ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کہتا ہے کہ 1000 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے لیکن ہندوستان میں 11082 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ مطلب 10000 کی آبادی کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ملک میں 5 لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ایمس جیسے اداروں میں پڑھانے والے ڈاکٹر اساتذہ کی 70 فیصدی کمی ہے۔
آنے والے دنوں میں ہندوستان کا میڈیا آپ کو کشمیر کا ایکسپرٹ بنانے والا ہے۔ پہلے بھی بنایا تھا مگر اب نئے سرے سے بنائےگا۔ میں الو بنانا کہوںگا تو ٹھیک نہیں لگتا اس لئے ایکسپرٹ بنانا کہہ رہا ہوں۔ ہندوستان کی سیاست بنیادی سوالوں کو چھوڑ چکی ہے۔ وہ ہر مہینے کوئی نہ کوئی تھیم پیش کرتی ہے تاکہ آپ اس تھیم کے آس پاس بحث کرتے رہیں۔ میں اس کو مجموعی طور پر ہندو مسلم نیشنل Syllabus کہتا ہوں۔ آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا نے آپ کو سیاسی طور پر برباد کر دیا ہے۔ پروپیگنڈہ سے طے کیا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک کی حقیقت کیا ہے۔ ہندوستان کا نام یوگ میں پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔
70 کی دہائی کی امریکی فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کے ایک سین میں صبح سویرے اینکر یوگ کے بارے میں بتا رہی ہے۔ یوگ کی بات کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے، میں خود بھی یوگ کرتا ہوں مگر یوگ اور بیمہ کو صحت سہولیات کا آپشن سمجھ لینا قومی بیوقوفی سے کم نہیں ہوگا۔ 2005 سے حکومت ہند کی صحت وزارت ایک نیشنل ہیلتھ پروفائل شائع کرتا ہے۔ اس سال کا بھی آیا ہے جس کو صحت وزیر جے پی نڈا نے جاری کیا ہے۔ اپنی ناکامیوں کی پروفائل جاری کرنے میں ان کی اس فیاضی کا قائل ہو گیا۔
ان کو بھی پتا ہے کہ ہندوستان کا سماج بنیادی سوالوں کی سمجھ نہیں رکھتا ہے اور رکھتا بھی ہے تو میڈیا کے ذریعے چلنے والا پروپیگنڈہ اس کی سمجھ کو دھو کر رکھ دےگا۔ سیاق و سباق کے لئے آپ کوئی بھی خبر چینل دیکھ سکتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہوںگے۔ ڈبلیو ایچ او کہتا ہے کہ 1000 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے لیکن ہندوستان میں 11082 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ مطلب 10000 کی آبادی کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ نتیجہ ڈاکٹر اور ہسپتال کی مہنگی فیس اور مہنگی ہوتی صحت سہولیات ۔
ہندوستان کا غریب آدمی یا عام آدمی بھی ایک بار ہسپتال میں بھرتی ہوتا ہے تو اوسطاً 26 ہزار روپے خرچ کرتا ہے۔ جو ہماری فی شخص آمدنی ہے اس کے حساب سے ایک بار بھرتی ہونے پر تین مہینے کی کمائی چلی جاتی ہے۔ نیشنل ہیلتھ پروفائل کے حساب سے ان ریاستوں کی حالت بہت خراب یعنی ردی سے بھی بدتر ہیں جہاں کی ایک زبان ہندی بھی ہے۔ بہار میں 28391 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے یعنی 27000 لوگوں کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اتر پردیش میں 19962 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ مدھیہ پردیش میں 16996 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ جھارکھنڈ میں 18518 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ چھتیس گڑھ میں 15916 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ کرناٹک میں 18518 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔
دہلی، اروناچل پردیش، منی پور، سکم ہی ایسی ریاست ہیں جہاں 2 سے 3 ہزار کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ دہلی کی بھی وجہ یہ ہے کہ سارے بڑے پرائیویٹ ہسپتال یہی ہیں جہاں ڈاکٹر بہتر سہولت اور زیادہ پیسے کے لئے کام کرتے ہیں۔ نارتھ ایسٹ میں حالت اس لئے اچھی نہیں ہے کہ وہاں ہسپتال وغیرہ بہتر ہیں، بلکہ اس لئے کہ یہاں آبادی کی کثافت کم ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں اگر سال میں 25282 ڈاکٹر پیدا ہوںگے تب تو اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے یوگ کا پروپیگنڈہ کرنا ہی ہوگا۔ اب آپ کے سامنے بیمہ کا نیا کھیل شروع ہوگا۔
2016 میں میڈیکل کاؤنسل آف انڈیا میں صرف 25282 ڈاکٹروں نے ہی نامزدگی کرائی تھی۔ ہندوستان لگتا ہے کہ دانت کے ڈاکٹر پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ 2017 میں 2 لاکھ 51 ہزار سے زیادہ دانت کے ڈاکٹروں نے نامزدگی کرائی تھی۔ ہمارے ملک میں 5 لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ایمس جیسے اداروں میں پڑھانے والے ڈاکٹر اساتذہ کی 70 فیصدی کمی ہے۔ آپ اتنا تو دماغ لگا سکتے ہیں نہ کہ ایمس کے لئے منتخب کیے جانے والے باصلاحیت طالب علم کس کا منھ دیکھکر ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ بنا ٹیچر کے کیسے ڈاکٹر بن رہے ہوںگے؟
نیشنل ہیلتھ پروفائل کے مطابق دہلی میں ہسپتال میں بھرتی ہونے کا خرچ دوسری جگہوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یہاں بھرتی ہونے کا اوسط خرچ 7 ہزار سے کچھ زیادہ ہے جبکہ آسام میں ایک بار ہسپتال میں گئے تو 52 ہزار سے زیادہ خرچ ہوگا۔ وزیر اعظم جہاں یوگ کرنے گئے ہیں اس اتراکھنڈ میں بھی بھرتی ہونے کا خرچ آسام کی طرح ہے۔ دیہرادون سے لوٹتے ہوئے وزیر اعظم کو آس پاس کے کلکٹروں سے ان احکام کی فائل منگا لینی چاہیے جو یوگ دیوس کے پروگرام کے لئے آدمی لانے کے لئے دئے گئے تھے۔ کئی ہفتوں سے یہ تیاری چل رہی تھی۔ پورا انتظامیہ اس میں مصروف رہا کہ اتنے آدمی لانے ہیں۔
نوڈل افسر کی تقرری کی گئی تھے اور پانچ-پانچ سو آدمی لانے کا کام دیا گیا تھا۔ ایک بار وزیر اعظم ان احکام کی کاپی پڑھیںگے تو پتا چلےگا کہ ان کا سسٹم کتنا بیمار ہے اور دکھ کی بات ہے کہ یوگ کے لئے بھی بیمار ہو رہا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں صحت اور تعلیم کے سوال معنی نہیں رکھتے۔ ایسے بےپرواہ ووٹرون کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر کسی کی حکومت بن چکی ہے اور کوئی اصلاح نہیں ہے۔
پھر بھی یہاں لکھ رہا ہوں تاکہ انھیں ایک اور بار کے لئے بتایا جا سکے کہ اب صحت نظام کی ناکامی کو چھپانے کے لئے حکومت بیمہ کا پروپیگنڈہ کرےگی۔ آپ کو پانچ لاکھ کے بیمہ کا کارڈ دےگی۔ آپ کارڈ رکھیےگا۔ ڈاکٹر تو ہے نہیں، بیمہ کا کارڈ ڈاکٹر نہیں ہے یہ بھی یاد رکھیےگا۔ چھتیس گڑھ میں 12 لاکھ سے زیادہ کسانوں نے 18-2017میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت خریف فصلوں کا بیمہ کرایا۔ سوکھے اور کم بارش کی وجہ سے ڈھائی لاکھ کسانوں کی فصل برباد ہو گئی۔
بیمہ کمپنیوں نے ابھی تک ان کے دعویٰ کا حل نہیں کیا ہے۔ 400 کروڑ باقی ہیں۔ وہاں کی حکومت بیمہ کمپنیوں کو لکھ رہی ہے کہ جلدی ادائیگی کریں تاکہ کسانوں کو راحت پہنچے۔ بیمہ کمپنیوں نے 31 مارچ کی ڈیڈلائن بھی دی تھی مگر 7 مئی کو جب بزنس اسٹینڈرڈ نے یہ خبر لگائی تب تک کچھ نہیں ہوا تھا۔ فصل بیمہ پر نظر رکھنے والے جانکاروں کے آپ مضمون پڑھ سکتے ہیں، یہ بھی فیل ہے اور کسانوں سے پریمیم وصولکر کمپنیاں کروڑوں کما رہی ہیں۔ ہاں ایک نظریہ بنتا ہے اور وہ بنا بھی ہے کہ بہت کام ہو رہا ہے۔
اشوک گلاٹی اور سراج حسین نے 14 مئی کے انڈین ایکسپریس میں لکھاہے۔ اشوک گلاٹی زرعی معیشت پر لگاتار لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اعداد و شمار کے سہارے لکھا ہے کہ بیمہ یوجنا سے امید تھی کہ دعووں کا حل جلدی ہوگا مگر نہیں ہوا۔ تو کیا بیمہ کمپنیوں کو نریندر مودی کا ڈر نہیں ہے یا پھر دوستانہ تعلقات ہو گئے ہیں؟ آخر بیمہ کمپنیوں کو یہ ہمت کہاں سے آ رہی ہے؟ کیا آپ کو اتنا بھی کھیل سمجھ نہیں آتا ہے؟
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر