کرناٹک کے نئے وزیراعلیٰ بی ایس یدورپا کو غیر قانونی کان کنی معاملے میں بد عنوانی کی وجہ سے 2011 میں وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ حالانکہ 2016 میں اسپیشل سی بی آئی عدالت نے ان کو اس معاملے سے بری کر دیا تھا۔
نئی دہلی : وہ اکثر تنازعات میں رہتے ہیں اور حال ہی میں ہوئے کرناٹک اسمبلی انتخاب کے نتیجوں کے بعد ریاست میں اقتدار کی لڑائی سپریم کورٹ میں پہنچنے اور ان کی تاج پوشی کے درمیان بھی تنازعہ ان کے ساتھ ہے۔سرکاری کلرک کے طور پر معمولی سی پہچان رکھنے والے اور ایک ہارڈویئر کی دوکان کے مالک بوکاناکیرے سدھلنگپا یدورپا دوسری بار کرناٹک کے وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ اپنے سیاسی سفر میں یدورپا نے تمام مخالف حالات میں کسی منجھے ہوئے رہنما کی طرح چیلنج کا سامنا کیا اور ان پر جیت حاصل کی۔
آر ایس ایس کے وفادار سوئم سیوک رہے 75 سالہ بی ایس یدورپا محض 15 سال کی عمر میں شدت پسند ہندوتووادی تنظیم میں شامل ہوئے۔ جن سنگھ سے اپنی سیاسی پاری کی شروعات کر کےوہ اپنے ہوم ٹاؤن شوموگا ضلع کے شکاری پورا میں بی جے پی کے رہنما رہے۔1970 کی دہائی کی شروعات میں وہ شکاریپرا تعلقے سے جن سنگھ کے سربراہ بنے۔ فی الحال شوموگا لوک سبھا سیٹ کی نمائندگی کر رہے یدورپا سال 1983 میں شکاری پورا اسمبلی سیٹ سے پہلی بار ایم ایل اے چنے گئے۔ پھر اس سیٹ کی انہوں نے پانچ بار نمائندگی کی۔
لنگایت کمیونٹی کے اس بڑے رہنما کو کسانوں کی آواز اٹھانے کے لئے جانا جاتا ہے۔ انتخابی تقریروں میں وزیر اعظم نریندر مودی اس کا بار بار ذکر بھی کر چکے ہیں۔آرٹس گریجویٹ یدورپا ایمرجنسی کے دوران جیل بھی گئے۔ انہوں نے سماجی فلاح و بہبود محکمے میں کلرک کی نوکری کرنے کے بعد اپنے آبائی شہر شکاری پورا میں ایک چاول مل میں بھی اسی عہدے پر کام کیا۔ اس کے بعد شوموگا میں انہوں نے ہارڈویئر کی دکان کھولی۔سال 2004 میں ریاست میں بی جے پی کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے بعد یدورپا وزیراعلیٰ بن سکتے تھے لیکن کانگریس اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا کی جےڈی ایس کے اتحاد سے یہ ممکن نہیں ہو سکا اور تب ریاست کی حکومت دھرم سنگھ کی قیادت میں بنی۔
اپنی سیاسی دور اندیشی کے لئے پہچانے جانے والے یدورپا نے مبینہ کان کنی گھوٹالہ میں لوک آیکت کے ذریعے وزیراعلیٰ دھرم سنگھ پر الزام لگائے جانے کے بعد سال 2006 میں ایچ ڈی دیوگوڑا کے بیٹے ایچ ڈی کمارسوامی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور دھرم سنگھ کی حکومت گرا دی۔باری باری سے وزیراعلیٰ عہدے کے نظام کے تحت کمارسوامی وزیراعلیٰ بنے اور یدورپا نائب وزیر اعلیٰ بنے۔ حالانکہ 20 مہینے بعد ہی جےڈی ایس نے اقتدار میں حصہ داری کے سمجھوتہ کو مسترد کر دیا، جس کی وجہ سے اتحاد کی یہ حکومت بھی گر گئی اور آگے کے انتخابات کا راستہ صاف ہوا۔
سال 2008 کے انتخابات میں لنگایت کمیونٹی کے عظیم رہنما یدورپا کی قیادت میں پارٹی نے جیت حاصل کی اور جنوب میں پہلی بار ان کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی۔بہر حال، یدورپا بنگلور میں زمین بٹوارے کو لےکر اپنے بیٹے کی حمایت میں وزیراعلیٰ دفتر کے مبینہ غلط استعمال کو لےکر تنازعات میں گھرے۔ غیر قانونی کان کنی گھوٹالہ معاملے میں لوک آیکت کے ان پر الزام لگایا اور ان کو 31 جولائی 2011 کو استعفیٰ دینا پڑا۔
مبینہ زمین گھوٹالہ کے تعلق سے اپنے خلاف وارنٹ جاری ہونے کے بعد اسی سال 15 اکتوبر کو انہوں نے لوک آیکت عدالت کے سامنے خود سپردگی کی۔ ایک ہفتہ وہ جیل میں رہے۔اس واقعے کو لےکر بی جے پی سے ناراض یدورپا نے پارٹی چھوڑ دی اور کرناٹک جنتا پکچھ (کےجےپی) کی تشکیل کی۔ حالانکہ میں وہ کےجےپی کو کرناٹک کی سیاست میں پہچان دلانے میں ناکام رہے لیکن سال 2013 کے انتخابات میں انہوں نے چھے سیٹیں اور دس فیصدی ووٹ حاصل کر بی جے پی کو اقتدار میں آنے بھی نہیں دیا۔
ایک طرف یدورپا غیرمتعینہ مستقبل کے دور سے گزر رہے تھے تو وہیں بی جے پی کو بھی سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے ایک طاقت ور چہرے کی ضرورت تھی۔ اس طرح دونوں پھر سے ایک ساتھ آ گئے۔نو جنوری 2014 کو یدورپا کی کےجےپی کا بی جے پی میں انضمام ہو گیا جس کے نتیجے میں سال 2014 کی لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے ریاست کی 28 میں 19 سیٹوں پر جیت درج کی۔ اپنے دامن پر بد عنوانی کے داغکے باوجود بی جے پی میں یدورپا کی شہرت اور قد بڑھتا گیا۔
26 اکتوبر 2016 کو ان کو اس وقت بڑی راحت ملی جب سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ان کو، ان کے دونوں بیٹوں اور داماد کو 40 کروڑ روپے کے غیر قانونی کان کنی معاملے میں بری کر دیا۔ اسی معاملے کی وجہ سے سال 2011 میں ان کو وزیراعلیٰ کےعہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔جنوری 2016 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے، انسدادِ بد عنوانی قانون کے تحت لوک آیکت پولیس کی طرف سے یدورپا کے خلاف درج تمام 15 ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا۔ اسی سال اپریل میں یدورپا چوتھی بار بی جے پی کے ریاستی صدر مقرر ہوئے۔بد عنوانی کے تمام الزامات اور کانگریس کے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے بی جے پی نے ان کو اپنے وزیراعلیٰ عہدے کا امیدوار بنایا۔ اور جمعرات کو انہوں نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف بھی لے لیا۔
Categories: خبریں