فیک نیوز:میں منموہن سنگھ کی طرح غلام نہیں ہوں، مجھے جو ٹھیک لگ رہا ہے میں وہ انجام دے رہا ہوں، آج ہندوستان کو آر ایس ایس جیسی تنظیم کی بہت ضرورت ہے!
ہندوستان کے سابق صدر پرنب مکھرجی کو گزشتہ ہفتہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں مدعو کیا گیا تھا جہاں اپنے خطاب میں انہوں نے وطن پرستی اور وطنیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔خطاب کے بعد جب تقریب کی تصویریں سوشل میڈیا پروائرل ہوئیں تو ان میں ایک تصویر وہ بھی موجود تھی جس میں پرنب مکھرجی کو سنگھ کے خصوصی انداز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتے ہوئے دکھایا گیا اور ان کے سر پر سنگھ کی کالی ٹوپی بھی موجود ہے۔
See, this is exactly what I was fearing & warned my father about. Not even few hours have passed, but BJP/RSS dirty tricks dept is at work in full swing! https://t.co/dII3nBSxb6
— Sharmistha Mukherjee (@Sharmistha_GK) June 7, 2018
Real 1 n fake 2 ye kalakari bjp itcell ….kuch to sharm rakho..jo bola hai wo ni bataynge.@MahilaCongress @ChitraSarwara @sushmitadevmp @chouhan_sumitra @INCIndia @IYC @RahulGandhi @neetuvermasoin @DeependerSHooda @rssurjewala @Sharmistha_GK @INCHaryana @HaryanaPMC pic.twitter.com/YZQvohHmOG
— Ruchi Sharma (@RuchisharmaINC) June 7, 2018
پرنب مکھرجی کی اس تصویر کو ان کی بیٹی شرمشٹھا مکھرجی نے بھی ٹوئٹ کیا اور کہا کہ جس بات کا خوف تھا، وہی ہوا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے بدگمانی پھیلانے کا کام زور پر ہے۔شرمشٹھا مکھرجی نے ایک دن قبل اپنے والد کو مینشن کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اس کا اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ ناگپور میں ان کے دورے کے بعد انکے نام سے منسوب کرکے جھوٹی باتیں عام کی جائیں گی۔
انڈیا ٹوڈے نے اپنے تفصیلی مضمون میں تین لوگوں کو اس تصویر کے لئے ذمہ دار بتایا۔مِہِر جھا، ابھیشیک جھا اور کرشنا ،ان لوگوں نے پرنب مکھرجی کی تصویر کا فوٹوشاپ کیا تھا۔مِہِر جھا کو نریندر مودی ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔مہر جھا نے کرشنا کو ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پرنب مکھرجی کی اس تصویر کوتبدیل کرکے ان کے سر پر سنگھ کی ٹوپی لگا دی جائے۔
کرشنا سے پہلے ہی دوسرے شخص ابھیجیت جھا نے جواب میں اس تصویر کو فوٹوشاپ کر کے مہر جھا کو ٹوئٹ کر دیا۔اس کے بعد یہ تصویر ٹوئٹر پر بہت عام ہوئی۔جب انڈیا ٹوڈے نے ان تینوں افراد سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تصویر کو صرف مزاح اور تفریح کے لئے ایڈیٹ کیا تھا اور ہمیں کسی سیاسی پارٹی نے پیسے نہیں دئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا اخبار کے پہلے صفحہ کی ایک تصویر آج کل سوشل میڈیا پر بہت عام کی جا رہی ہے جس کا مقصد اتر پردیش میں یوگی حکومت کو بدنام کرنا ہے۔تصویر میں ایک خبر موجود ہے جس کی سرخی یہ کہتی ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی حکومت عیسائیوں کو پریشان کر رہی ہے، بروز اتوار چرچ میں نذر کی جانے والی اشیا پر 6 فیصد جی ایس ٹی لگانے کے لئے یو پی اسمبلی سے قانون پاس کروا چکی ہے !
بوم لائیو نے اپنی تفتیش میں پایا کہ ٹائمز آف انڈیا کی وہ تصویر جھوٹی ہے جس کو فوٹوشاپ سے بنایا گیا ہے۔بقول بوم لائیو، یہ تصویر اس لئے جھوٹی ثابت ہوتی ہے کیونکہ:
- جی ایس ٹی والی خبر کی سرخی کا فونٹ اخبار کے فونٹ سے بالکل الگ ہے اور کسی بھی مضمون کے فونٹ سے اسکی کوئی مشابہت نہیں ہے۔تصویر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تصویر فوٹوشاپ کا نتیجہ ہے۔
- اخبار کے صفحہ پر موجود تمام دوسری خبریں بہت پرانی ہیں۔کرکٹ کھلاڑی ظہیرخان کی تصویر اور ان سے متعلق خبر2010 کی ہے اور اسی طرح سابق پرائم منسٹر ایچ ڈی دیوگوڑا کے بیان والی خبر بھی2010 کی ہے۔
- صوبے میں جی ایس ٹی لگانے کا حق صوبائی حکومت کو نہیں دیا گیا ہے، اس کا حق صرف ملک کی پارلیامنٹ کو دیا گیا ہے۔
اس طرح ٹائمز آف انڈیا کی وہ تصویر جھوٹی ہے اور فیک نیوز کو فروغ دیتی ہے!
پرنب مکھرجی کے ناگپور جانے کی خبر کے بعد سے ہی میڈیا اور انٹرنیٹ پر بحث کا دور شروع ہو گیا تھا۔لوگ اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر اس موضوع پر تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ ملک کے سابق صدر کو آر ایس ایس جیسی تنظیم کی تقریب میں جانا چاہئے یا نہیں؟ کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے لکھا تھا کہ جب پرنب مکھرجی نے سنگھ کی دعوت قبول کر ہی لی ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ سنگھ کارکنوں کو صاف الفاظ میں بتاکر آئیں کہ آر ایس ایس کی فکر میں کہاں کمی ہے!
اسی بحث کے درمیان سوشل میڈیا میں اس بات کا بھی جواب تلاش کرلیا گیا تھا کہ سابق صدر کو آر ایس ایس جیسی تنظیم کی تقریب میں جانا چاہئے یا نہیں؟ جواب ایک تصویر کی شکل میں منظر عام آیا تھا جس میں پرنب مکھرجی کی تصویر کے ساتھ یہ بیان منسوب کیا گیا تھا:
میں منموہن سنگھ کی طرح غلام نہیں ہوں، مجھے جو ٹھیک لگ رہا ہے میں وہ انجام دے رہا ہوں، آج ہندوستان کو آر ایس ایس جیسی تنظیم کی بہت ضرورت ہے!
اس تصویر کو سوشل میڈیا پر بہت عام کیا گیا۔جب بوم لائیو نے پرنب مکھرجی کے دفتر میں رابطہ قائم کیا تو جواب ملا کہ یہ تصویر بالکل جھوٹ ہے، کوڑا ہے۔
گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی۔ویڈیو کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہ ویڈیو ہندوستان کے صوبے میزورم کی ہے جہاں عیسائی مشنری ہندوستانی پرچم اور ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویروں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ویڈیو:
اس ویڈیو کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ویڈیو ستمبر 2017 کی ویڈیو ہے اور میزورم کے ضلع لنگلائی سے تعلق رکھتی ہے۔ویڈیو میں کچھ شر پسند لڑکے ہندوستان کے قومی پرچم کو آگ لگا رہے ہیں۔اس واقعے کو فرسٹ پوسٹ نے ستمبر2017 میں رپورٹ کیا تھا۔جب سوشل میڈیا پر ان شرپسندوں کو عیسائیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جانے لگی تو کیتھلک بشپ کانفرنس آف انڈیا نے 2017 میں ہی واضح کیا تھا کہ :
ہم یہ صاف طور پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی بھی طرح کی شدت پسندی کے بالکل خلاف ہیں، چاہے وہ کسی بھی تنظیم یا فرد کی جانب سے ہو۔انسانوں کے درمیان شدت کو فروغ دینا عیسائی مذہب کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور ہم ایسے امر کے بالکل خلاف ہیں۔ہم حیرت زدہ ہیں کہ یہ شدت پسندی عیسائی مذہب کے نام میں نافذ کی جا رہی ہے !
Categories: فکر و نظر