پیٹرول کی قیمت ریکارڈ سطح پر ہے، پھر بھی آپ میڈیا میں اس کی خبروں کو دیکھئے تو لگےگا کہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہی دام اگر حکومت ایک روپیہ سستاکر دے تو گودی میڈیا پہلے صفحے پر چھاپےگا۔
عالمی بازاروں میں کچے تیل کی قیمت14-2013 کے سال جتنی ابھی اچھلی بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کے دام آسمان پر ہیں۔ اس دوران بی جے پی نے ملک کو پوسٹروں سے بھر دیا تھا، ‘ بہت ہوئی جنتا پر ڈیزل پیٹرول کی مار، اب کی بار بی جے پی سرکار۔ ‘ تب عوام بھی مشتعل تھی ۔ وجہ وہی تھی جو آج مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان گنا رہے تھے۔ تب کی حکومت کے بس میں نہیں تھی، اب کی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ وہیں، پیٹرول کی قیمت ریکارڈ سطح پر ہے، پھر بھی آپ میڈیا میں اس کی خبروں کو دیکھیے، لگےگا کہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہی دام اگر حکومت ایک روپیہ سستاکر دے تو گودی میڈیا پہلے صفحے پر چھاپےگا۔
کرناٹک انتخاب کی وجہ سے 19 دن تک حکومت دام نہیں بڑھنے دیتی ہے۔ تب بھی تو عالمی وجہ تھی۔ اسی دوران تو امریکہ، ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی قرار سے الگ ہوا تھا۔ 19 دن بیت گئے تو اب داموں پر حکومت کا نہیں، بازار کا بس ہو گیا ہے۔ ایک ہفتے میں پیٹرول کے دام میں 1.62 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈیزل کے دام 1.64 روپے فی لیٹر بڑھے ہیں۔ دام ابھی اور بڑھیںگے۔ منتری جی کہتے ہیں کہ جلد ہی حل لےکر حاضر ہوںگے۔ ابھی تک وہ حل کیوں نہیں تیار ہوا؟
دہلی میں 14 ستمبر 2013 کو ایک لیٹر پیٹرول 76.06 روپے فی لیٹر مل رہا تھا۔ 20 مئی 2018 کو 76.24 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ اپنی سب سے مہنگی سطح پر ہے۔ پر دلی کا میڈیا چپ ہے۔ بولےگا تو گودی سے اتارکر سڑک پر پھینک دیا جائےگا۔ ممبئی میں ایک لیٹر پیٹرول 84.07 روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔ پٹنہ میں 81.73 روپے فی لیٹر، بھوپال میں 81.83 روپے فی لیٹر دام ہے۔ملیشیا کے نئے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہفتےہفتے کے داموں میں اتار چڑھاؤ اب نہیں ہوگا۔ دام کو فکس کیا جائےگا اور ضرورت پڑی تو حکومت سبسیڈی دےگی۔
اسی ملیشیا کی مثال دےکر ہندوستان میں کئی لوگ جی ایس ٹی کا استقبال کر رہے تھے۔ ملیشیا نے تین سال تک جی ایس ٹی لگاکر ہٹا دیا ہے۔ ہندوستان میں ہفتے ہفتے دام بڑھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ مگر حکومت انتخاب کے حساب سے چاہتی ہے تو دام نہیں بڑھتے ہیں۔مودی حکومت کے وزیر بار بار کہتے رہے ہیں کہ بینکوں کا این پی اے یو پی اے کی دین ہے۔ بات صحیح بھی ہے، مگر کہا اس طرح سے گیا جیسے مودی حکومت کے دوران کچھ ہوا ہی نہیں اور وہ بےقصور ہی رہی۔
آج کے انڈین ایکسپریس میں جارج میتھیو کی رپورٹ چھپی ہے۔ یہ رپورٹ پرائیویٹ بینکوں کے بارے میں ہے۔ ابھی تک ہم، پبلک سیکٹر کے بینکوں کے این پی اے کی ہی گفتگو کرتے تھے، مگر اب پتہ چل رہا ہے کہ نجی شعبے کے بینکوں کی بھی وہی حالت ہے۔ میتھیو نے لکھا ہے کہ 5 سال میں بینکوں کا این پی اے 450 فیصد بڑھا ہے۔14-2013 کے مالی سال کے آخر میں کل این پی اے 19800 کروڑ روپے تھا، مارچ 2018 کے آخر میں ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ ہو گیا۔
اتر پردیش میں بی جے پی نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ 14 دنوں کے اندر گنا کی ادائیگی ہوگی۔ انڈین ایکسپریس میں ہریش دامودرن کی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔ ہریش فیلڈ میں دورہ کرتے ہیں اور کافی مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سال 18-2017کے دوران 6 چینی کارخانوں نے 1778.49 کروڑ روپے کا گنا خریدا۔ قاعدے سے ان کو 14 دنوں کے اندر 1695.25 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی تھی ۔ مگر ابھی تک 888.03 کروڑ کی ہی ادائیگی ہوئی ہے۔ باقی بقایا ہے۔
اس بیچ بزنس اسٹینڈرڈ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ مارچ 2018 میں جن 720 کمپنیوں نے اپنے سہ ماہی کے نتیجے کا اعلان کیا تھا، ان کے کل منافع میں 34 فیصد کی گراوٹ ہے۔ یہ بری خبر ہے۔ مگر اچھی خبر ہے کہ اگر اس میں سے فنانس اور انرجی سے متعلق کمپنیوں کو نکال دیں تو کل منافع 15 فیصد زیادہ دکھتا ہے۔ 720 کمپنیوں کا ریوینیو بڑھا ہے۔ یہ گزشتہ3 سال میں زیادہ ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں سدھارکے اشارے دکھ رہے ہیں۔
(یہ تبصرہ بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر