتا ہے کہ وہاں پر رام کا شاندار مندر بنے‌گا یا نہیں بنے‌گا۔

ملک کی سیکولر سیاست کی ان ‘ متنازع ‘ احاطوں پر اوڑھی گئی خاموشی نے ہندوتوا کے لئے راستہ آسان کر دیا ہے۔ آج کے وقت میں ہندوتوا کے سامنے کسی بھی قسم کا کوئی چیلنج نہیں ہے۔ ہندوتوا کے لئے بابری مسجد تو صرف ایک لٹمس ٹیسٹ تھا۔ ملک بھر‌کے ہزاروں گاؤں سے جو ‘ مقدس ‘ رام پتھریں ایودھیا لائی گئے تھے، اس میں ایودھیا کو فرقہ وارانہ سیاست کے ایک مرکز کے بطور ابھارا گیا تھا۔ لیکن آج کے ہندوتوا کو بابری مسجد کی علامت کی لامرکزیت کی ضرورت ہے۔ اس لئے سنبھل، سکت پور اور گڑگاؤں میں اس کی توسیع کو دیکھا جا سکتا ہے۔

بشکریہ : میڈیا ویزل