سپریم کورٹ نے تعزیراتِ ہند دفعہ 377 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کو غیر-مجرمانہ ٹھہرایا ہے۔اقلیتی تنظیم عدالت کے اس فیصلے کے خلاف نظر آ رہی ہے۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ سے ہم جنسی رشتے کو جواز ملنے کے بعد اب مذہبی تنظیم اور مذہبی رہنما اس فیصلے کے خلاف نظر آ رہے ہیں۔ کچھ اقلیتی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مذہب اور انسانیت کے خلاف بتایا ہے اور وہ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ کے فیصلے کو چیلنج دینے پر غور کر رہے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جمیعت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سماج میں جنسی تشدد بڑھ جائےگا۔ انہوں نے 2013 میں کورٹ کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا تھا، جس نے ہم جنسی رشتوں کو جرم کے زمرہ میں رکھ دیا تھا۔
مدنی نے کہا، ‘ہم جنسی تعلق قدرت کے خلاف ہے۔ یہ سماج میں اخلاقی تباہی اور خرابی کی وجہ بن جائےگا اور جنسی جرم اور تشدد کوبڑھاوا دےگا۔ یہ شرمناک کارنامہ خاندانی نظام کو تباہ کر دےگا اور انسانی ذات کی ترقی پر ایک غلط اثر ڈالےگا۔ ‘انہوں نے آگے کہا، ‘بنیادی حقوق کے طور پر ہم جنسی کو حق ماننے والے کچھ لوگوں کے لئے آپ پورے سماج کو شہوانی انتشار اور اخلاقی بدانتظامی میں دھکا نہیں دے سکتے ہے۔ تمام مذہبوں کی مقدس کتاب میں ہم جنسی کو غیرفطری جنسی رشتہ قرار دیا گیا ہے۔ ‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر اور وکیل کمال فاروقی نے کہا، ‘ اس کو مجرمانہ بتانا غلط تھا، کوئی اپنے بیڈ روم میں کیا کرے اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ فیصلہ سماج کو تباہ کر دیتا ہے، اگر یہ میرے ملک کی تہذیب کو تباہ کر دیتا ہے، تو بورڈ یقینی طور پر صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کے لئے کردار نبھائےگا۔ ‘
کمال نے آگے کہا، ‘ ہم جلدہی اس کے جواب کے ساتھ آئیںگے، ہم بھی عدالت جا سکتے ہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم جنسی اسلام کے خلاف ہے اور اس پر قرآن میں ایک مکمل باب ہے۔ اگر یہ اصول بن جاتا ہے، تو 100 سال بعد انسانیت مٹ جائےگی اور یہ قدرت کے اصول کے خلاف ہے۔ ‘
دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے 2009 کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ سب عیش کوشی، گلے لگانے، ہم جنسی شادی میرے ملک کی تہذیب کے خلاف ہے۔ اس کو روکنے اور کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘شیعہ عالم اور سماجی رہنما مولانا کلبِ راشد نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا، ‘ اگر کوئی شخص کسی چیز کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر وہ عادت ایک ضرورت بن جاتی ہے، تو یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ عادت پوری انسانیت کے لئے ایک ضرورت ہے۔ ‘
راشد نے آگے کہا، ‘ میں اس کو ایک مذہبی رنگ نہیں دینا چاہتا لیکن میرے دماغ میں، ہم جنسی کو لےکر خواتین کے حقوق کی فکر ہے۔ اگر مرد خواتین کا کردار نبھائیںگے تو خواتین کیا کریںگی؟ قانون انسانیت کے ساتھ چلتا ہے اور مجھے کہنے میں کوئی دقت نہیں ہے کہ جب تک ہندوستانی تہذیب زندہ ہے، ہم جنسی صرف غیر قانونی نہیں بلکہ سنگین گناہ ہے۔ ‘
جماعتِ اسلامی ہند نے بھی عدالت کے فیصلے کو خاندانوں کی تباہی اور جنسی انتشار کی شروعات کہا ہے۔ تنظیم کے سکریٹری محمد سلیم نے کہا، ‘جماعتِ اسلامی ہند دو بالغوں کے درمیان ہم جنسی عمل کو جائز بنانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ملک کو اس خباثت سے بچایا جائےگا، جس میں یہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ‘سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے جمعرات کو اتفاق رائے سے 158 سال پرانے تعزیراتِ ہند دفعہ 377 کے اس حصے کو منسوخ کر دیا جس کے تحت باہمی رضامندی سے غیرفطری جنسی تعلقات جرم تھا۔
سپریم کورٹ نے تعزیراتِ ہند دفعہ 377 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کو غیر-مجرمانہ ٹھہرایا ہے۔ کورٹ نے اپنے ہی سال 2013 کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے دفعہ 377 کی اہمیت منسوخ کر دی۔ اب اتفاق کے ساتھ اگر ہم جنسی کمیونٹی کے لوگ تعلق بناتے ہیں تو وہ جرم کے دائرے میں نہیں آئےگا۔
دریں اثنا ہم جنسی کو جرم نہیں قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے پرآر ایس ایس نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ جرم نہیں ہے لیکن وہ ہم جنس شادی کی حمایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ قدرتی نہیں ہے۔آر ایس ایس کا یہ تبصرہ تب آیا جب سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے ایک رائے سے 158 سال پرانی آئی پی سی کی دفعہ 377 کے اس حصے کو منسوخ کر دیا جس کے تحت باہم رضامندی سے غیرفطری جنسی تعلقات بنانا جرم تھا۔ عدالت نے کہا کہ یہ اہتمام آئین میں پیش کردہ مساوات کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
سنگھ کے ارون کمار نے ایک بیان میں کہا، ‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرح ہم بھی ہم جنسی کو جرم نہیں مانتے ہیں۔ ‘بہر حال، انہوں نے سنگھ کے پرانے رخ کو دوہراتے ہوئے کہا کہ ہم جنس شادی اور ایسے رشتے ‘ فطرت کے موافق ‘ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ یہ تعلق فطری نہیں ہوتے، اس لئے ہم اس طرح کے رشتے کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ‘
کمار نے دعویٰ کیا کہ ہندوستانی سماج روایتی طور پر ایسے تعلقات کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔ انسان عام طور پر تجربات سے سیکھتا ہے، اس لئے اس موضوع پر سماجی اور نفسیاتی سطح پر گفتگو کرنے اور اس کا حل کرنے کی ضرورت ہے۔غور طلب ہے کہ سنگھ روایتی طور پر ہم جنسی کے خلاف رہا ہے اور اس کو غیرفطری کہتا رہا ہے لیکن 2016 میں سنگھ کے سینئر رہنمادتاتریہ ہوسبولے نے یہ کہہکر ایک تنازعہ چھیڑ دیا تھا کہ کسی کی شہوانی ترجیح جرم نہیں ہو سکتی ہے۔
حالانکہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے اس مدعے پر فیصلہ سپریم کورٹ کے اوپر چھوڑ دیا تھا۔ بی جے پی رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کی عزت کرتے ہیں لیکن آن ریکارڈ نہیں بولیںگے۔وہیں، پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر سبرامنیم سوامی نے دعویٰ کیا کہ ہم جنسی ایک جینٹک ڈفیکٹ ہے۔سوامی نے کہا، ‘یہ سماج میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر آپ کی حالت کو متاثر نہیں کرتا ہے۔ ہم جنس پرستوں کے درمیان تعلق کو جرم قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ پرائیویٹ طور سے کیا جاتا ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں