پرنب دا آپ ناگ پور میں سنگھ کو یہ نہیں بتا پائے کہ نہرو کی بھارت ماتا اور ہیڈگیوار کی بھارت ماتا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسی لئے آپ یہ فرق کرنے میں بھی چوک گئے کہ بھارت ماتا کے عظیم سپوت ہونے کی بنیادی کسوٹی کیا ہے۔
راشٹر ،راشٹرواد اور دیش بھکتی پر بحث الجھتی چلی جا رہی ہے۔ابھی تک گتھی پھنسی تھی کہ بھارت ماتا کون ہے؟پرنب مکھرجی کے ذریعے آر ایس ایس کے بانی کیشو بلرام ہیڈگیوار کو ‘بھارت ماتا کا عظیم سپوت ‘ کہنے کے بعد نیا سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ بھارت ماتا کا ‘ عظیم ‘ سپوت کون ہے؟ویسے تو ہندوستان کی سر زمین پر جنم لینے والا ہرکوئی بھارت ماتا کا پوت، سپوت یا کپوت ہو سکتا ہے۔لیکن بھارت ماتا کے کروڑوں کروڑ سپوت میں ‘عظیم ‘سپوت کون ہے یہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ آپ کے حساب سے آپ کی بھارت ماتا کون ہے؟
پرنب دا کو ان کی بیٹی شرمشٹھا مکھرجی نے خبردارکیا تھا-‘تقریر بھلا دی جائےگی، تصویریں رہ جائیںگی اور ان کو جھوٹے پیغامات کے ساتھ پھیلائی جائےگی۔’یہ لفظ بہ لفظ سچ ثابت ہوا اور پرنب مکھرجی کی تقریر کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کی تصویر فوٹوشاپ کرکے پھیلائی جانے لگی۔لیکن ان تصویروں سے جتنا نقصان بی جے پی آر ایس ایس کی آئی ٹی سیل نہیں پہنچا سکتی تھی، خود پرنب مکھرجی نے ہیڈگیوار پر لکھے اپنے تبصرہ سے پہنچا دیا۔انہوں نے لکھا-‘میں یہاں بھارت ماتا کے عظیم سپوت کو خراج عقیدت دینے آیا ہوں۔’ کوئی بھولا آدمی ہی یقین کرےگا کہ انہوں نے ایسا بھولے پن میں کر دیا۔
اس کے پیچھے کی اسکیم کچھ بھی ہو لیکن جس راشٹرواد کی بات ایک اسٹیٹس مین کی طرح وہ آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر میں کر رہے تھے، کیا پرنب مکھرجی نہیں جانتے کہ ہیڈگیواراور ان کی تنظیم اس کی قبر کھودنے میں پچھلے 90 سال سے لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر میں جیسے بھاری بھرکم اکادمک الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یکجہتی کی بات کی۔ایسا تو ہے نہیں کہ ان کو پتا نہیں ہے کہ ہندو راشٹر کا پورا نظریہ ہی ان اعلیٰ قدروں کے جنازے پر ٹکا ہے۔ان کو یہ بھی پتا ہی ہے کہ اس سوچ کی نمائندہ تنظیم آر ایس ایس ہیڈگیوار کے دماغ کی ہی پیداوار تھی۔تو کیا ہیڈگیوار اپنی خدمات کے انہی معانی میں ‘بھارت ماتا کے عظیم سپوت ‘ہوئے؟
یا ساجھا راشٹرواد،جس کی بات وہ آر ایس ایس کے منچ سےکر رہے تھے،اس ملک میں اکثریت ہندوؤں اوراقلیتوں کے درمیان باہمی طور پر یکجہتی اور تعاون کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ کیا ان کو واقعی یہ نہیں پتا تھا کہ جن ہیڈگیوار کے نام کا وہ قصیدہ پڑھ آئے، انہوں نے ملک کے سب سے بڑی اقلیتی کمیونٹی یعنی مسلمانوں کو ‘ پھپھکارتے یون سانپ ‘ کہا تھا۔دھیان رہے کہ ہیڈگیوار کا یہ قول ان کے دل میں ان مسلمانوں کے متعلق پیدا غصے کا اظہار تھا جو خلافت اور عدم تعاون تحریکوں میں ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر لڑ رہے تھے۔
کچھ لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سوال بے وجہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ان کو بتانا ضروری ہے کہ ہیڈگیوار کو اس ڈگری سے نوازنے سے ایک بھاری مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے متعلق عوام میں چڑ پیدا کرنے پر ہی آر ایس ایس کی بنیاد ٹکی ہے، آزادی کی جدو جہد کے ان ہیروؤں کو اب ہم کیا کہیںگے؟’ بھارت ماتا کے عظیم سپوت ‘اصل میں کوئی لفظ سیٹ نہیں ہے۔عام طور پر یہ ہندوستان کی مجاہد آزادی کی تعریف ہے۔ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آزادی کی لڑائی کے تمام دیوانوں نے اس لڑائی میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور اس لئے وہ سب بھارت ماتا کے عظیم سپوت کہلائے۔
'Today I came here to pay my respect and homage to a great son of Mother India': Former President Dr.Pranab Mukherjee's message in the visitor's book at RSS founder KB Hedgewar's birthplace in Nagpur pic.twitter.com/ax76NCzJMa
— ANI (@ANI) June 7, 2018
اب جس تنظیم کے بانی نے آزادی کی لڑائی سے نہ صرف اپنی تنظیم کو دور رکھا، اس کو کمزور کرنے کی سازش بھی کی، اس کو کیا اب بھارت ماتا کے عظیم سپوت کے زمرے میں رکھا جانا مناسب ہے؟ایک طرح کےنظریہ کو ماننے والے لوگ اپنے لئے نایک اور کھلنایک گڑھتے ہی ہیں۔فطری ہے کہ آر ایس ایس کے لئے ہیڈگیوار، ساورکر،گولولکر محترم ہیں، یاد گار ہیں۔اسی سلسلے میں انہوں نے اپنے لئے جواہرلال نہرو جیسے کھلنایکوں کی تخلیق بھی کی ہے۔کیا آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت الٰہ آباد میں جواہرلال نہرو کے آبائی رہائش گاہ آنند بھون جاکر ان کو ‘ بھارت ماتا کا عظیم سپوت ‘ لکھیںگے؟
ہو سکتا ہے کہ آپ کی طرح اپنے اصل نظریہ کی طرف سے کچھ منٹ منھ موڑکر وہ لوگوں میں شرم کی وجہ سے ایسا کر جائیں۔لیکن کیا وہ دل سے نہرو کے متعلق اتنے احترام کااظہار کر پائیںگے جتنا خیالی طور سےوہ ان صفحات پر لکھ بیٹھے ہیں؟ہم امید کرتے ہیں کہ آپ بھی بس زمانے کے دستور میں ہی کچھ ایسا کر گزرے ہیں۔اس سوال کو ایسے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا گاندھی اور گوڈسے دونوں کو ایک ساتھ ‘ بھارت ماتا کا عظیم سپوت ‘پکارا جا سکتا ہے؟ظاہر ہے گاندھی اور گوڈسے کو ایسا ماننے والے دو الگ اور منفی سوچکے لوگ ہیں۔
یا جنرل ڈائر اور جلیاں والا باغ کے شہیدوں کی ایک سر میں تعریف کی جا سکتی ہے؟کیا لالہ لاجپت رائے اور لاہور کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس جیمس اے اسکاٹ کو برابر رکھا جا سکتا ہے؟ظاہر ہے ان سبھی کو عظیم خطاب سے نوازنے والے لوگ الگ الگ سوچکے نمائندے ہوںگے۔ہماری کشمکش یہ ہے کہ اگر آج ہیڈگیوار بھارت ماتا کے عظیم سپوت ہو گئے ہیں تو کیا کل گوڈسے کو بھی ایسے ہی یاد کیا جائےگا؟کیونکہ گوڈسے جس ہندو ملک کے تصور کے تابع ہوکر گاندھی جی کی جان لینے پر تلا ہوا تھا، ہیڈگیوار اس کے روح رواں ہیں۔
پھر ہیڈگیوار نے جس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی،گوڈسےطویل عرصےتک اس کا آئیڈیا لاگ تھا۔گوڈسے تو فرقہ وارانہ سوچ کا ایک چھوٹا مہرابھر تھا، ہیڈگیوار اس سوچ کو تنظیم میں تبدیل کرنے والے شخص تھے۔گاندھی کے خواب کا ملک مذہبی بنیاد پر جانبداری کی نفی کرتا ہے۔وہاں امن کا ہرکارہ بننے کی تمنا ہے اور اپنے مادر وطن کے لئے جینے اور مرنے کے جذبہ شوق سے سرشار ۔گاندھی کے پاس ایسے ملک کا تصور ہے جہاں تمام کمیونٹی آپس میں پوری ہم آہنگی کے ساتھ جئیںگے۔
اس کے برعکس ہیڈگیوار کے لئے ملک کا مطلب ہندوؤں اور صرف ہندوؤں کی تنظیم ہے جہاں اقلیتوں کے لئے یہ دھمکی ہے کہ وہ نہ بھولیں کہ وہ ہندوؤں کے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ان کے ہندو ملک میں اقلیت دوئم درجے کے شہری ہیں جو ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ہیڈگیوار ‘ بھارت ماتا کے عظیم سپوت ‘تھے یا نہیں یہ اس سے بھی طے ہوتا ہے کہ آپ فرقہ پرستی کو کیسے سمجھتے ہیں۔انگریزوں کی ‘ پھوٹ ڈالو راج کرو ‘ کی پالیسی کی فوری کامیابی یہ تھی کہ مسلم اور ہندو فرقہ وارانہ شعور ہندوستانی قومی تحریک کے لئے سنگین چیلنج بنتا چلا گیا۔
فرقہ پرستی وہ نظریہ ہے جس نے نہ صرف آزادی کی لڑائی کو اندر سے کمزور کیا، بلکہ ملک کا بٹوارا بھی کروا دیا۔آج بھی ہم فرقہ وارانہ فاشزم کے خطرہ سے ٹکرانا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بھارت ماتا کی آنکھ میں آنسو لانے والا رجحان ہے۔اب اگرآپ اس تاریخی سچ کوسمجھتے ہیں تو پھر آزاد ہندوستان کے سب سے فرقہ وارانہ تنظیم کے بانی کو ‘بھارت ماتا کا عظیم سپوت ‘کیسے کہہ سکتے ہیں؟اگر ہم ایسا مان لیں تو فرقہ پرستی کے خطرے کو پہچانکر اس سے ٹکرانے والے سبھی لوگ تو بھارت ماتا کے مجرم ہی کہلائیں گے۔
آر ایس ایس کی تاریخ آزادی کی لڑائی سے بغاوت کی تاریخ ہے۔ہیڈگیوار شاید ان چند لوگوں میں تھے جنہوں نے اپنے شروعاتی دور میں آزادی کی لڑائی میں کچھ حصہ لیا تھا۔لیکن 1925 کے بعد ان کی فکر ہندوؤں کو منظم کرنے اور ان کو آزادی کی جدو جہد سے دور کرنے پر مرکوز ہو گئی۔اس کے بعد تو وہ کانگریس اور اس کے رہنماؤں کے ملک کا تصور کا اینٹی ڈاٹا تیار کرنے میں جٹ گئے۔سول نافرمانی کے وقت انہوں نے آر ایس ایس کو تحریک سے دور رکھا،لیکن خود اس میں حصہ لینےاس لئے گئے تاکہ گاندھی کی تحریک سے توڑکر حوصلہ مند ہندو نوجوانوں کو سنگھ میں لایا جا سکے۔
اس کے بعد ہیڈگیوار نے کبھی برٹش حکومت کے خلاف ایک لفظ اپنے سویم سیوک کو نہیں سکھایا۔ان کی ساری توانائی اس بات میں خرچ ہوئی کہ کیسے کانگریس اور اس کےسمجھکی راشٹروادکی مخالفت کی جا سکے۔انہوں نے سنگھ کے سویم سیوک سے اپیل کی کہ 1930 میں کانگریس کی تجویز پر ملک بھر میں منائے جانے والے یوم آزادی کے دن تمام شاکھاؤں میں کانگریسی ترنگے کی جگہ بھگوا پرچم پھہرایا جائے۔ترنگے کے متعلق یہی بیزاری آگے چلکر اس کو ‘بدشگُون ‘ماننے کی سوچ کی بنیاد بنی کیونکہ ہیڈگیوار کے مطابق تو ترنگا نہیں بھگوا ہی ہندو راشٹر کا پرچم ہو سکتا تھا۔
مخالف نظریہ سے مکالمہ کے نام پر کی گئی اس تقریر میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں۔صحت مند مکالمہ کی دو پہلی شرطیں ہوتی ہیں-پہلی کہ دونوں فریق کے مکالمے منطقی ہوں اور دوسری کہ دونوں کھلے دماغ سے ایک دوسرے سے قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔آر ایس ایس ان دونوں ہی معیاروں پر کھرا نہیں اترتا۔اس کی نظریاتی بنیاد یا تو وہمی تصور پر مبنی ہے یا پھر جھوٹ اور افواہ کی بنیاد پر۔رہی بات اس کو متاثر کرنے کی تو جو تنظیم گاندھی سے متاثر نہ ہوئی، وہ پرنب مکھرجی سے تو کیا ہی متاثر ہوگی۔
یاد رکھئے گاندھی جب پہلی اور آخری بار 16 ستمبر 1947 کو دہلی میں واقع آر ایس ایس کی ایک ساکھ میں لے جائے گئے تھے تو انہوں نے صاف کہا تھا کہ میں آپ کو خبردار کرتا ہوں؛اگر آپ کے خلاف لگایا جانے والا یہ الزام صحیح ہے کہ مسلمانوں کو مارنے میں آپ کی تنظیم کا ہاتھ ہے، تو اس کا نتیجہ برا ہوگا۔ ‘کاش!پرنب مکھرجی بھی وہاں جاکر 16 سال کے بچے جنید کے بے رحم قتل پر سوال کھڑے کر دیتے اور پوچھتے کہ ان قتل معاملوں میں شامل لوگوں کی آنکھوں میں بھلا ہندو راشٹر کا خواب کیوں تیرتا رہتا ہے؟کتنا اچھا ہوتا اگر وہ گاندھی کی طرح کہہ دیتے کہ ‘مجھے ہندو ہونے کا فخر ضرور ہے لیکن میرا ہندو مذہب نہ تو عدم روادار ہے اور نہ ہی کسی کا مخالف۔ ‘آپ ان کو یہ نہیں بتا پائے کہ نہرو کی بھارت ماتا اور ہیڈگیوار کی بھارت ماتا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسی لئے آپ یہ فرق کرنے میں بھی چوک گئے کہ بھارت ماتا کے عظیم سپوت ہونے کی کسوٹی کیا ہے۔
(مضمون نگار راشٹریہ آندولن فرنٹ کے نیشنل کنوینر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر