اگر 1977 ہندوستان کی پہلی غیرکانگریسی حکومت کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ہندوستانی سیاست کا ایک بڑا پڑاؤ ہے تو 1978 کو اندرا گاندھی کو اس قوت ارادی اورسوچ کی وجہ سے یاد رکھا جانا چاہیے، جس کی بنا پر انہوں نے اپنی واپسی کی عبارت لکھی۔
حال ہی میں ختم ہوئے کرناٹک انتخاب کے دوران 40 سال پہلے، 1978 میں چکمنگلور لوک سبھا ضمنی انتخاب کی یادیں لوگوں کے دل میں تیر گئیں۔ ایک انجان سے لوک سبھا حلقہ چکمنگلور نے اس وقت قومی اہمیت حاصل کر لیا، جب اندرا گاندھی نے اپنی سیاسی واپسی کی مہم کے تحت وہاں سے ضمنی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔یہ ظاہر تھا کہ وہاں سے رکن پارلیامان ڈی بی چندر گوڑا نے ایک طےشدہ حکمت عملی کے تحت سیٹ کو خالی کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ لوک سبھا حلقہ کبھی بھی عام نہیں رہا ہے۔
یہ سیٹ ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات کی گواہ بن گئی، کیونکہ انہی گوڑا نے آخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں پناہ لی اور 2009 میں لوک سبھا کے ممبر بنے۔ حالانکہ، ان کو 2014 میں درکنار کرتے ہوئے یہ سیٹ 2014 میں سدانند گوڑا کو دے دی گئی۔ لیکن،یہ ایک دوسری کہانی ہے۔’ ایک شیرنی، سو لنگور ؛ چکمنگلور، چکمنگلور ‘یہ نعرہ غیر مہذب ہونے کے باوجود اپنے واضح سیاسی پیغام کی وجہ سے آج بھی ایک سدا بہار نعرہ بنا ہوا ہے۔ اس نعرے کا استعمال اندرا گاندھی نے اتحاد کے خیال کو تباہ کرنے کے لئے کیا تھا۔
ہندوستان میں اس وقت اتحاد کا خیال نیانیا تھا اور اس سے سیاسی عدم استحکام کی یادیں تازہ ہوتی تھیں، کیونکہ 1967 کے بعد کئی ریاستوں میں قائم مشترکہ مقننہ جماعت کی حکومتوں کی عمر زیادہ نہیں رہیں، کیونکہ جلد ہی دوست بنے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں کھینچ لیں، جس سے عارضی سیاسی انتشار کی حالت پیدا ہوئی اور وقت سے پہلے انتخاب کروانے پڑے۔اندرونی جھگڑوں سے جوجھتی پارٹی کے سو لنگوروں کے برعکس ایک مرکزی پارٹی کی اکیلی ‘شیرنی ‘ کی اس تصویر نے آخرکار اندرا گاندھی کے لئے 1980 میں جیت دلانے والے نعرے کی شکل لے لی :’چنیے انہیں جوسرکارچلا سکتے ہیں۔ ‘
جیسےجیسے آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعے انتخاب سے پہلے اتحاد تیار کرنے کے امکان کو لےکرہلچل تیز ہو رہی ہے، ایک بار پھر انتخابی تشہیر کا وہی پرانا فارمولا واپس لوٹ آیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بار کانگریس اور جنتا پارٹی کے ایک حصہ نے کرداروں کی ادلابدلی کر لی ہے۔یہ دیکھکر کہ کم سے کم کچھ ریاستوں میں حزب مخالف پارٹیاں آپسی اختلافات کو بھلاکر ہاتھ ملانے کو تیار ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے یکجہتی کی کوششوں پر زبانی حملہ تیز کر دیا ہے۔
ان کی دلیل اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ہے اور اس تضاد کو نشان زد کرتے ہیں کہ نہرو گاندھی فیملی کا موقع بے موقع تنقید کرنے کے باوجود مودی نے جواہرلال نہرو اور اندرا سے سیکھنے میں گریز نہیں کیا ہے۔مودی کی دلیل عوامی رہنماؤں کے خلاف اندرا گاندھی کی مہم کو دوہرانے والی ہے :ایک مضبوط رہنما والی ایک پارٹی کسی بھی دن ملک کے لئے بہتر ہے۔لیکن، اندرا گاندھی کی واپسی صرف ایک نعرے کے دم پر نہیں ہوئی تھی۔ اس میں ان عوامی رہنماؤں نے بھی کافی مدد پہنچائی تھی جنہوں نے صرف حکومت میں کوئی اچھا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ انہوں نے آپس میں لڑائی بھی کر لی۔ اسی طرح سے اندرا گاندھی کی واپسی کا تعلق صرف چکمنگلور سے ملی جیت سے نہیں تھا۔
اصل میں، ان کے انتخابات کے ایک عشرےکے اندر گاندھی کو سال بھر پہلے بیٹے سنجے گاندھی کے ذریعے چلائی جانے والی ایک آٹوموبائل کمپنی کے کام کاج کے بارے میں ایک پارلیامانی تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے خصوصی اختیارات کی پامالی اور ایوان کی ہتک کا قصوروار قرار دیا گیا تھا۔کچھ دنوں کے بعد، ان کی لوک سبھا کی رکنیت ان سے چھین لی گئی اور ان کو ایک چھوٹی سی مدت کے لئے جیل بھیج دیا گیا، جو غالباً سب سے فائدےمند ثابت ہونے والی جیل کی سزا میں سے ایک ہے۔
اصل میں اندرا گاندھی کی واپسی کی کہانی میں چکمنگلور بس ایک باب تھا۔ سچائی یہ ہے کہ اگر 1977 کا سال کانگریس کی ہار اور ہندوستان کی پہلی غیرکانگریسی حکومت کی اقتدار میں آنے کی وجہ سے ہندوستانی سیاست کا ایک بڑا پڑاؤ ہے، تو 1978 کو اندرا گاندھی کی اس سوچ کی وجہ سے یاد رکھا جانا چاہیے، جس کی بنا پر انہوں نے اپنی واپسی کی عبارت لکھی۔اقتدار میں واپسی کی اسکیم کو بہت کم وقت میں انجام دیا گیا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا مقابلہ ایک معاندانہ حکومت سے تھا جن میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہتے تھے، جیسا ان کی حکومت نے ان کے ساتھ کیا تھا۔خاص کر جون، 1975 کی وہ نصف شب ان کو بھولی نہیں تھی، جب ملک میں پہلی بار اندرونی ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔
اس کو المیہ ہی کہا جائےگا کہ اندرا گاندھی کی واپسی میں چنگاری کا کام عوامی رہنماؤں کے ذریعے اٹھائے گئے قدموں نے نہیں کیا، بلکہ کبھی پارٹی کے وفا دار رہے وائی بی چوہان اور برہمانند ریڈی نے کیا، وہ یہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے کہ اندرا اب ایک سیاسی بوجھ اور کھوئی ہوئی طاقت بن گئی ہیں۔ان دونوں نے اندرا گاندھی کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے ان کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن گاندھی نے پلٹ وار کرتے ہوئے 1978 کی شروعات میں پارٹی کی تقسیم کر دی اور ایک حصے کے ساتھ الگ ہوکر اپنے نام والی نئی کانگریس-کانگریس (آئی) بنا لی۔
ایک مہینے کے اندر، فروری، 1978 میں، انہوں نے اپنی انتخابی واپسی کی بساط بچھانی شروع کر دی۔ اور یہ کام انہوں نے کرناٹک میں پانچواں اسمبلی انتخاب سے شروع کیا۔اس انتخاب میں کانگریس (آئی) کو 44.25 ووٹ فیصد کے ساتھ 149 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی، جبکہ ‘ اصلی ‘ کانگریس کو 7.99 فیصد ووٹ کے ساتھ صرف دو سیٹوں سے اطمینان کرنا پڑا۔حالانکہ، جنتا پارٹی کو صرف 59 سیٹیں ملیں، لیکن اس نے 39.89 فیصد ووٹ فیصد کے ساتھ کانگریس آئی کو زبردست ٹکر دی۔ سیٹ در سیٹ تجزیہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ کانگریس آئی ریاست میں بڑی جیت درج کر پانے میں اس لئے کامیاب ہوئی، کیونکہ یہ پارٹی ریاست کی سیاست کے مرکز میں تھی اور کانگریس مخالف ووٹ جنتا پارٹی اور ریڈی کی قیادت والی کانگریس کے درمیان بٹ گئے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ انتخابی عددی ریاضی کے کھیل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے-سب سے بڑی پارٹی اپنی بڑھت کو ووٹ کے بٹوارے کے سہارے متعین کرتی ہے اور اپنے خلاف جانے والے ووٹ کو یکجا ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اور اس لئے حزب مخالف کو توڑنے اور اتحاد کو تنقید سے تباہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔اندرا گاندھی کی واپسی کی بساط اصل میں مارچ، 1977 میں ان کی ہارکے کچھ مہینے کے بعد ہی بچھائی جانے لگی تھی۔ پٹنہ اور نالندہ کے ایک علاقے میں تب تک نامعلوم گاؤں میں آٹھ دلتوں سمیت،11 لوگوں کا قتل مبینہ طور پر کرمیوں کی قیادت کرنے والے ایک گرو پ کے ہاتھوں کر دیا گیا تھا۔
ٹیلی ویژن کے آنے سے کافی پہلے، اندرا گاندھی اپنا الگ ہی سوانگ رچتے ہوئے گاؤں میں ایک ہاتھی پر سوار ہوکر پہنچیں۔ اس واقعہ کی تصویروں نے ہندوستانیوں کو لمبے وقت تک مسحور کرکے رکھا۔کس طرح سے وہاں موجود لوگ ‘ آدھی روٹی کھائیںگے، اندرا کو بلائیںگے ‘ اور ‘ اندرا تیرے ابھاو میں ہریجن مارے جاتے ہیں۔ ‘ کے نعرے لگا رہے تھے، یہ قصہ لوک کنٹھ کا حصہ بن گیا۔اندرا نے ایک بار پھر ان لوگوں کے دلوں کے اندر جگہ بنا لی تھی، جنہوں نے مشکل سے چھے مہینے پہلے ان کی پارٹی کو خارج کیا تھا۔ اس کے بعد بس سیاسی اداروں پراختیارات قائم کرنا اور اپنی سیاسی عظمت کو حاصل کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔
اس سمت میں پہلا قدم جنوری، 1978 کی ایک سہاونی دوپہر کو اٹھایا گیا۔ پارلیامنٹ سے چند قدموں کی دوری پر ماولنکر ہال کے باہر کا لان اس کا گواہ بنا۔پارٹی کو دوحصہ کرکے صرف 54 لوک سبھا ممبروں کے ساتھ انہوں نے اندرا کانگریس قائم کیا۔ تقریباً 100 دیگر کو ان کی صلاحیت پر شک تھا، لیکن ان کو آگے چلکر اپنے فیصلے پرافسوس ہوا ہوگا۔سال کے باقی بچے ہوئے مہینے پارٹی کو کھڑا کرنے میں خرچ کئے گئے، جس میں پارٹی کو ایک شکل اور کردار فراہم کیا۔ اسی وقت پارٹی نے ہاتھ کا انتخابی نشان اختیار کیا۔
تقریباً 4 دہائی پہلے، اندرا گاندھی نے جس مضبوط قوت ارادی کا ثبوت پیش کیا، وہ اپنی پارٹی اور اپنی پارٹی کی واپسی کی کوشش کر رہے ہر رہنما کے لئے ایک بڑی نصیحت ہے۔ان کی ہوشیاری، گہری سوجھ بوجھ اور عوام کو پرجوش کرنے کی صلاحیت، شکست کا منھ دیکھنے کے تین سال کے اندر اقتدار میں واپسی کی اہم وجہ بنیں۔ لیکن، اس سے بھی زیادہ یہ بغیر تھکے مسلسل کام کرنے کی ان کی زبردست صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوا۔جبکہ ہندوستان پر ایک بار پھر انتخاب کا بخار چڑھ رہا ہے، 1978 کی واپسی کی کہانی سے اقتدار والے اور ان کو چیلنج دینے والے، دونوں نصیحت لے سکتے ہیں۔ کئی معنوں میں جنتا پارٹی کی خودکشی نے اندرا کی راہ کو آسان بنایا تھا۔فی الحال ایسا کچھ ہونے کا امکان رتی بھر بھی نہیں ہے، لیکن یہ طے ہے کہ آئندہ سال ہندوستان اب تک کے شاید سب سے زبردست انتخابی اور سیاسی لڑائی کا گواہ بننے والا ہے۔
(مضمون نگارمصنف اور صحافی ہیں۔وہ نریندرمودی :دی مین، دی ٹائمس اور سکھس:دی انٹولڈ اگونی آف 1984،کے مصنف ہیں)
Categories: فکر و نظر