لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
اٹل بہاری واجپائی بطور وزیر اعظم ہند نوبل امن اعزاز کے مضبوط دعوےدار ہوتے اگر سن 2001 میں تب کے صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ میں ہوئی سربراہ کانفرنس کے دوران ہونے والے قرار میں آخری لمحات میں ردو بدل نہ ہوتا۔اس مایوس کن معاملے کے دو سال بعد بحیثیت وزیر اعظم واجپائی نے ایک اور اہم معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، جس نے ایک وقت پورے ملک میں آگ لگا رکھی تھی۔ رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے میں بھی یہی ہوا کہ آخری وقت میں بات بگڑ گئی اور خوش مزاج و خوش گفتار اٹل بہاری واجپائی ایک بار پھر تاریخ کی ایک عظیم ہستی بنتے بنتے رہ گئے۔ ستم ظریفی یہ کہ دونوں بار اُنہیں اِن عظیم کامیابیوں سے دور رکھنے میں ان کی اپنی پارٹی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کا اہم کردار رہا۔
واجپائی کے قریبی ساتھی لال کرشن اڈوانی نے اپنی نئی کتاب “مائی کنٹری، مائی لائف” میں قبول کیا ہے کہ آگرہ سمِٹ کو کیسے کمزورکیا گیا۔ بشمول ان کے این ڈی اے کے کئی وزرا، بی جے پی اور آر ایس ایس کے عہدے داران کو آگرہ سربراہ کانفرنس کا مسودہ رائے عامہ کے ایک دم خلاف لگا، جس کا سیدھا اثر این ڈی اے سرکار پر پڑتا اور انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔
اپنی خود نوشت میں اڈوانی نے لکھا، “ہندوستانی صحافیوں کے ساتھ پاکستانی لیڈر کی صبح ناشتے کے وقت ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی میٹنگ کے دوران ہوئی گفتگو نے سرحد پار دہشت گردی و جموں کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کی حالت پست کر دی تھی، اس کا نتیجہ آگرہ سمِٹ کا اختتام ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور تلخ کلامی پر ہی ہونا تھا۔”اڈوانی کے الفاظ میں واجپائی سرکار “ایک کمزور منصوبہ بندی کی ذمہ دار تھی، جس نے مشرف کو اس کا موقع دے دیا کہ وہ گستاخانہ بےباکی کے ساتھ واجپائی کے سامنے یہ بات رکھ سکیں کہ ہندوستان و پاکستان کے بیچ مسئلہ کشمیر ایک بنیادی معاملہ ہے۔ اس میں سرحد پار کی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں تھا، نہ ہی مسئلہ کشمیر کو پُر امن ڈھنگ سے حل کرنے کے لیے شملہ سمجھوتے کے تحت کچھ اقدامات کرنے کا۔”
اڈوانی نے یہ بھی لکھا کہ جنرل مشرف نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب “اِن دی لائن آف فائر”میں بی جےپی کے سخت گیر دھڑے کو آگرہ سربراہ کانفرنس ناکام کرنے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب بہت سے دانشوروں کا ماننا ہے کہ جنرل صاحب کا مشاہدہ پورِ طرح غلط بھی نہیں ہے۔اڈوانی کے مطابق، جو آگرہ سمِٹ میں موجود تھے، دونوں ملکوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ اطمینان بخش نہیں تھا۔ “پاکستان کے وزیر خارجہ عبدالستار کے ساتھ میٹنگ کے بعد جسونت سنگھ (ہندوستانی وزیر خارجہ) جو مسودہ لائے، اس پر 15 جولائی کو وزیر اعظم کے خصوصی کمرے میں جاری (دفاع کی کابینہ کمیٹی) کے ساتھ غیر رسمی میٹنگ میں بات ہوئی۔ میں نے پایا کہ سرحد پار سے جاری دہشت گردی کا مسودہ میں کوئی ذکرنہیں ہے۔ تب میں نے کہا، ‘اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔’ کمرے میں موجود تمام لوگوں نے متفقہ طور پر میری بات کی تائید کی۔”
یہ بھی پڑھیں: ہمیں واجپائی کے بنا ’مکھوٹے‘ والے اصلی چہرے کو نہیں بھولنا چاہیے
سن 2003 میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے لکھنو میں اپنا خصوصی اجلاس طلب کیا۔ بورڈ پُرامید تھا کہ اس معاملے میں واجپائی حکومت اور کانچی پیٹھ کے شنکرآچاریہ وشو ہندو پریشد کو اس پر راضی کر لیں گے کہ وہ عدالت کا فیصلہ قبول کر لیں۔بورڈ نے رجائی نقطہ نظر کے ساتھ تجویز تیار کر کے شری جیندر سرسوتی کے حوالے کر دی، جس کے مطابق 67 ایکڑ کے غیر متنازعہ قطعہ اراضی پر ایک مسجد تعمیر کی جائے، کیونکہ ہندُتووادی طاقتوں کو عدالت میں متھرا اور کاشی معاملے میں بھی ہار کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اعتدال پسند مگر کبھی کبھی جارح ہو جانے والے بورڈ کو ملک کے موقر ادارے ندوۃالعلماء کا ساتھ ملا اور ندوہ کے مہتمم و مشہور مذہبی شخصیت مولانا رابع حسنی ندوی نے کہا کہ اس طرح کے سمجھوتے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر بورڈ نے تمام مسلم ممبرانِ پارلیامنٹ اور قوم کے لیڈران کو مدعو کر لیا کہ ایودھیا معاملے پر غوروخوض کیا جا سکے۔لیکن ایودھیا مسئلہ حل کرنے کی واجپائی اور کانچی کے شنکرآچاریہ کی کوشش دھری کی دھری رہ گئیں، جب وی ایچ پی سے جُڑے مذہبی رہنماؤں کے ایک طبقے نے ان کی مخالفت کر دی۔ واجپائی کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا، جو ایودھیا معاملے کا مستقل تدارک کرنے کے لیے ایک بڑا داؤکھیلنا چاہتے تھے۔ جبکہ اُن کے ہم نواؤں میں ہی ایک طبقہ متنازعہ مقام کے نزدیک نئی مسجد کے لیے جگہ دینے کو راضی نہ تھا۔
گودھرا ٹرین حادثے کے بعد وی ایچ پی کے نیتاؤں نے کھلے طور پر وزیر اعظم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی مشترکہ سرکار کا کوئی مطلب نہیں ہے، جس میں بی جےپی کی آئیڈیالوجی کو اولیت حاصل نہ ہو۔بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
Categories: فکر و نظر