سنگھ سربراہ کے حالیہ بیانات کی سنجیدگی اور بھروسہ کو اس کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے کہ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم اپنی آئندہ انتخابی مہم کس طرح سے چلاتے ہیں۔
سنگھ پریوار کے ذریعے منعقد تین روزہ کنونشن میں شہری دانشور طبقے کو رجھانے کی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت کی کوشش کے کئی دلچسپ جہات ہیں۔ایک داغدار اور مشکوک ماضی والی تنظیم آزادی کے بعد جس کی سرگرمیوں پر کم سے کم چاربار پابندی عائد کی گئی-کو جواز دلانے کی زوردار کوشش کو دو دنوں کی مدت میں دئے گئے موہن بھاگوت کے تقریباً تین گھنٹے کی تقریر کا سب سے اہم پہلو کہا جا سکتا ہے۔
اخلاقی اور سماجی قبولیت کے مطابق بات کریں، تو مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ذریعے تنظیم پر لگائی گئی پابندی سے باہرآنے میں آر ایس ایس کو کافی لمبا وقت لگا۔آر ایس ایس کے اعتبار کو دوسرا دھکا تب لگا، جب اس سے وابستہ تنظیم وشو ہندو پریشد نے 1980 کی دہائی میں رام مندر کے لئے مہم چلائی اور 1992 میں غیر قانونی طریقے سے بابری مسجد کے ڈھانچے کو مسمار کر دیا۔
تاریخی طور پر آر ایس ایس کا ماننا رہا ہے کہ ہندوستانی آئین کی روح ‘ہندوستانیت’کی قدروں کا مظاہرہ نہیں کرتی ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں، تو بھاگوت کی تقریر کو صاف طور پر درمیان کی زمین پر پیر جمانے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے اور انہوں نے سامعین کو یہ بھروسہ دلایا کہ ‘ہندوتوا ‘سب کو ساتھ لے کر چلنے والاایک نظریہ ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔
انہوں نے ایک قدم آگے بڑھکر یہ کہا کہ مسلمانوں کے بغیر کوئی ہندوتوا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلم بھی اتنے ہی ہندوستان کی اولاد ہیں، بس ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔بھاگوت نے یہاں تک کہا کہ آر ایس ایس نے ہندوستانی آئین کو پوری طرح سے اپنا لیا ہے، جس میں’ سوشلسٹ’اور سیکولر جمہوریت’ بھی شامل ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ آخر آر ایس ایس کے عوامی بیانات میں آئی اس بنیادی تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ ہم اس بارے میں صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ آخر موہن بھاگوت کے اپنے بیانات میں اچانک اتنےجمہوریقدروں کی بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہیں؟یہاں تک کہ انہوں نے آر ایس ایس کے بانی کے بی ہیڈگیوار کا بھی حوالہ دیا ، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ وہ مشترکہ مقاصد کے لئے کمیونسٹ کے ساتھ بھی کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔
بھاگوت نے 1920 کی دہائی میں بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے بانی ایم این رائے کی خدمات کا بھی ذکر کیا، جنہوں نے آگے چلکر Radical humanismکو اپنا لیا تھا، جس کا خیال تھا کہ کسی بھی انقلابی سماجی فلسفہ کو لوگوں کی طاقتور بنا نا چاہیے اور ان کی آزادی کو دلیل اور اخلاقیات پر مبنی ہونا چاہیے۔بین الاقوامی کمیونسٹ کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے لینن کے ذریعے مدعو کئے جانے والے رائے وقت کے ساتھ-ساتھ تبدیلی کی ترغیباتی طاقت کے طور پر اشتراکیت کے مارکس وادی اصول سے دور ہوتے گئے اور سماج میں اخلاقی اور منطقی حیوانات کے طور پر انسان کی برتری کی طرف چلے گئے۔
سوال ہے کہ آخروسیع النظر ہندو دانشور طبقے، کمیونسٹ اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں پر بھاگوت کے ذریعے اس طرح سے ڈورے ڈالنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد پوری طرح سے لمحاتی اور سیاسی ہے تاکہ نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعلق لوگوں کا رخ نرم پڑ جائے؟یہاں یہ بھی بتانا اچھا ہوگا کہ بھاگوت نے یہ بھی کہا ان کی باتوں کا کوئی تعلق دن بہ دن کی سیاست سے نہیں ہے اور آر ایس ایس کا مقصد ‘سماج میں تبدیلی لانا ‘ہے۔ اس کے لئے آر ایس ایس کسی بھی شخص، تنظیم یا سیاسی جماعت کے ساتھ ملکر کام کرنے کے لئے تیار ہے، جو سماج میں ایسی تبدیلی کے لئے کام کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔
یہ ساری باتیں سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں، لیکن بھاگوت جو باتیں وہ کہہ رہے ہیں، کیا وہ زمین پر ہو رہے واقعات سے میل کھاتی ہیں؟اس بات کو لےکر لوگوں میں ایک رائے ہے کہ بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی معاون تنظیموں اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ذریعے کی جا رہی سیاست نے سماج کو خوفناک اور تشدد آمیز طریقے سے پولرائزڈ کرنے کا کام کیا ہے۔
انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اور ان کو گائے کے گوشت پر پابندی،’ لو جہاد ‘، گھر واپسی جیسی مہم کے ذریعے غیر محفوظ بنانے کا کام کیا ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی اعداد و شمار ہیں کہ انتخاب کے وقت ایسی فرقہ وارانہ مہم مسلمانوں کے منفی بیان کے ذریعے ہندو ووٹ کا پولرائزیشن کرنے میں بی جے پی کی مدد کرتی ہیں۔اس لئے میری نظر میں اگلے نو مہینوں میں بھاگوت کے بیانات کی سنجیدگی اور اصل میں بھروسہ کو اس کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے کہ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم اپنی انتخابی مہم کس طرح سے چلاتے ہیں۔
یاد رکھیے، بھاگوت نے ہیڈگیوار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ، ‘ ہم ہمارے سماج کہیں تمام برائیوں کا الزام ہمیشہ مسلم اور انگریز حکمرانوں پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ مسئلہ کی جڑ ہمارے اندر ہے اور ہمیں دوسروں پر الزام لگانے کی جگہ ان مسائل کا حل کرنا چاہیے۔ ‘تو کیا اپنے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے موہن بھاگوت ہمیں یہ بھروسہ دلا سکتے ہیں کہ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیم، خاص کر بی جے پی،اقلیتوں کی منفی تصویر کو روک دے گی اور کیا وہ ہندو سماج کے اندر خود مختار اصلاحات کے لئے تھوڑی سنجیدگی سےغور وفکرکرےگی؟
آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ذریعے پھیلایا جانے والا سب سے بڑا جھوٹ اکثریت کا شکار ہونے اور اس کے لئے کسی نہ کسی شکل سے اقلیتوں کو قصوروار ٹھہرانے کا ہے۔ بھاگوت جی، اس سے بڑھکر بزدلانہ چیز کچھ نہیں ہو سکتی۔اگر ہمیں حالیہ سالوں میں سماجی اور سیاسی تانے-بانے کو پہنچائے گئے نقصان کی مرمت کرنے کے لئے کسی عام اتفاق رائے پر پہنچنا ہے، تو یہ فوراً رکنا چاہیے۔
Categories: فکر و نظر