2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
2019 کے انتخاب میں اب 9 مہینے رہ گئے ہیں۔ ابھی سے لےکر آخری ووٹنگ تک میڈیا کے شرادھ کابھوج چلےگا۔ پانچ سال میں آپ کی آنکھوں کے سامنے اس میڈیا کو لاش میں بدل دیا گیا۔ میڈیا کی لاش پر اقتدار کے گدھ منڈلانے لگے ہیں۔ بلکہ گدھ کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ لاش دکھےگی بھی نہیں۔ اب سے روز اس سڑی ہوئی لاش کی بدبو آپ کے ناک میں گھسےگی۔
آپ کے دماغ میں پہلے سے موجود سڑن کو کھاد دیںگے اور پھر جنون کی سطح پر لے جانے کی کوشش کریںگے جہاں ایک رہنما کا سلوگن آپ کا سلوگن ہو جائےگا۔مرا ہوا میڈیا مرا ہوا شہری پیدا کرتا ہے۔اس انتخابی سال میں آپ روز اس میڈیا کی شرادھ کا بھوج کریںگے۔ شرادھ کا عظیم الشان جشن ٹی وی پر منایا جائےگا اور اخباروں میں چھپےگا۔2019 کا سال ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے کا سال ہوگا۔ اتنے جھوٹ بولے جائیںگے کہ آپ کے دماغ کی نسیں دم توڑ دیںگی۔ نیوز چینل آپ کی شہریت پر آخری وار کریںگے۔ یہ چینل اب عوام کے ہتھیار نہیں ہیں۔ حکومت کے ہتھیار ہیں۔
چینلوں پر بحث کے مصنوعی مدعے سجائے جائیںگے۔ بات چہرے کی ہوگی، کام کی نہیں۔ چہرے پر ہی انتخاب ہونا ہے تو بالی وڈ سے کسی کو لے آتے ہیں۔پارٹی ترجمان جھوٹ سے تمام بحث کو بھر دیںگے۔ کسی سوال کا سیدھا جواب نہیں ہوگا۔ مغالطہ کی جنگ عظیم چلےگی۔مغالطہمیںلانے کا مہاکنبھ ہوگا۔چلو اس عوام کو اب اگلے پانچ سال کے لئے مغالطہمیںلاتے ہیں۔عوام جھوٹ کی آندھیوں سے گھر جائے گی۔ نکلنے کا راستہ نہیں دکھےگا۔ میڈیا اس کو گڈھے میں گرنے کے لئے دھکا دے دےگا۔ عوام گڈھے میں گر جائیں گے۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔ اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بےدخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔ٹی وی کی بحث میں ہر اس آواز کا قتل ہوگا جو عوام کی طرف سے اٹھےگی۔ چھوٹے سے کیمپس میں نقلی عوام آئے گی ۔ وہ تالی بجائیں گے،چہرے اور رہنما کے نام پر۔ کرسی پھینککر چلے جائیں گے۔ ہنگامہ ہی خبر ہوگی اور خبر کا ہنگامہ۔
مدعوں کی جگہ پرچا رکے چمتکارہوںگے۔ اس نظام کے سامنے جمہوریت کا جمہورمعمولی نظر آنے لگےگا۔ مذہب کی تمثیل سیاسی نعروں میں چڑھا دئے جائیںگے۔ آپ کے اندر کی دین داری کو کھنگالا جائےگا۔ ابالا جائےگا۔اس انتخاب میں رہنما آپ کو مذہب کی حفاظت کے لئے اکسائیںگے۔ ہندو مسلم ڈبیٹ انتہا پر ہوگی۔اس ڈبیٹ کا ایک ہی مقصد ہے۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں کو فسادی بناؤ۔ فسادات سے متعلق رواداربناؤ۔ان کے ماں باپ کی خاموش رضامندی ان نوجوانوں کو توانائی دےگی۔
ہندوستان ایک نئے دور میں جا رہا ہے۔ قتل کرنے والوں کو برداشت کرنے والا ہندوستان۔ریپ کرنے والوں کو برداشت کرنے والا ہندوستان۔ بس اس کی رواداری تبھی کھولےگی جب مجرم کا مذہب الگ ہوگا۔ریپ اور قتل کے شکار کا مذہب الگ ہوگا تو کوئی بات نہیں۔ مذہب سے نہیں بہکیںگے تو پاکستان کے نام پر بہکایا جائےگا۔ہندوستان میں فرقہ پرستی خاندانی ہو چکی ہے۔ ماں باپ اور بچے کھانے کی میز پر فرقہ پرستی سے اتفاق رکھتے ہیں۔ نفرت سماجی ہو چکی ہے۔ اسی کی جیت کا سال ہوگا 2019۔ اسی کی ہار کا سال ہوگا 2019۔ مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔ انجام کون جانتا ہے۔
میری سمجھ سے 2019 کا انتخاب عوام کے شہری ہونے کے علم کے قتل کا سال ہوگا۔ عوام خودہی تصدیق کرے گی کہ ہاں ہمارا قتل ہو چکا ہے اور ہم مر چکے ہیں۔اب ہمیں زبان کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی آواز کی ضرورت نہیں ہے۔ تیزترین تشہیری وسائل کے درمیان آخر عوام زندہ ہونے کا ثبوت کیسے دے گی۔
سب کے بس کی بات نہیں ہے جھوٹ کی آندھی کو سمجھنا اور اس سے لڑنا۔مین اسٹریم کے اکثر :تمام میڈیا اداروں کا میدان صاف ہے۔حکومت کے دعووں کو زمین سے جانچنے والے صحافی ختم ہو چکے ہیں۔گودی میڈیا کے غنڈہ اینکر آپ کو للکاریںگے۔ آپ کے دکھ پر پتھر پھینکیںگے اور آپ کے ہاتھ میں مالا دیںگے کہ پہنا دو اس رہنما کے گلے میں جس کی طرفداری میں ہم چیخ رہے ہیں۔
عوام اس انتخاب میں میڈیا ہار جائےگا۔ میڈیا کی چالاکی سمجھیے۔ وہ انتخابی سال میں اپنی ری-برانڈنگ کر رہا ہے۔ اس کو پتا ہے کہ عوام کو معلوم ہے کہ میڈیا گودی میڈیا ہو گیا تھا۔اس کے اینکروں کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔اس لئے بہت تیزی سے میڈیا ہاؤس اپنی برانڈنگ نئے سرے سے کریںگے۔سچ کو لےکر نئے-نئے نعرے گڑھے جائیںگے۔میڈیا عوام کے لئے آندولن کاری کے کردار میں آئےگا۔آپ جھانسے میں آئیںگے۔ زمین پر جاکر دعووں کا امتحان نہیں ہوگا کیونکہ اس میں جوکھم ہوگا۔ حکومت کو اچھا نہیں لگےگا۔
ہندوستان کا میڈیا خاص کر نیوز چینل ہندوستان کی جمہوریت کا قتل کرنے میں لگے ہیں۔ یقین نہ ہو تو یو ٹیوب پر جاکر آپ ان پانچ سال کے دوران ہوئے مباحثوں کو نکالکر دیکھ لیں۔آپ کو پتا چل جائےگا کہ یہ آپ کو کیا بنانا چاہتے تھے۔آپ کو یہ بھی پتا چلےگا کہ جو بنانا چاہتے تھے، اس کا کتنا فیصد بن پائے یا نہیں بن پائے۔
آپ کچھ نہیں تو وزیر اعظم مودی کے دو انٹرویو دیکھ لیجئے۔ ایک لندن والا اور ایک پکوڑا والا۔ آپ کو شرم آئےگی۔ اگر شرم آئےگی تو پتا چلےگا کہ آپ کے اندر کی شہریت ابھی بچی ہوئی ہے۔ اگر نہیں آئےگی تو کوئی بات نہیں۔ری-برانڈنگ کے اس کھیل میں اعتماد کھو چکے اینکروں سے دوری بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائےگی۔ چینلوں میں کافی تبدیلی ہوگی۔اینکروں کے سلاٹ بدلیںگے۔پروگرام کے نام بدلیںگے۔ممکن ہے کہ انٹرویو کے لئے نئے اینکر تلاش کئے جائیں۔ ہو سکتا ہے مجھ تک بھی تجویز آ جائے۔ یہ سب کھیل ہوگا۔ اقتدار استعمال کرنے کے لئے لوگوں کو کھوج رہا ہے۔ بہت چالاکی سے گودی میڈیا آپ کو گودی عوام میں بدل دےگا۔
عوام کیا کر سکتے ہیں؟ میری رائے میں اس کو پہلی لڑائی خود کو لےکر لڑنی چاہیے۔ اس کو 2019 کا انتخاب اپنے لئے لڑنا ہوگا۔ وہ ہندی کے اخباروں کو غور سے دیکھے۔ دوسرے اخباروں کو بھی اسی بے رحمی کے ساتھ دیکھے۔ کس پارٹی کا اشتہار سب سے زیادہ ہے۔ کس پارٹی کے رہنماؤں کا بیان سب سے زیادہ ہے۔ اخباروں کے صحافی رہنماؤں کے دعووں کو اپنی طرف سے جانچکر رہے ہیں یا صرف ان کو جس کا تس پیش کرنے کی چالاکی کر رہے ہیں۔
جب بھی آپ نیوز چینل دیکھیں تو دیکھیں کہ وزیر اعظم کی ریلی کتنی بار دکھائی جاتی ہے۔ کتنی دیر تک دکھائی جاتی ہے۔ان کے وزراء کی ریلی کتنی بار دکھائی جاتی ہے۔کتنی دیر تک دکھائی جاتی ہے۔ پھر دیکھیے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کی ریلی کتنی بار دکھائی جاتی ہے۔ کتنی دیر تک دکھائی جاتی ہے۔ بار بار اور دیر کی نہیں بات ہے کہ مدعوں کو رکھنے کی جس پر رہنما جواب دیں۔ نہ کہ رہنماؤں کی مقدس زبان سے نکلی بکواس کو مدعا بنائے۔آپ کو پتا چلےگا کہ آنے والا ہندوستان کیسا ہونے جا رہا ہے۔
مرے ہوئے میڈیا کے ساتھ آپ اس انتخابی سال میں داخل ہو رہے ہیں۔اس لئے اس میڈیا کو پرکھئیے۔امتحان صحافی دے رہا ہے اور سوال نامہ کی سیٹنگ مالک کر رہے ہیں۔اس کھیل کو سمجھنے کا سال ہے۔اس انتخاب میں نیوز چینل اور اخباراپوزیشن کا قتل کریںگے۔اپوزیشن بھی اپنا قتل ہونے دےگا۔
وہ اگر میڈیا سے نہیں لڑےگا تو آپ کے اندر کے اپوزیشن کو نہیں بچا پائےگا۔آپ دیکھیے کہ اپوزیشن کا کون رہنما اس گودی میڈیا کے لئے لڑ رہا ہے۔اس بار اگر آپ شہریت کے اس امتحان میں ہاریںگے تو اگلے پانچ سال یہ میڈیا اپنے کندھے پر آپ کی لاش اٹھاکر ناچےگا۔استثنیٰ مت دیکھیے۔ اس ملک میں ہمیشہ کچھ لوگ رہیںگے۔ مگر دیکھیے کہ جہاں بہت لوگ ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کی ہار میں جانتا ہوں، کیا آپ اپنی جیت جانتے ہیں؟2019 کے جون میں اس پر بات ہوگی۔ میڈیا کو مارکر آپ کو کیا ملےگا، اس پر ایک بار سوچ لیجیے گا۔
(یہ مضمون ر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر