اپنی پارٹی، اپنا سیاسی نظریہ، اپنے نظریات اور اپنے تعصبات کے موتیابند سے باہر نکلکر دیکھیے کہ آپ مستقبل میں کس طرح کی جمہوریت کی زمین تیار کر رہے ہیں؟
اے بی پی نیوز میں جو کچھ ہو گیا، وہ بھیانک ہے۔ اور اس سے بھی بھیا نک ہے وہ چپی جو فیس بک اور ٹوئٹر پر چھائی ہوئی ہے۔ بھیانک ہے وہ چپی جو میڈیا اداروں میں چھائی ہوئی ہے۔میڈیا کی ناک میں نکیل ڈالے جانے کا جو سلسلہ پچھلے کچھ سالوں سے منصوبہ بندطورپر چلتا آ رہا ہے، یہ اس کی ایک مثال ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ تو دہلی میں اقتدار کی تبدیلی ہوتے ہی اپنے اس ‘ ہڈین ایجنڈا’پر اتر آیا تھا، جس کو وہ سالوں سے اندر دبائے رکھے تھے۔
یہ ٹھیک ویسے ہی ہوا، جیسے کہ 2014 کے اقتدار میں آنےکے فوراً بعد گوڈسے، ‘ گھرواپسی ‘، ‘ لو جہاد ‘، ‘ گئورکشا ‘ اور ایسے ہی تمام مقاصد والے گروہ اپنے اپنے ڈربوں سے کھلکر نکل آئے تھے اور جنہوں نے ملک میں ایسی زہریلی ہوا پھیلا دی ہے، جو دنیا کی کسی بھی آلودگی سے، چیرنوبل جیسی آلودگی سے بھی بھیانک ہے۔ نفرت اور فیک نیوز کی جو صحافت میڈیا کے اس طبقے نے کی، ویسا کچھ میں نے اپنے صحافتی زندگی کے 46 سالوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ 92-1990 کے درمیان بھی نہیں، جب رام جنم بھومی تحریک اپنی انتہا پر تھی۔
میڈیا کا دوسرا بہت بڑا طبقہ اچھے سے گودی میں سرک گیا اور غلام بن گیا۔ جیسا کہ اس نے 1975 میں ایمرجنسی کے بعد کیا تھا۔ اتناہی نہیں، اس بار تو وہ اس حد تک نالے میں جا گرا کہ پیسے کمانے کے لئے وہ کسی بھی طرح کی فرقہ وارانہ مہم میں شامل ہونے کو تیار نظرآیا۔ کوبراپوسٹ کےا سٹنگ نے اس گندی سچائی کو کھولکر رکھ دیا۔ لیکن یہ بھیانک چپی تب بھی چھائی رہی۔ سوشل میڈیا میں بھی، صحافیوں اور میڈیا اداروں میں بھی اور عوام میں بھی۔
اسی لئے حیرانی نہیں ہوتی یہ دیکھکر کہ ایک معمولی سی خبر کو لےکر اے بی پی نیوز کے مدیر ملند کھانڈیکر سے استعفیٰ لے لیا جائے اور ابھیسار شرما کو چھٹی پر بھیج دیا جائے۔ ابھی خبر ملی کہ پونیہ پرسون واجپئی بھی ہٹا دئے گئے۔ ان کے شو ‘ ماسٹراسٹروک ‘ کو پچھلے کچھ دنوں سے پراسرار طریقے سے مسدود کیا جا رہا تھا۔
ان سب واقعات پر چند گنے چنے صحافیوں کو چھوڑکر زیادہ تر نے اپنے منھ سی رکھے ہیں۔ ایسا ڈرا ہوا میڈیا میں ایمرجنسی کے بعد پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور براڈکاسٹ ایڈیٹرس ایسوسی ایشن خاموش ہیں۔ اور اس سب سے بھی بھیانک یہ کہ ملک اس سب پر خاموش ہے۔ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بہت لوگ اپنی ذاتی نظریاتی وابستگی کی وجہ سے ان سب پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہوں۔ لیکن کیا آج جو ہو رہا ہے، وہ مستقبل کی حکومتوں کو اس سے بھی آگے بڑھکر میڈیا کو پالتو بنانے کا راستہ نہیں تیار کرےگا؟
اپنی پارٹی، اپنا سیاسی نظریہ، اپنے نظریات اور اپنے تعصبات کے موتیابند سے باہر نکلکر دیکھیے کہ آپ مستقبل میں کس طرح کی جمہوریت کی زمین تیار کر رہے ہیں؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور یہ مضمون ان کے فیس بک پیج کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے)
Categories: فکر و نظر