کیا گاندھی،جی ڈی بڑلا کے کسی کھدائی پروجیکٹ کی وجہ سے لوگوں کو ہٹانے کے لئے سرکاری نظام کے ذریعےہو رہے تشدد کی حمایت کرتے؟ گاندھی-بڑلا کے رشتے کو کسی جوابی حملے کی طرح استعمال کرنے کے بجائے وزیر اعظم کو اس پر گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے سب متفق ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کسی سیاسی حریف کے ذریعے ان پر اٹھائے گئے کسی بھی مدعے کو اپنی طرح سے موڑنے میں ماہر ہیں۔ لیکن پھر بھی، اپنے بڑے کاروباریوں سے رشتوں کی، آزادی کی لڑائی کے دوران مہاتما گاندھی کی معززکاروباری جی ڈی بڑلا سے دوستی سے موازنہ کرنا ان کی بےحد گستاخ کوشش تھی۔اتوار کو لکھنؤ میں ہوئے ایک پروگرام میں جہاں گوتم اڈانی اور جی ڈی بڑلا کے پڑپوتے کے ایم بڑلا جیسے مشہور صنعت کاروں کے درمیان مودی نے کہا کہ حزب مخالف کے رہنماؤں کے ‘ چھپے ہوئے ‘ رشتوں کے برعکس ان کے کاروباریوں سے کھلے اور شفاف رشتے ہیں۔ایسا بولتے ہوئے مودی نے سامعین میں بیٹھے سابق سماج واد ی پارٹی رہنما امر سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ‘امر سنگھ سے پوچھیے، وہ آپ کو کاروباریوں اور سیاستدانوں کی ڈیل کے بارے میں بتائیںگے۔ ‘وزیر اعظم کے نام لینے پر امر سنگھ مسکراتے رہے۔
یہ المیہ ہی ہے کہ امر سنگھ اپنے فعال دنوں میں’ڈیل میکر’کے طور پر مشہور رہے ہیں اور انل دھیروبھائی امبانی گروپ کے چیئر مین انل امبانی کے قریبی کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔انل امبانی اس وقت رافیل تنازعہ کو لےکر سرخیوں میں ہیں۔ حزب مخالف اور میڈیا رافیل سے جڑے کئی سوالوں کے جواب مانگ رہے ہیں اور کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مودی حکومت پوری شفافیت سے اس معاہدے کے بارے میں نہیں بتا رہی ہے۔اصل میں تو مودی کے ذریعے کاروباریوں سے ‘ کھلے اور شفاف ‘ رشتے والی بات یقیناً راہل گاندھی کے ان پر کئے سیدھے حملے کے جواب میں کہی گئی۔ راہل نے مارچ 2015 میں مودی کے فرانس دورے پر ان کے ذریعے رافیل معاہدے پر دوبارہ کی گئی بات چیت پر سوال اٹھائے تھے۔
راہل نے پہلا حملہ لوک سبھا میں عدم اعتماد تجویز کے دوران ہوئی تقریر میں کیا تھا، اس کے بعد انہوں نے کئی بیان دئے، ٹوئٹ کئے، جن میں اشارہ کیا گیا تھا کہ مودی کے انل امبانی سے قریبی رشتے کے سبب ہی پبلک سیکٹر کی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو رافیل معاہدے سے ہٹایا گیا۔لکھنؤ میں دیا گیا مودی کا تیکھا رد عمل کی وجہ یہ بھی ہے کہ رافیل معاہدے کو لےکر دوبارہ ہوئی ڈیل کے لئے پہلی بار وزیر اعظم کو شخصی طور پر ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ حالانکہ اب بھی اس ڈیل میں کئی کمزوریاں ہیں اور اس کو لےکر کئی سوالوں کے جواب دئے جانے باقی ہیں۔
مثلاً، انل امبانی گروپ نے رسمی طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ ان کو 30000 کروڑ روپے کے آفسیٹ کنٹریکٹ ملے ہیں، جن کے لئے ناگپور میں آفسیٹ مینیوفیکچرنگ کا کام شروع ہو چکا ہے، لیکن وزارت دفاع کے پاس صاف طور پر اس آفسیٹ مینیوفیکچرنگ کی اجازت اور شیڈیول کا کوئی سرکاری رکارڈ / دستاویز نہیں ہے۔وزیر دفاع نرملا سیتارمن کے ذریعے اس بارے میں آخری بیان فروری 2018 میں دیا گیا تھا، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ ‘ رافیل معاہدے پر آفسیٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ ‘
یعنی 36 رافیل فائٹر جیٹ خریدنے کے بعد ‘ میک ان انڈیا ‘کے تحت ملے ملک کے پہلے سب سے بڑے گھریلو آفسیٹ مینیوفیکچرنگ کے موقع کو لےکر پوری طرح شفافیت کی کمی ہے۔اس بات کو لےکر بھی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ایئرکرافٹ کی قیمت کو لےکر رازداری کے اصول (سیکریسی کلاز) پر عمل ہوا ہے کہ نہیں، کیونکہ ریلائنس ڈیفینس کے ذریعے گزشتہ سال خودہی اس معاہدے کی قیمت کیارسمی اعلان کیاجا چکا ہے۔یہ تو بالکل صاف ہے کہ رافیل معاہدے میں اس طرح کی ایمانداری اور شفافیت تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ مہاتما گاندھی اور جی ڈی بڑلا کے رشتے میں تھی۔ دراصل ہم جارحانہ سرمایہ دار کے ایسے وقت میں رہ رہے ہیں، جہاں سیاست اور ریگولیٹری میں ٹھگ اور غیر شفافیت سے متاثر غیر مساوی جانکاریاں پھیلی ہوئی ہیں۔
مثال کے طور پر، کیا گاندھی ایسے سیاسی فنڈنگ کی حمایت کرتے، جہاں بڑے کاروباریوں بشمول چندہ دینے والوں کا نام چھپاکر گمنام انتخابی بانڈ جاری کئے جاتے؟ قانونی ادارہ جاتی انتظام میں غیرشفافیت لائی جا رہی ہے۔کیا گاندھی جی ڈی بڑلا کے کسی کھدائی پروجیکٹ کے لئے لوگوں کو ہٹانے کے لئے سرکاری نظام کے ذریعے ہو رہے تشدد کی حمایت کرتے؟ اس بات کو کسی جوابی حملے کی طرح استعمال کرنے کے بجائے وزیر اعظم کو اس پر گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
گاندھی ایسی سیاست کی بات کرتے تھے، جہاں بنا کسی ڈر یا طرفداری کے سچ بولا جائے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم اور صنعت کاروں کے درمیان ہوئی ایک ذاتی بات چیت میں وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ وہ کھلکر بتائیں کہ وہ ملک میں بزنس کے ماحول کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس پر کوئی کچھ نہیں بولا۔تب وزیر اعظم نے ایک مشہور صنعت کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کو بولنے کو کہا۔ اس پر وہ بولے کہ ان کے پاس بولنے کو بہت کچھ ہے، لیکن ماحول میں پھیلے ڈرکی وجہ سے وہ کچھ نہیں کہیںگے۔ دراصل یہی سچ ہے۔ وزیر اعظم جی، جی ڈی بڑلا گاندھی کو اس طرح جواب نہیں دیتے۔
Categories: فکر و نظر