مذہب کا ایک مطلب ہے اپنے اندر جھانککر بہتر انسان بننے کی کوشش کرنا اور دوسری صورت عقیدہ کی صارفیت میں دکھتی ہے۔ عقیدہ کی اسی شکل کی خرابی کانوڑیوں کے تشدد کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
ساون کے مہینے میں کانوڑ لےکر جانے کا رواج پرانا ہے۔ ہری دوار اور گنگوتری کی طرف لوگ جاتے ہیں۔ چھوٹی سطح پر بھی یہ روایت کافی مروج ہے۔ بہاراور جھارکھنڈ میں لوگ ‘ بابا دھام ‘ جاتے ہیں۔ ننگے پاؤں چلکر، گنگا ندی سے پانی اٹھاکر، گروپ میں بول بم بول بم کا نعرہ لگاکر، دیوگھر کے مشہور شیولنگ پر پانی چڑھاتے ہیں۔ پاؤں میں چھالا پڑ جائے تو نیکی کی حصولیابی اور سفر کا وقار تھوڑا بڑھ جاتا ہے۔
ویسے، کانوڑیوں کی جو تصویریں آج کل سامنے آ رہی ہیں وہ تھوڑی انوکھی ہیں۔ بھکتی کی سادگی اور سفر کی نیکی کے معنی بدل گئے ہیں۔ پاؤں میں جوتے ہیں اور آنکھوں پر چشمہ لگ گیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں کوئی غلط بات نہیں ہے ویسے۔ گلوبل وارمنگ کا زمانہ ہے۔ دھوپ اور گرمی ہے اور خود کی حفاظت ضروری ہے۔
مذہبی عقیدہ اور تہوار کی شکل وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے، لیکن ہاتھوں میں بیسبال کے بیٹ بھی خود کی حفاظت کے لئے ہے یا دوسروں کی دھلائی کے لئے، یہ غور طلب ہے۔ایک طرف پورے مہینے میٹ، مرغا تو چھوڑ دیجئے، پیاز اور لہسن تک لوگ نہیں کھاتے ہیں، اور دوسری طرف شعلوں ے بھری آگ سڑکوں پر نکلکر سامنے آ رہی ہے۔ یہ تشدد غصہ ‘ تامسک ‘ کھانے کی وجہ سے تو بالکل بھی نہیں ہے۔
ظاہری طور پر یہ تشدد اور ہنگامہ قانون اور اس کی حفاظت پر سوال کھڑا کر دیتے ہیں۔سپریم کورٹ نے اسی حوالے سے کہا ہے کہ کانوڑیوں کے ذریعے مچائے گئے ہنگامے اور جائیداد کے نقصان پر سخت قدم اٹھایا جانا چاہیے۔ عوامی جگہوں پر ‘ قانون کا راج ‘ بےشک ضروری ہے۔ لیکن تیرتھ یاترا کے بدلتے سماجی معنی پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔
ضروری نہیں ہے کہ روزانہ آ رہے کانوڑ یوں کے تشددکی خبر کو مذہب کے گیروا رنگکے چشمے سے ہی دیکھا جائے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں کچھ لوگ ایسا کریں، یہ بالکل ممکن ہے۔کچھ لوگ یہ سوال داغ ہی سکتے ہیں کہ اگر یہ دنگا فساد ہرے رنگ والے عازمین حج کرتے تو حکومتیں، انتظامیہ اور کالے کوٹ والے پرائم ٹائم اینکر کیا کہتے اور کیا کرتے۔ کیا ان پر پھر بھی پھول برسائے جاتے۔
جس رفتار سے میڈیا کے مانیٹرنگ کی خبریں آ رہی ہیں، جو صرف ایک انسان اور ایک نظریہ کی مارکیٹنگ کا ذریعہ بنکر سمٹ رہی ہیں، کچھ گرما گرمی کی باتیں تو ضرور اٹھتیں۔ کچھ ہو نہ ہو، کچھ ایک آدھ دفعہ پابندی لفظ ضرور سنائی دیتا۔کانوڑ کا رواج کتنا پرانا ہے، یہ طے کر پانے کے لئے تو اس موضوع پر ریسرچ کرنا ہوگا۔ بہت ممکن ہے پہلے اس کا رواج مقامی رہا ہو۔
کچھ رپورٹس بتلاتے ہیں کہ 1980 کی دہائی سے یہ وسیع پیمانے پر ہونے لگا۔ بات شاید ٹھیک ہی ہو۔ یہی وہ دہائی ہے جب ویشنو دیوی کی بھی زیارت بڑےپیمانے پر ہونے لگی تھی۔ اس کوکسی اور طرح سے نہ لیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مذہبی زیارتی مقام کا بھی ایک فیشن ہوتا ہے۔ کبھی کوئی دیوی یا دیوتا فیشن میں آ جاتے ہیں تو کبھی کوئی اور۔
یاد آتا ہے، نوے کی دہائی جب گنیش جی یونیورسل ہو گئے تھے۔ آرچیز کے چھوٹےچھوٹے خوبصورت کرسٹل کے گنیش جی تقریباً ہر متوسط گھرانے میں پائے جاتے تھے۔ کہیں دیوار سے ٹنگے تو کہیں میز پر رکھے۔ کہنے کا محض یہ مطلب ہے کہ وہ پوجا گھر سے باہر آکر ڈرائنگ روم میں سجاوٹ کی دیگر چیزوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔
نوّے کی دہائی ترقی کی دہائی تھی۔ کم سے کم ایسا مانا جاتا تھا۔ ایک طرف حکومت اور راہل کے کردار سوئٹزرلینڈ کے جنگل اور لندن کی سڑکوں پر باہیں پھیلائے دیسی عشق کر رہے تھے، دوسری طرف شہرت اور روایت کے نام پر کے-سیریز کے سیریئل گھر اور سماج میں سنسکار کو آراستہ کر رہے تھے۔
جدیدیت اور اقتصادی آزادی کے تناظر میں بہت لازمی ہو کہ اچھا کام کے لئے گنیش جی کی مقبولیت بڑھ گئی ہو۔یہ ایک سماجی تجزیے کی کوشش ہے نہ کہ مذہبی عقیدہ پر کوئی طعنہ۔ آج کل کے ماحول میں اس بات کا دوہرا دینا ضروری ہے۔ لیکن عقیدہ بھی سماجی تبدیلیوں سے منسلک ہوتا ہے۔
مذہب سماج کا حصہ ہوتا ہے، اسی لئے وہ سماجی تجزیے کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اقتصادی امکانات کے دائرے سے بھی اچھوتا نہیں ہے۔ یہ بات تو سب مانیں گے کہ اقتصادی خوشحالی آنے سے تیرتھ مقام اور مندروں میں تحفہ اور چڑھاوے کی رقم بڑھ جاتی ہے۔ کچھ منتیں اور منتی درد اور دکھ میں مانگی جاتی ہے، کچھ خوشحالی اور خوشحالی کے لئے۔ دوسرے مذہبوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔
گلی گلی میں علم نجوم کے مرکز کھلے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو شاید الگ الگ رنگوں کی انگوٹھی پہننے کے لئے انگلیاں کم پڑ رہی ہیں۔ ٹی وی پر باباؤں اور ماہرین کی قطار لگی ہوئی ہے۔ مذہب کا ایک مطلب ہے اپنے اندر جھانککر بہتر انسان بننے کی کوشش کرنا۔ اس کی دوسری صورت عقیدہ کی صارفیت میں دکھتی ہے۔
عقیدہ کی اسی دوسری والی شکل کی خرابی کانوڑیوں کے تشددکو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ پچھلے بیس سے تیس سال کی جدیدیت کا اثر ہمارے شہروں پر بھی آسانی سے دکھ رہا ہے۔ شہروں کی سرحد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔گاڑیوں کی تعداد بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ سڑکیں تنگ ہوتی جا رہی ہیں اور کاروں کی لمبائی دگنی۔ پہلے بریڈ اینڈ بٹر کار چلتی تھی، اب ایکسٹرا لارج سائز کے ڈبے پہیوں پر دوڑتے ہیں۔ سائز بھی بڑھ گئی ہے اور رفتار کی چاہت بھی۔
آخرکار، جتنی بھی کانوڑیوں کےتشددکےواقعات سامنے آئے ہیں ان سب میں کار کی موجودگی لازمی ہے۔ لیکن، یہ لڑائی صرف سڑکوں پر آزادی کی نہیں ہے۔ سوال صرف حق کا نہیں ہے کہ ساون کے مہینے میں کاریں چلیںگی یا کانوڑیاں چلیںگے۔
پچھلے کچھ سالوں سے حکومتیں اسکول اور کالج بند کروا رہے ہیں تاکہ سڑکوں پر بسوں کی تعداد کم ہو جائے۔ شاید حالت بدل گئی ہو، ایسا لگ تو نہیں رہا ہے۔ اس تصادم کو اسی لئے قانون کی ناکامی کے باہر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نئےعقیدہ کی نئی شکل کو دکھلاتا ہے۔ ساون پر بہت سے گیت ہیں۔ لوگ گیت میں ساون کے گیت اکثر گائے جاتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخرمیں اور بیسویں کے شروع میں چھوٹے چھوٹے رسالے چھپتے تھے ان گیتوں کی۔ ‘ ساون سہاگ ‘ اور ‘ ساون درپن ‘-اس طرح کے ناموں سے۔
یہ عاشق اور معشوق کے الگ الگ ہونے پر تڑپنے کا مہینہ ہے۔ ساون علامت ہے وصل کا۔ کالے بادل، مور پپیہا، آنگن کا جھولا، سکھیوں کا گانا-یہ سارے ساون کو بے مثال بنا دیتے ہیں۔ کالے بادل اور کالی آنکھیں جادو چلاتی ہیں۔آج کل ایک اور جادو چل رہا ہے۔ وہ ہے ڈی جے والے بابو کا۔ یہ گیت کانوڑیوں کے درمیان رواج پارہا ہے۔ ویسے تو تیرتھ مقام کی سیاست نہیں ہونی چاہیے، لیکن لطف اٹھائیے ساون کے اس نئے گیت کا۔ یہ گیت ساون پر ہے یا یوگی جی پر، یہ بات آپ خود طے کریں :
ڈی جے بجوا دیے یوگی نے،
رنگ جما دیے یوگی نے،
بھولے نچوا دیے یوگی نے…
اکھلیش نے حکم سنایا تھا
ڈی جے میں بین لگایا تھا،
2017 کے الیکشن میں
بھولوں نے اسے ہرایا تھا،
چھکے چھٹوا دیے یوگی نے
رنگ جما دیے یوگی نے…
یہ گورکھ ناتھ کا چیلا ہے
انگاروں سے کھیلا ہے،
بہو بیٹیوں کو جس نے چھیڑا
اسے پکڑ پکڑ کر پیلا ہے،
غنڈے مروا دیے یوگی نے
رنگ جما دیے یوگی نے …
یہ بھکتوں کی سمان کریں
یہ ہون کیرتن دان کریں،
پی ایم بنےگا یوپی بھارت کا
ایسا لوگ انومان کریں،
ایسے کرم کما دیے یوگی نے …
(مضمون نگار زیڈ ایم او کے سینٹر فار ماڈرن اورینٹل اسٹڈیز، برلن میں سینئر رسرچ فیلو ہیں۔)
Categories: فکر و نظر