مسلمان خواتین کا مدعا صرف طلاق، حلالہ، کثرت ازدواج یا شرعی عدالت قطعی نہیں ہے۔ ان کو بھی آگے بڑھنے کے لئے پڑھائی اور روزگار کی ضرورت ہے۔ گھر کے اندر اور باہر تشدد سے آزاد ماحول کی ضرورت ہے۔
مسلمان پن- یہ کیا ہوتا ہے؟ کیا ہندوپن ہوتا ہے؟ کیا اس دھرتی پر رہنے والے سبھی ہندو ایک جیسے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو مسلمان پن کی تلاش واقعی ضروری ہے؟
کہانی بنی گئی ہے کہ دنیا کی ہر مصیبت کی جڑ میں مسلمان ہیں۔ ان کی نشاندہی ہو سکے اس لئے افریقہ سے لےکر چین تک ان کو ایک خاص پہچان میں سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس، ملک بھرکے ہندو نہ دکھتے ایک جیسے ہیں، نہ کھاتے ایک جیسے ہیں اور نہ پہنتے ایک جیسے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی دنیا بھرکے مسلمان نہ ایک جیسے دیکھنے میں ہیں نہ پہننے میں۔ نہ کھانے میں اور بولی- بانی میں بھی نہیں۔
نام سے بھی جدا جدا ہے۔ مگر کیا ہم اس کو اپنی نظر سے دیکھنے کو تیار ہیں؟ یا اپنی آنکھ بند کرکے دوسروں کی نظر سے دیکھیںگے؟ مسلمان نہ جانے کب سے اس ملک میں افواہ کی طرح بنائے جا رہے ہیں۔ افواہ کی پڑیا سالوں سے کھلائی جا رہی ہے اور دماغ کی نفرتی نبضوں کو صحت مند بنایا جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کٹر ہوتے ہیں۔ کچھ ہوتے ہوںگے۔ مگر یہ کیسے ہو رہا ہے، گائے بچانے کے نام پر وہ مار دئے جا رہے ہیں؟ ٹوپی پہننے کی وجہ سے وہ جان گنوا رہے ہیں؟ کھانے کے نام پر ان کے ساتھ نفرت کی جا رہی ہے؟
ان کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ‘ ہم 5 اور ہمارے 25 ‘ پر یقین کرتے ہیں۔ مگر کیوں ہم سب تین چار بیویوں والے کسی مردانہ مسلمان پڑوسی کے بارے میں آج تک جان نہیں پائے؟ کسی نے آج تک اپارٹمنٹ میں رہنے والے کسی مسلمان پڑوسی کے 25 بچے گنے؟ کہتے ہیں، ان کا سالوں سے ‘ Appeasement ‘ ہوا۔ Appeasement، نہیں سمجھے؟ یعنی ان کو حکومتوں کی طرف سے سب سے زیادہ خوشی اور سہولیت ملتی ہے۔ ان کو داماد کی طرح اس ملک میں رکھا جاتا ہے… ہے نہ… ایسا ہی ہے کیا؟
پر سوال ہے اس کے باوجود وہ ‘ سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘ میں نچلے پائیدان پر کیوں ہیں؟ دراصل، وہ تو سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیشن، کنڈو کمیٹی کے دستاویزوں میں درج ‘ وکاس ‘ کی حقیقت ہیں ۔ ان کو بھوک لگتی ہے، اس لئے راشن اور مٹی کاتیل چاہیے ۔ تعلیم، روزگار اور چھت چاہیے ۔ سیکولر جمہوریت ہے تو ظاہر ہے، نمائندگی چاہیے ۔ ان کے پچھڑے محلوں کو اسکول، سڑک اور گھروں کو بجلی اور پانی چاہیے ۔
وہ ٹوپی والے ہیں۔ بنا ٹوپی والے ہیں۔ گول ٹوپی والے ہیں تو رام پوری والے بھی ہیں۔ ڈاڑھی والے ہیں تو بنا ڈاڑھی والے بھی ہیں۔ برقع والیاں ہیں تو لاتعداد بنا برقع والیاں ہیں۔ ان کو صرف ہرا رنگ ہی پسند نہیں ہے۔ وہ ست رنگی دنیا کے مرید ہیں۔ اور تو اور… مسلمان لڑکیوں کو صرف سلمی ستارہ سے سجا غرارہ شرارہ پسند نہیں ہے۔ وہ سلوار بھی پہنتی ہیں اور جینس بھی۔ ساڑی بھی پہنتی ہیں اور پتلون بھی۔ وہ صرف لکھنوی انداز میں آداب عرض کرتی کوئی بیگم / خاتون نہیں ہیں۔ وہ آنچل کو پرچم بناکر مورچہ سنبھالتی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والی محنت کش ہیں تو دنیا کے اسٹیج پر پرچم لہراتی دماغ بھی ہیں۔
اس لئے، مسلمان خواتین کا مدعا صرف طلاق، حلالہ، کثرت ازدواج یا شرعی عدالت قطعی نہیں ہے۔ ان کو بھی آگے بڑھنے کے لئے پڑھائی اور روزگار کی ضرورت ہے۔ گھر کے اندر اور باہر تشدد سے آزاد ماحول کی ضرورت ہے۔ یہی نہیں، یہ تو عید اور بقرعید میں کابلی چنا کے چھولے بھی کھاتے ہیں اور دہی بڑے بھی بناتے ہیں۔ وہ صرف گوشت گھانے والے نہیں ہیں۔ سبزی بھی کھاتے ہیں۔ کئی تو خالص ویشنو ہوٹل والے ہیں۔ ہینگ کی چھونککے مرید ہیں۔
ان میں بھی طرح طرح کے لوگ ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے دوسرے مذہب میں ہوتے ہیں۔ کچھ مذہبی ہیں تو کچھ صرف پیدائشی مسلمان۔ کچھ ثقافتی مسلمان ہیں تو ایسے بھی ہیں جو انسان کی خدمت کو ہی عبادت مانتے ہیں۔ ان کے لڑکے ہی محبت میں غیر مذہب میں شادیاں نہیں کرتے لڑکیاں بھی کرتی ہیں۔ اس لئے ان کی رشتےداریاں بھی دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں ہیں۔ وہ سب کے ساتھ ہیں، مگر ان کے ساتھ کون ہے، یہ سمجھنے کی کوشش میں وہ لگے رہتے ہیں۔ وہ صرف مدرسوں میں نہیں پڑھتے۔ وہ صرف مذہبی عالم نہیں ہیں۔
وہ مزدور ہیں۔ دستکار ہیں۔ فنکار ہیں۔ صحافی ہیں۔ قلمکار ہیں۔ شاعر ہیں۔ گلوکار ہیں۔ فوجی ہیں۔سول سروس میں ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر ہیں۔ سائنس داں ہیں۔ کھلاڑی ہیں۔ اور تو اور یہ سب مرد ہی نہیں ہیں۔ خاتون بھی ہیں…سوال ہے، وہ کیا کیا نہیں ہیں؟ ہاں، سچ ہے، ان جگہوں میں وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں۔ وہ غیربرابری کا چہرہ ہیں۔ ان میں کچھ بدمعاش بھی ہیں پر سوال تو یہ ہے، کہاں نہیں ہیں؟
لیکن… وہ ایک بڑا لیکن بنا دئے گئے ہیں۔ اس لئے پہلے افواہ بنائے گئے۔ صرف اور صرف مذہبی افواہ۔ ان کی ہر پہچان پر صرف ایک پہچان اوڑھا دی گئی مذہبی پہچان۔ اسی لئے سابق صدر جمہوریہ سائنس داں اے پی جے عبدالکلام بھی ‘ راشٹر وادی مسلمان ‘ ہی بنا دئے گئے۔ وہ مذہبی پہچان کو افواہ میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کو صرف اور صرف یاد رہتا ہے-کسی شخص کا مذہب۔ کیونکہ وہ بدل دینا چاہتے ہیں، ڈھیر ساری شناختوں کو ایک پہچاننے لائق آسان شناخت میں۔ یعنی مسلمان، ٹوپی، برقع، اٹنگا پاجامہ، ہرا، پاکستان، آئی ایس، طالبان، دہشت گرد…
و ہ تمام شناخت کو سمیٹکر ایک کر دینا چاہتے ہیں، کیونکہ، مذہب ان کی سیاست ہے۔ عقیدہ کچھ اور۔ اسی لئے وہ خاص مسلمان پن لادنا چاہتے ہیں اور اس انوکھے مسلمان پن کی کھوج کی بنیاد میں نفرت ہے۔ جھوٹ ہے۔ تشدد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈھیر ساری پہچان کے باوجود اس ملک کے ڈھیر سارے مسلمانوں پر محض ایک پہچان کا چوگا اوڑھا دیا گیا ہے۔ وہ چاہے نہ چاہے، ضرورت، بےضرورت وہ اس سماج میں محض مذہبی شناختی کارڈ ہوتے جا رہے ہیں۔
اسی لئے سیکولر اور جمہوری ہندوستان میں سب جگہ تو نہیں مگر ملک کے کئی حصوں میں وہ نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مگر باقی بھی تو ڈرے ہیں۔ محض اپنی خاص پہچان کی وجہ سے وہ کئی علاقوں میں ڈرکر رہتے ہیں۔ ڈرکر سفر کرتے ہیں۔ ڈر ڈر کر بولتے ہیں۔ بولتے ہیں، سوچتے ہیں۔ سوچتے ہیں، لکھا مٹاتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں۔ وہ صرف اپنی مذہبی شناختی کارڈ کی وجہ سے کئی علاقوں میں مارے جا رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر مسلمان خواتین کا جسم مذہبی جیت کا میدان بنا دیا جا رہا ہے۔ ان کو پرایا بتایا اور مانا جا رہا ہے۔ روٹی – بیٹی کے رشتے کو بننے نہیں دیا جا رہا ہے۔ جو بنے ہیں، ان کو توڑا جا رہا ہے۔
ہم بلبلیں ہیں اس کی…
نفرت۔ جھوٹ۔ تشدد۔
یہ سب ہمارے اردگرد ہو رہا ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ۔ کہیں کھلکر تو کہیں پردے میں۔ سڑک پر تو نیوز چینلوں کے اسٹوڈیو میں۔ آن لائن اور آف لائن۔
مگر وہ گا رہے ہیں…
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
ان میں سے زیادہ تر سترنگی گلستاں میں رہنا چاہتے ہیں مگر ان کو ایک رنگ میں بدلنے کی کوشش تیز سے اور تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا موحول بنایا جا رہا ہے جیسے پوری دنیا میں جو کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے ،اس کی وجہ ہندوستان کے مسلمان ہی ہیں۔ ان پر مذہب کے نام سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بے چین ہیں اور چھٹپٹاتے ہیں۔
اور تب وہ زور زور سے گانے لگتے ہیں،
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا…
وہ بانسری کے بجیا والے نظیر کا نام لیتے ہیں۔ اشفاق اللہ کی شہادت یاد کرتے ہیں۔ وہ ملک کے بٹوارے کے خلاف کھڑے علما کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ عظیم اللہ خان، شہنواز خان اور عبدل حمید کو یاد کرتے ہیں۔ کبیر، خسرو، رحیم، رس خان، جائسی کا نام بار بار دوہراتے ہیں۔ وہ انقلاب زندہ آباد والے حسرت موہانی کا نام لیتے ہیں۔ وہ ساوتری بائی کی دوست فاطمہ شیخ کی یاد دلاتے ہیں۔ خواتین کو اپنی بدتر حالت کا احساس دلانے والی رقیہ کا نام لیتے ہیں۔
وہ اس ملک کی ترقی پسند تحریک کی علمبردار رشید جہاں کا نام بتاتے ہیں۔ مگر یہ سب اب بہت کام نہیں آ رہا ہے۔ نفرت نے اپنا کام بڑی آبادی پر مضبوطی سے کر دیا ہے۔ اسی لئے وہ ایک خاص طبقے کے لئے ہمیشہ شک کے دائرے میں رہتے ہیں۔ شک، اب ایک خیال ہے۔ شک اور نفرت اب بڑا خیال ہے۔ شک، نفرت، جھوٹ دماغ پر قبضہ کرنے کا سب سے بڑا تشددآمیز خیال ہے۔ وہ اس تشدد آمیز قبضے میں یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ جٹے ہیں۔
اس خیال کو اب ٹکنالوجی کے پنکھ مل گئے ہیں۔ دلوں کے اندر جمع غبار بدترین صورت میں یہاں وہاں دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے ڈھیر سارے شناختی کارڈ کے ساتھ آسانی سے زندہ نہیں رہنے دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں، وہ ویسے ہی جیئں، جس پہچان میں وہ زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے آس پاس ہیں۔ ہمارے گھر کے اندر ہیں۔ ہمارے اندر ہیں۔ ہمارے دل ودماغ میں بھرے نفرتی خیال ہیں۔ کیا ہم پہچان پا رہے ہیں؟
جی، یہ تب تک چلتا رہےگا جب تک کہ نفرتی افواہ کی بنیاد ہلائی نہیں جائےگی۔ اس کے بنا کام نہیں چلنے والا۔ کتنی ہلےگی پتا نہیں پر کوشش کرنے میں حرج بھی نہیں ہے۔ یہ ملک کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ دھیان رہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ سبھی لوگ، نفرتی دماغ کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں۔ ابھی اس ملک میں بہت کچھ بچا ہے۔
تو سب سے بڑا سوال ہے- اگر نفرت مٹانے کے لئے، افواہ کی بنیاد کو ہلانا ضروری ہے تو یہ کیسے ہوگا؟ بات چیت سے۔ ملنےجلنے سے۔ مکالمہ سے۔ گھر کی چوکھٹ کے اندر جانے سے۔ ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے سے۔ ساتھ کھانے پینے سے۔ جی، مگر یہ یہیں ختم نہ ہو۔ یہ بھی شروع ہو اور جہاں شروع ہے، وہاں بند نہ ہو۔ اس لئے کچھ ادھر بھی ہیں تو ادھر بھی… جو بات کرنے کو بھی گناہ بتاتے ہیں۔ بات کرنے سے ڈراتے ہیں۔ وہ مکالمہ سے ڈراتے ہیں۔ وہ چوکھٹ کے اندر خوف کا گھر بتاتے ہیں۔ وہ کھانے کا مذہب بتاتے ہیں۔
تو آئیے، ہم سب بات کریں۔ بات سے بات بنےگی۔ سلجھےگی۔ ملنے سے دل ملیںگے۔ دل سے نفرت مٹےگی۔ محبت پنپےگی۔ بنا کسی بچولیے کے سیدھی بات ہو۔ یہی نہیں، بات سب سے ہو۔ صرف ان سے نہیں، جو ہم جیسے ہیں۔ ان سے بھی، جو ہم جیسے نہیں ہیں۔ اس دھرتی کے باشندے ہیں۔
کیوں؟کیونکہ بقول اقبال؛
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔
(یہ مضمون بی بی سی ہندی میں شائع ہواتھا یہاں ادارے کی اجازت اور شکریہ کے ساتھ اردو میں نقل کیا جارہا ہے۔)
Categories: فکر و نظر