ہندوستان کے میڈیا اور تاریخ دانوں نے اس واقعہ کو جابرانہ ٹیکس نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کے بجائے ہندو حکمران کے خلاف مسلم رعایا کی بغاوت سے تعبیر کرکے تاریخ کے ساتھ بدترین خیانت کی ہے۔
ماہ مئی کا پہلا دن کرہ ارض میں محنت کشوں اور مزدورں کے نام وقف ہوتاہے ۔ کمیو نزم کے زوال کے بعد یوم مئی میں اب پہلے جیسا جوش و خروش نظر تو نہیں آتا ہے، مگرموجودہ کارپوریٹ کلچر ، سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے اور اسکے عدم احتساب نے جہاں مزدوروں اور کسانوں کے مسائل میں اور اضافہ کیا ہے، وہیں اس دن کی اہمیت اور اجاگرکی ہے۔گو کہ یہ دن 132برس قبل امریکی شہر شکاگو میں مزدورں کے ایک احتجاجی جلوس پر ظلم و ستم کے حوالے سے موسوم ہے، مگر شاید کم ہی لوگوں کو علم ہوگا کہ دنیا کی پہلی منظم ٹریڈ یونین تحریک کا سہرا دور ولایت میں نہیں بلکہ پڑوس میں کشمیر کے سر جاتا ہے۔
مئی 1886شکاگو کی ہئےمارکیٹ میں مزدوروں کے خلاف تشدد کے واقعہ سے21برس قبل 29 اپریل 1865کو سرینگر کی سڑکیں بد نصیب شال بننے والے کاریگروں کے خون سے لالہ زار ہوگئی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ 2008 میں اپنی وفات سے قبل تک معروف کشمیری صحافی اور سیاسی کارکن پران ناتھ جلالی ہر سال 29 اپریل کودہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ایک میز بک کرکے ان بدنصیب مزدورں اور کاریگروں کو یاد کرتے تھے۔ کئی روز قبل سے ہی وہ فون پر اپنی نحیف مگر پر اثر آواز میں تقریب میں آنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ چند کشمیری صحافیوں اور قلم کاروں کی معیت میں پریس کلب کے ایک کونے میں جلالی صاحب اکثر رونا روتے تھے، کہ کشمیریوں نے تو انقلاب روس اور چین سے بہت پہلے محنت کشوں کے حقوق کیلئے خون بہایا، مگر تاریخ نے اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔
شکاگو کی ہئے مارکیٹ کا واویلا پوری دنیا کرتی ہے، مگر بدنصیب شال بننے والے کاریگروں کو یاد کرنا تودور کی بات، ان کی قبروں تک کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔کمیونزم کے ساتھ رغبت رکھنے کے باوجود، جلالی صاحب کمیونسٹ لیڈروں سے نالاں رہتے تھے۔ ا ن کا گلہ تھا کہ چند ایک کو چھوڑ کر کشمیر کے سلسلے میں ان لیڈروں کے خیالات و افکارہندوستانی ہندو قوم پرستوں سے جدا نہیں ہیں ، جو ہر دم کشمیر میں جائز جمہوری جدوجہد کو تعصب کی عینک سے دیکھتے آئے ہیں۔ کشمیریوں کے سیاسی حقوق کی حمایت کرنا تو دور کی بات، انہوں نے تو کشمیر کے محنت کشوں کی قربانیوں کو بھی بھلایا دیا ہے ، شاید اس لیے کہ وہاں ظلم و جبر کا شکار ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
تاریخ کے ان گنت حوالے کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں تو نہیں ،کم از کم 1865میں سرینگر میں ظہور پذیر یہ خونیں واقعہ ایشیا میں اس طرح کی پہلی منظم ٹریڈ یونین اسٹرائک تھی۔متحدہ ہندوستان میں اس طرح کی پہلی باضابطہ اسٹرائک مہاتما گاندھی کی قیادت میں 1918میں احمد آباد گجرات میں کپڑا مل ورکروں کی ہے، جس کی یاد میں ہر سال کئی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ حال میں دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں اس واقعہ کی یاد میں گزشتہ ایک ماہ سے ایک فوٹو نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چونکہ کشمیری شال کی یورپ میں خاصی مانگ تھی، اسلئے قابض حکمرانوں نے اسپر ٹیکسوں کی بوچھار کرکے اسکو مالگزاری اور خزانے کو بھرنے کا ایک ذریعہ بنایا تھا۔
چرب دست و تر دماغ کشمیری کاریگر کے ہاتھوں بنے شال فرانس کے فرمانروا نیپولین بوناپارٹ کی اہلیہ ملکہ جوزیفین کو اس حد تک عزیز تھے کہ اس نے 20 ہزار سنہری فرانک ( ایک لاکھ پاؤنڈ) ایک شال پر خرچ کئے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق جس وقت اسکی موت ہوئی تواس کے وارڈ روب میں 400قیمتی کشمیری شال موجود تھی۔ حتی ٰ کہ اس کا لباس اور تکیے بھی پشمینہ شال کے میٹیریل کے تھے۔ مگر اس مانگ کے باوجود کشمیر کے حکمرانوں کو اس صنعت سے منسلک کاریگروں یا اون حاصل کرنے والے چرواہوں کی بہبود سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ایک شال پر حاصل ہونے والی آمدن میں سے 85فیصد بطور ٹیکس خزانے میں جمع کرنا پڑتا تھا۔ ان کے پاس بس اتنی کمائی بچتی تھی کہ وہ جہلم ، ڈل جھیل یا وولر سے حاصل ہونے والے سنگھاڑے خرید کر اہل و عیا ل کا پیٹ بھر سکتے تھے۔ چاول ، گندم یا کسی اور چیز سے پیٹ بھرنا انکی معاشی طاقت سے باہر تھا۔
کئی یاداشتوں کے بعد بھی جب حالات میں بہتری کی امیدیں معدوم ہوگئیں، تو 29اپریل 1865کو لاوا پھوٹ پڑا۔ سرینگر کے شالبافوں (شال بننے والے کاریگروں) نے محکمہ داغ شال،جوشالبافوں سے ٹیکس وصولی کا سرکاری محکمہ تھااور جس کے سربراہ کے عہدے کو ‘داغ شال‘ کے نام سے جانا جاتا تھا،کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔یہ احتجاج ،جوتاریخ میں شالبافوں کی تحریک کے نام سے مشہور ہے ،شالبافوں کے مشکل حالات کار،برائے نام اجرت، بھاری ٹیکسوں اورشالبافوں کے کشمیر سے باہر جانے پر پابندی عائد کئے جانے کے خلاف منظم کیا گیا تھاجس میں ہزاروں شالبافوں نے علی الصبح ڈوگرہ حکومت کے ‘داغِ شال‘ پنڈت راج کاک دھرکے گھر ، جو شہر کے مرکز زالڈگر میں واقع تھا،کے باہر احتجاجی مظاہرے کئے۔
پنڈت دھر نے فوج کو یہ اطلاع فراہم کی کہ اس کے گھر پر حملہ ہوا ہے،چنانچہ بغیر کسی تفتیش کے کرنل بجے سنگھ کی قیادت میں فوج کی ایک پلٹن نے مظاہرین کا گھیراؤ کرکے بندوقوں کے دہانے ان پر کھول دئے اورگھڑسوار وں نے گرے پڑے مظاہرین پر نیزوں سے وار کئے۔اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جان بچانے کی غرض سے نزدیک بہنے والی ندی ‘کٹہ کول‘کے اوپر بنی کچی پلیا ‘حاجی راتھر کی سم‘کے اوپر سے چھلانگیں لگائیں جس کے نتیجے میں کئی افراد ندی کے دلدل میں دھنس کر ہلاک ہوگئے جبکہ 100سے زائد زخمی ہوئے۔ شعبہ قانون کے استاد ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ ”یہ استحصالی نظام کے خلاف اولین عوامی تحریک تھی‘‘۔ اس تحریک کے لیڈروں رسول شیخ ، عبلی بابا، قدہ لالہ اور سونہ بٹ کو جموں کے قلعہ باہواوررام نگر کی جیلوں میں پابند سلاسل کرکے تشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔
اس زمانے میں ڈوگرہ حکومت شال کی صنعت سے 50 لاکھ روپیہ سالانہ کماتی تھی۔ اسی سال کشمیر سے ایک لاکھ پچیس ہزار پونڈ کی شالیں یورپ روانہ کی گئی تھیں، مگر چرب دست کاریگر کو روزانہ 16 سے 18 گھنٹہ کام کرنے کے باوجود 5 تا 7 روپے ماہانہ ملتا تھا۔ اس میں ایک بڑی رقم بطور ٹیکس ادا کرنی پڑتی تھی۔ جب کاریگروں نے شالبافی کو ترک کرکے روزگار کی تلاش میں پنجاب اور صوبہ سرحدجانا شروع کیا، تو حکم نادری نازل ہوا کہ وہ شال بننے کا پیشہ ترک کرسکتے ہیں ا ور نہ ہی بیرون ریاست جا سکتے ہیں۔بیرون ریاست جانے والوں کے اہل و عیال کو جیلوں میں بطور یرغمال رکھا جاتا تھا۔
اس واقعہ کوگذرے اب 152 برس ہوچکے ہیں، مگر مقامی باشندوں کے دل ودماغ میں اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔مگر سوال ہے کہ آخر محنت کشوں کو منظم کرنے والے یہ اولین شہدا تاریخ کے اوراق میں کیوں گم ہوگئے ہیں۔ ہندوستان کے میڈیا اور تاریخ دانوں نے اس واقعہ کو جابرانہ ٹیکس نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کے بجائے ہندو حکمران کے خلاف مسلم رعایا کی بغاوت سے تعبیر کرکے تاریخ کے ساتھ بدترین خیانت کی ہے۔
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ 1924 کو سرینگر کی سلک فیکٹری میں پیش آیا، جب وہاں مزدوروں نے احمد آباد اور بمبئی کے مل ورکروں کی طرز پر کام کی مدت طے کرنے، بہتر اجرت، اور ایک استحصالی کلرک کی معزولی کا مطالبہ لے کر ایجی ٹیشن کی۔
یہاں بھی ڈوگرہ فوج نے فیکٹری پر دھاوا بول کرمزدوروں کو زد و کوب کیا اور ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے دور دراز کی جیلوں میں پہنچایا گیا۔ ان میں سے شاید ہی کسی کو زندہ واپس آنا نصیب ہوا۔ ان غریب مزدوروں سے ہمدردی جتانے کے بجائے 1924 کے ہندوستان ٹائمز کی خبر ہےکہ سلک فیکٹری کے مسلمان مزدوروں نے ہندو سپروائزروں کو یرغمال بنایا، اور ان کے تحت کام کرنے سے انکار کیا۔اکثر ہندو قلم کاروں نے اس واقعہ کو اسی طرح پیش کرکے اس کو فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوشش کرکے انتہائی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔
شکاگو کے حادثے نے مزدوروں کی زندگی میں بہتری کے چراغ روشن کئے اور سرمایہ داروں کے خلاف دنیا کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کیا، مگر کشمیر اب بھی انصاف کا منتظر ہے۔دنیا بھر کے محنت کشوں کی یا د میں آنسو بہانے والے ، اگر کشمیری مزدوروں، کاریگروں اور محنت کشوں کی حالت زار اور ان کی قربانیوں کو بھی یاد کرکے اس بدنصیب قوم کے آنسو پونچھنے کی سعی کریں، تو ان کی شان میں کوئی حرف نہیں آئے گا۔ کیا ہوا کہ یہ محنت کش مسلمان تھے، مگر محنت کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ہندوستان اور پاکستان میں اس خونیں تاریخ کو نئی پود تک پہنچانے کی ازحد ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دنیا میں تونہیں کم از کم جنوبی ایشیا میں محنت کشوں کا دن 1مئی کے بجائے 29اپریل کو منایا جاتا ۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو یوم مئی پر ہی ان شہید کاریگروں کو یاد تو کیا جاسکتا ہے ۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!
Categories: فکر و نظر