اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات لگاتار بڑھ رہے ہیں، لیکن وہ شہری متوسط طبقہ، جو بد عنوانی کے مدعے پر سڑکوں پر اتر آیا تھا، وہ اس تشدد پر بے نیازتماشائی بنا ہوا ہے۔
نریندر مودی حکومت کے آنے کے بعد سے ان چار سالوں میں لنچنگ اس حکومت کی ایک خاص پہچان بن گئی ہے۔ جس طرح سے منموہن سنگھ کی یو پی اے-2 کی حکومت کے ساتھ ‘ گھوٹالہ ‘ لفظ چپک گیا تھا، لنچگ گزشتہ کچھ سالوں کی ‘ خاص خوبی ‘ کی طرح ابھرا ہے۔ اس لنچنگ میں صرف یہاں وہاں بھڑکی بھیڑ کا تشدد نہیں ہے جو اچانک سے ہوا اور پھر فوراً ختم گیا بلکہ لنچنگ کی یہ وارداتیں ملک کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں اور ریاستی حکومتیں یا تو ان معاملوں میں تماش بین بنی ہوئی ہیں یا کبھی کبھی لنچنگ کرنے والی بھیڑ کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے بھکت بےشک اس بات کی مخالفت کریںگے اور کہیںگے کہ منموہن سنگھ حکومت کے وزیر تو بد عنوانی کے معاملے میں پکڑے گئے تھے لیکن موجودہ بی جے پی حکومت کا کوئی وزیر کسی کا لنچنگ کرنے نہیں گیا۔ وہ 1984 کا حوالہ بھی دیںگے کہ سکھوں کو مارنے والی بھیڑ کی قیادت کانگریس کے رہنماؤں نے کی تھی۔
سکھوں کا قتل ایک گھناؤنا واقعہ تھا اور راجیو گاندھی کا بیان اصل میں بےحد خراب تھا لیکن کانگریس کے وزرا نے نہ تب اور نہ ہی اس کے بعد کبھی لنچنگ کے ملزمین کی حمایت کی اور نہ کبھی ایسا جتایا کہ متاثرین کے ساتھ جو ہوا اس کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ ماضی میں ہوئے کسی لنچنگ جیسے دلتوں کے خلاف، کو کبھی صحیح نہیں ٹھہرایا گیا۔ نہ بیانات کے ذریعے نہ کسی کے عمل کے ذریعے اس کا جشن ہی منایا گیا۔
اب بات کرتے ہیں حال میں ہوئے اس طرح کے واقعات پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ممبروں کے رد عمل کی۔ اخلاق خان کے بے رحم قتل سے پہلے بڑے معاملے سے اس کی شروعات کرتے ہیں۔ اخلاق خان کو مبینہ طور پر فرج میں گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں پیٹ پیٹکر مار دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں مبینہ مجرموں کو بار بار حکمراں جماعت کے منتخب نمائندوں اور سینئر ممبروں کی طرف سے کھلی حمایت ملتی رہی۔
مرکزی وزیر مہیش شرما اخلاق خان قتل معاملہ میں اہم ملزم کے گاؤں پہنچے تھے۔ اس کے بعد سے ہی وزیر، رکن پارلیامان اور ایم ایل اے کی فکر مجرموں کو سزا دلوانے کے بجائے متاثرین کے کسی قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں زیادہ ہونے لگی۔ بعد میں انہوں نے وہی رٹی- رٹائی بات شروع کی کہ تمام قسم کے تشدد خراب ہے، انصاف ضرور ہونا چاہیے، سبھی کے لئے قانون برابر ہے۔ اس کے فوراً بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ گئو کشی بند ہونی چاہیے ۔گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے رہنما اندریش کمار نے بھی ایسی ہی بات کو دوہرایا۔ متاثرین پر ہی الزام لگایا جانے لگا جو خاص طور پر مسلمان تھے۔
اپنی تمام اعلیٰ تعلیم اور ایک مشہور خاندانی شناختکے باوجود جینت سنہا ہمیشہ اس بدنماداغ کے ساتھ رہیںگے کہ انہوں نے ایک لنچنگ کے ملزم کی عزت افزائی کی ہے۔ انہوں نے بھلےہی اس کے لئے افسوس جتایا ہو، لیکن اس میں کیا کوئی شک ہے کہ وہ ہمیشہ اس حرکت کے لئے یاد کئے جاتے رہیںگے؟
جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کی بات ہے، انہوں نے گائے کی حفاظت کے نام پر قتل کرنے والوں کی تنقید تو کی ہے لیکن انہوں نے اپنے بیان میں یہ ایک مضبوط پیغام نہیں دیا کہ اس طرح کا اقلیتی مخالف تشدد برداشت نہیں کیا جائےگا۔ اس طرح کا رد عمل بس اوپری طور پر اچھا لگتا ہے۔ زیادہ تر وقت وہ اس پر رد عمل دینے سے بچتے رہے ہیں جس سے ایک پیغام گیا اور اس کو پارٹی کے وفادار وں نے بغیر وقت گنوائے بھانپ بھی لیا۔
میڈیا نے اپنی جھوٹی غیر جانبداری کی آڑ میں اس معاملہ میں کوئی مدد نہیں کی، جہاں وہ سبھی پارٹیوں کو مجرم مانکر ان کی تنقید کرتے دکھے۔ ٹی وی کی کوئی بھی بحث دیکھ لیجئے، اس میں پینل میں بیٹھے سب سے مشتعل مہمان کو ‘ غیر جانبدارانہ ‘ صحافی اور ماہر ،متوازن کرتے ہوئے نظر آئیںگے۔ اس بحث کا خاتمہ مدعے پر کسی طرح کی معنی خیز بات نہ ہوکر شور کے ساتھ ہوگا۔
کیا ایک بھیڑ کے ہاتھوں مارے گئے کسی بے بس آدمی کو لےکے دو طرح کے نقطہ نظر ہو سکتے ہیں؟ لنچنگ کیوں ہوئی ہے ، کیا اس کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شبہ ہو سکتا ہے؟ نفرت پھیلانے والوں کو منچ مہیا کرانا، جہاں وہ اپنے آپ کو چیخ چیخکر صحیح ثابت کریں، اس پیشے کے اصل اصول کہ سبھی کو اپنی بات رکھنے کا موقع ملنا چاہیے ، کا مذاق اڑانے جیسا ہے۔ اس سے لنچنگ جیسا گھناؤنے جرم بھی نارمل ہو جاتا ہے۔
اس نارمل ہونے کی سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان خوف ناک واقعات نے متوسط طبقہ کے لوگوں کو پریشان تک نہیں کیا۔ کم سے کم اتنا پریشان تو نہیں ہی کیا کہ وہ اپنی ناراضگی کھلکر ظاہر کریں۔ گزشتہ سال منعقد ‘ ناٹ ان مائی نیم ‘ مہم نے حالانکہ قابل تعریف شروعات کی لیکن مقامی سطح پر ہی سمٹکے رہ گئی۔
2011 میں انا ہزارے کے آندولن میں یہ متوسط طبقہ ہی تھا جو بڑی تعداد میں سڑکوں پر ان کی حمایت میں نکلا تھا جب وہ 2جی گھوٹالہ کے بعد پہلی بار لوک پال قانون کے لئے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ میڈیا کی پرجوش نان اسٹاپ کوریج اور وی کے سنگھ، انوپم کھیر، کرن بیدی جیسے بڑے ناموں کی موجودگی نے ان کی بھوک ہڑتال کو آندولن میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس نے شہری پڑھےلکھے لوگوں کو انسپائر کیا تھا۔
عوام کا یہ طبقہ ہمیشہ سڑے ہوئے انتظام کو اکھاڑ پھینکنے اور اس کے لئے جادو کی چھڑی لئے ایک مسیحا کے اوتار کے نظریہ کو پسند کرتا ہے۔ نریندر مودی نے ان کی اسی نبض کو پکڑتے ہوئے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان کے ‘ نہ کھاؤںگا، نہ کھانے دوںگا ‘ جیسے دعووں، کالا دھن واپس لانے اور ہرایک بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپے دینے جیسے وعدے ناقابل یقین لگتے لیکن عوام ان کو ایک موقع دینے کے لئے تیار تھے۔
فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات خاص کر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات نے ایسا لگتا ہے کہ اسی متوسط طبقہ کے لوگوں پر زیادہ اثر نہیں کیا جس طرح سے بد عنوانی کے الزامات نے کیا تھا۔ اس کو لےکر کوئی بھوک ہڑتال پر نہیں ہے، نہ کوئی مارچ نکالا گیا اور نہ ہی کہیں غصہ دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی جماعت بھی کھلکر ان لنچنگ کرنے والوں، حکومت اور سنگھ پریوار کے ان معاملوں پر رویے کے خلاف نہیں نکلے۔ شاید ان کو لگا کہ اس سے ان کو کوئی انتخابی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
ان خوف ناک واقعات کو لےکر سب سے بہترین کوریج غیر ملکی میڈیا میں دیکھنے کو ملا۔ غیر ملکی میڈیا کو پڑھنے، دیکھنے اور سننے والوں کے لئے ہندوستان اب ایک ایسی جگہ ہے جہاں مسلسل وقفے پر لنچنگ کی یہ واردات ہوتی رہتی ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں ان کا کوریج سیریل کے انداز میں کیا گیا ہے، جب تک کسی واقعہ کے بارے میں لکھا جائے، تب تک میڈیا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اصل میں ان واقعات کی سخت تنقید کہیں ہو رہی ہے تو وہ ہے سوشل میڈیا پر، جہاں عام لوگ جو کسی بڑے میڈیا ادارے تک پہنچ نہیں رکھتے، وہ بڑے حق پرست اور طنزیہ طریقے سے اس مسئلے پر اپنی رائے رکھ رہے ہیں۔
کوئی یقینی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ انتخاب میں ان سارے واقعات کا کیا کردار ہو گا۔ یو پی اے خاص کر کانگریس کو انتخاب میں گھوٹالے والی حکومت کی امیج کی وجہ سے کافی نقصان جھیلنا پڑا تھا۔دیہی ہندوستان میں اس کو لےکر لوگوں میں غصہ ہے لیکن کیا لنچنگ کے واقعات ‘ کس کو ووٹ دینا ہے ‘ جیسے فیصلے کو لےکر لوگوں کی رائے بدل پائے گی؟ بے شک ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو اس طرح کے تشدد کے بالکل خلاف نہ ہو۔
لیکن یہ صرف ووٹ اور انتخاب کی بات نہیں ہے، یہ قانون، انصاف اور انسانیت کا سوال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار انتخاب، ووٹر اور پرعزم ہندو مذہب کی نفسیات کو سمجھتے ہوں۔ وہ چکنی چپڑی بات کرنے والے شہری پیشہ وروں کو بھی سمجھتے ہوں۔ وہ سوچتے ہیں کہ انتخابی نتیجہ ان کے حق میں ہوگا اور شاید وہ صحیح بھی ہوں، لیکن اگر پارٹی قیادت کے اسی چہرے کے ساتھ یا بنا واپس آتی ہے تب بھی کافی وقت تک اس کی حکومت کو لنچنگ کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا رہےگا۔
Categories: فکر و نظر