انٹرویو : بھیماکورےگاؤں تشدد میں ماؤوادی لنک، وزیر اعظم کے مبینہ قتل کی سازش اور دلتوں کی حالت پر بابا صاحب بھیم راؤ آمبیڈکر کے پوتے اور بھارتیہ رپبلکن پارٹی بہوجن مہاسنگھ کے رہنما پرکاش آمبیڈکر سے پرشانت کنوجیا کی بات چیت۔
پونے کے بھیماکورےگاؤں تشدد میں ماؤوادی لنک اور وزیر اعظم کے قتل کی مبینہ سازش کے تعلق سے الگار کونسل کے سدھیر دھولے کے علاوہ چار دیگر لوگوں کی گرفتاری پر آپ کیا کہنا چاہیںگے؟
سدھیر دھولے پر حکومت نے پہلی بار حملہ نہیں کیا ہے۔ تقریباً 6 سال پہلے ان کو ماؤوادی تنظیم سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن عدالت میں حکومت یہ بات ثابت نہیں کر پائی اور عدالت نے الزامات کو خارج کر ان کو معاملے سے بری کر دیا۔حکومت نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں بھی اپیل کی تھی، لیکن وہ بھی خارج ہو گئی۔ سدھیر دلتوں کے حقوق کی لڑائی لڑتے رہے ہیں۔ حکومت ان کو سازش کے تحت گرفتار کر بھیماکورےگاؤں تشدد کے سازش کرنے والے سمبھاجی بھڑے اور ملند ایک بوٹے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ ان دونوں سے لوگوں کی نظر ہٹ جائے۔ ایسے غیرسماجی عناصرکو بچانے کے لئے پوری ریاست کی انتظامیہ اور پولیس لگی ہوئی ہے۔ دلتوں پر ہو رہے حملے حکومت کو دکھتے نہیں کیونکہ یہ سب کرنے والے حکومت کے لوگ ہیں۔ حکومت ہرممکن کوشش کر رہی ہے تاکہ ان لوگوں کو بچا لیا جائے۔فساد کرنے والوں پر اور تشدد بھڑکانے والوں پر کوئی کارروائی نہ کر معصوم دلتوں کو جیل میں ڈالکر پورے سماج میں ڈر کا ایک ماحول قائم کرنے کی کوشش حکومت کر رہی ہے۔
پولیس کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی سازش کے دعوے اور اس کے لیے گرفتار کئے گئے ایک آدمی کے پاس سے برآمد منصوبہ کے مبینہ خط کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟
دیکھیے،یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ پولیس کو پہلے یہ بتانا چاہیے کہ 2014 سے لےکر اب تک نریندر مودی کو کتنی بار دھمکی ملی۔ کیا صرف یہی خط میڈیا میں دکھایا گیا ہے۔اس خط کی سچائی ثابت ابھی نہیں ہوئی ہے۔ ایسا ہے نہ جب جب نریندر مودی کو لگتا ہے کہ ان کی کرسی جانے والی ہے تب-تب وہ اچانک اپنی جان خطرہ میں بتاکر عوام کو گمراہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔
پچھلے چار سال میں مودی نے کچھ نہیں کیا۔ ان کو بھی پتا ہے شاید کہ عوام سب جان رہی ہے۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے ایک ڈھونگ کیا جا رہا ہے، ورنہ وزیر اعظم کے خلاف اس طرح کی سنگین سازش کی بات میڈیا میں نہیں آ جاتی۔اس معاملے کی پہلے جانچ ہونی چاہیے۔ یہ ایک پروپگینڈہ ہے، الیکشن نزدیک ہے، اس لئے مودی ایسا کر رہے ہیں۔ یہ صرف مودی کی اسٹنٹ بازی ہے۔
کیا آپ مانتے ہیں کہ مہاراشٹر پولیس کا رویہ دلت اور مسلم مخالف رہا ہے؟
پولیس کیا ہے؟ وہ تو حکومت کا ہتھیار ہے، جس کو وہ اپنے خلاف اٹھ رہی آوازوں کو روکنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ پولیس کا وہی رویہ ہوتا ہے، جو حکومت کا ہوتا ہے۔پولیس میں نچلی سطح پر اچھے لوگ ہیں پر وہ تو اپنی دانشمندی کا استعمال بھی نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ تو صرف اعلیٰ افسروں کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ پولیس میں جتنے اعلیٰ افسران ہیں تمام آر ایس ایس کے لوگ ہیں اور منووادی ذہنیت میں مبتلا ہیں۔
ہمیں ممبئی میں رمابائی کالونی گولی باری واقعہ اور 1992 کے فسادات میں پولیس کے کردار کو دیکھنا چاہیے۔ کس طرح پولیس حکومت کی طرف سے دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔اس کے بعد حال ہی میں بھیماکورےگاؤں میں واقعہ ہوا جہاں پولیس نے بےقصور اور نابالغ بچوں کو جیل میں بند کر دیا۔ کئی لوگوں پر فرضی مقدمے لگائے گئے ہیں۔ کیا پولیس نے یہ سب خود سے کیا؟ نہیں، وہ سب تو اپنے اعلیٰ افسروں کا حکم مان رہے تھے، جو آر ایس ایس کے لوگ ہیں۔
بی جے پی کا دلتوں کے تئیں رویہ کیسا ہے؟
اگر ہمیں بی جے پی کا دلتوں کے تئیں رویہ دیکھنا ہے تو بھیماکورےگاؤں تشدد، دلتوں کے ہندوستان بند تحریک میں حکومت کا کردار اور سہارن پور تشدد پر دھیان دینا ہوگا۔حکومت اگر بابا صاحب کی خیر خواہ ہوتی تو ان کے سماج پر اتنا ظلم نہیں کرتی۔ بی جے پی ملک میں ایمرجنسی لانا چاہتی ہے۔ وہ صرف بابا صاحب کو علامتی طورپر لےکر چلتے ہیں، لیکن ان کے خیالات کو ساتھ لےکر نہیں چلنا چاہتے۔
بھارت بند تحریک کے وقت ہوئے مظاہرے میں پولیس نے کتنے بےقصور دلتوں کو جیل میں ڈال دیا۔ بھیماکورےگاؤں تشدد میں پولیس نے مجرموں کو چھوڑکر بےقصور بچوں تک کو نہیں بخشا۔سہارن پور تشدد کے وقت بھیم آرمی کے معاملے کو دیکھیے، حکومت نے کیا کیا۔ بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد راون کو بغیر وجہ راسوکا کے تحت جیل میں رکھا گیا ہے۔
بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے دلتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے۔ انصاف دینے کے لئے بنے ادارے پر بی جے پی نے قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ پولیس اور عدالت کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان کی ذہنیت کی وجہ سے دلتوں اور اقلیتوں کو انصاف ملنا مشکل ہے۔
دلت تحریک اور دلتوں کے مدعوں پر میڈیا کے کردار کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ابھی ہمارے ملک کے جو میڈیا گھرانے ہیں وہ تمام بی جے پی کی نزدیکی لوگوں کے ذریعے چلتے ہیں یا بی جے پی سے متاثر نظر آتے ہیں۔نیوز چینلوں کی رپورٹنگ کو دیکھکر ایسا لگتا ہے کہ یہ بی جے پی کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں۔ کچھ آزاد میڈیا گھرانوں کو چھوڑ دیا جائے تو سبھی کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہوتا نظر آتا ہے۔ میڈیا گھرانوں کو دلت کی خبر تو چاہیے لیکن ان کو دلت اور بہوجن کمیونٹی کے لوگ نہیں چاہیے۔
عموماً میڈیا گھرانوں کے مدیر جو دلتوں پر ظلم کی خبر لگاتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ وہ دلت سماج کا بھلا کر رہے ہیں، ان پر احسان کر رہے ہیں لیکن اصل میں وہ دلتوں کی تحریک کو دنگا فساد کے روپ میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔وہ دلتوں پر ظلم کی خبر بتانا چاہتے ہیں، لیکن دلتوں کے مدعوں پر کبھی گفتگو نہیں کرتے۔ دلتوں کے خلاف جرم ہو جائے، تو وہ خبر ہے، لیکن ان کی تحریک، ان کی مانگ اور ان کے مدعوں کو میڈیا میں کہیں جگہ نہیں ملتی۔
بھیماکورےگاؤں معاملے میں میڈیا نے گراؤنڈ رپورٹ کا کام نہیں کیا۔ سبھی نے وہی چھاپا جو حکومت چھپوانا چاہتی تھی۔بھارت بند کے وقت بھی میڈیا نے رپورٹنگ کا کام نہیں کیا بلکہ اسٹوڈیو میں بیٹھکر حکومت کی منشاء کو پورا کرنے میں لگے تھے۔ وہ ان کی مانگوں پر گفتگو نہ کرکے یہ بتانے میں لگے تھے کہ دلت کمیونٹی کے لوگ دنگا فساد کر رہے ہیں۔
اس دنگا فساد میں شامل گولی چلانے والوں پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی کہ وہ کون تھے اور کس کے آدمی تھے۔ اگر دلت گولی چلاتے تو پھر دلت کی ہی موت کیسے ہوتی؟یہ سوال میڈیا سے کیا جانا چاہیے۔ میڈیا نے ہر ممکن کوشش کی کہ کیسے اپنا حق مانگ رہے دلت کمیونٹی کو بری شکل میں دکھایا جائے۔
مہاراشٹر میں بہوجن تحریک بہت پھلا-پھولا، لیکن ریاست میں بہوجن سیاست کیوں مضبوط نہیں ہو پائی؟
جب جب دلت یا بہوجن کمیونٹی کے لوگ اپنے نمائندہ یا اپنی کمیونٹی کی پہچان بنانے میں کھڑے ہوئے تب بی جے پی، کانگریس، این سی پی اور شیوسینا جیسی پارٹیوں نے ان کی سماجی تحریک کے ساتھ سیاسی تحریکوں کو بھی توڑنے کا کام کیا۔یہ تمام پارٹیاں کبھی نہیں چاہتے کہ دلت کمیونٹی کے لوگ ایوان میں خود کی طاقت کے تحت پہنچے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دلت کمیونٹی کے لوگ ان کی پارٹی کی غلامی کرتے ہوئے جی حضوری کا کام کریں اور علامتی شکل سے پارٹی میں پڑے رہیں۔
حالانکہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ دلت سماج ان پارٹیوں کی سیرت سمجھ چکا ہے۔ یہ لوگ دلت کمیونٹی کا بھلا نہیں چاہتے۔ چاہے بی جے پی کی حکومت ہو یا کانگریس اوراین سی پی، دونوں کی حکومت میں دلتوں پر یکساں ظلم ہوتا ہے۔دونوں دلتوں کے تئیں ظلم کی سیاست اپناتے آئے ہیں۔ اب دلت، بہت پچھڑا اور مسلم کمیونٹی کے لوگ ملکر ان کو سبق سکھائیںگے اور سیاست کے ساتھ سماج میں اپنے وجود اور اپنی عزت کی لڑائی خود کے بل بوتے پر لڑیںگے۔
Categories: فکر و نظر