نریندر مودی نے کم سے کم ایک ایسا اقتصادی سماج تو بنا دیا ہے جو نتیجے سے نہیں نیت سے تجزیہ کرتا ہے۔ حماقت کی ایسی اقتصادی جیت کب دیکھی گئی ہے؟ گیتا گوپی ناتھ جیسی ماہر اقتصادیات کو نیت کا ڈیٹا لےکر اپنا نیا ریسرچ کرنا چاہیے ۔
‘ ملک نے دیکھ لیا ہارورڈ والوں کی سوچ کیا ہوتی ہے، ہارڈ ورک والوں کی سوچ کیا ہوتی ہے یہ ملک نے دیکھ لیا۔ ایک طرف دانشوروں کی وہ جماعت ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی کے نام پر بات کرتے ہیں، ایک طرف غریب ماں کا بیٹا ہے جو ہارڈ ورک کے ذریعے ملک کی معاشی پالیسی بدلنے پر لگا ہوا ہے۔ ‘
ہندوستان میں 1636 کے آس پاس کی کسی بھی معلوم-نامعلوم یونیورسٹی کی اینٹ تک نہیں بچی ہوگی لیکن یوپی انتخاب کے وقت دیوریا میں بولتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے خود کو 382 سال یونیورسٹی کے مقابلے کھڑا کر دیا۔ اب اسی ہارورڈ یونیورسٹی کی اقتصادیات کی پروفیسر گیتا گوپی ناتھ بین انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی چیف اکانومسٹ بن گئی ہیں۔
گیتا ہندوستانی ہیں۔ ہندوستان میں بھی کیرل کی ہیں۔ پہلی خاتون ہیں، جو چیف ماہر اکانومسٹ بنی ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کی ہیں۔ لیڈی شری رام کالج کی ہیں۔ ہندوستان کے گھر گھر میں استقبال ہوگا۔ آئی ایم ایف کی پہلی خاتون چیف اکانومسٹ۔ واؤ! گریٹ یار۔ وی انڈینس کیپ ارائونگ ایوری ڈے۔ ہم ہندوستانی لوگ روز کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ گیتا کیرل حکومت کی مالیاتی مشیربھی ہیں۔ گیتا 382 سال والی ہارورڈ یونیورسٹی کی تاریخ میں ٹینیور پروفیسر کا عہدہ پانے والی تیسری خاتون ہیں اور امرتیہ سین کے بعد دوسری ہندوستانی۔
جب پروفیسر گیتا ہندوستان آئیںگی تب ان سے ملکر وزیر اعظم کیا بات کریںگے۔ میں اس سین کا تصور کرنا چاہتا ہوں۔ بیک گراؤنڈ میں نوٹ بندی کے وقت کی اسپیچ بج رہی ہوگی۔ ہارورڈ بنام ہارڈورک والی اسپیچ۔ ویسے ہارورڈ میں آپ ہارڈورک کے بغیر پروفیسر نہیں بن سکتے ہیں۔ یہ ہندوستان نہیں ہے کہ سنگھ کی حمایت میں چار مضمون لکھ دیا اور وائس چانسلر بن گئے۔ ہندوستان میں یہ کرنا بھی کم ہارڈورک نہیں ہے۔ بچپن سے ہی شاخا جانا ہوتا ہے۔
کچھ لوگ زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ حکومت بنتے ہی مودی-مودی کر لیتے ہیں اور دو-چار ٹویٹ کر دیتے ہیں پھر یونیورسٹی میں لیکچرار اور اگر پہلے سے پروفیسر ہیں تو الگ سے دبدبا بن ہی جاتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ہندوستان کی بیٹی کی کامیابی پر ہندوستان سے کون-کون وزیر ٹویٹ کریںگے۔ آپ ان کی ٹائم لائن پر جاکر چیک کریں۔ آخر گیتا بھی تو ہندوستان کی بیٹی ہیں۔ بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ سلوگن کے آنے سے پہلے ہی پڑھکر پروفیسر بن چکی ہیں۔
گیتا گوپی ناتھ نے نوٹ بندی کی تنقید کی تھی۔ ان کی رائے تھی کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ٹیکس چوری، بد عنوانی اور جعلی نوٹوں سے پیدا ہو رہے کالے دھن کو ٹارگیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں شامل نشہ آور مادوں کے اسمگلر، دہشت گردی کو بھی۔ لیکن اتنی تیزی سے قدم بڑھاکر یہ حکومت ہندوستان کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا رہی ہے۔
بزنس اسٹینڈرڈ کو دئے ایک انٹرویو میں بھی گیتا گوپی ناتھ نے کہا ہے کہ میں ایسے کسی ماہر اقتصادیات کو نہیں جانتی جو یہ سمجھتا ہو کہ نوٹ بندی ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ نوٹ بندی جیسی کارروائی ہندوستان جیسے ملک میں ہونی چاہیے۔جاپان میں فی شخص نقدی کا اوسط سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان سے کہیں زیادہ۔ ہندوستان میں جی ڈی پی کے تناسب میں نقدی کا چلن 10 فیصد ہی تھا۔ جاپان میں تو 60 فیصد تھا۔ وہ کالا دھن نہیں تھا۔ وہ بد عنوانی نہیں ہے۔
ہم ہندوستانیوں کے لئے ضروری ہے کہ بیچ بیچ میں فخر کرنے کے لئے کچھ ملتا رہے۔ ہم فخر کے بھوکے نیشن ہیں۔ بال نریندر کامگرمچھ والا قصہ ہو یا پھر لیمپ کے نیچے ایشور چند ودیاساگر کا پڑھنے والا قصہ۔ ان سب کے بیک گراؤنڈ میں کسی ادارے میں کوئی عہدہ مل جائے، تو ہم فخر کرتے ہی کرتے ہیں۔ ہم عہدہ پسند نیشن ہیں۔ فخر پسند نیشن ہیں۔ تو کیا عہدہ پسند اور فخر پسند نیشن گیتا گوپی ناتھ کا استقبال کرےگا؟ گیتا گیتا جپےگا؟
گیتا گوپی ناتھ کی ساکھ بہت بڑی ہے۔ ایسے ماہر اقتصادیات اپنی بات سے پلٹتے نہیں۔ پھر بھی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ گیتا گوپی ناتھ وزیر اعظم سے ملنے کے بعد نوٹ بندی کو بولڈ فیصلہ بتا دیں۔ وہی نیت والی بات۔ لیکن وزیر اعظم اپنی تقریروں میں اس بولڈ فیصلے کو کیوں بھول گئے ہیں۔ جن دھن تو کئی بار آتا ہے مگر نوٹ بندی ایک بار بھی نہیں آتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ نوٹ بندی میں جن کا بزنس برباد ہوا، انہوں نے کبھی وزیر اعظم مودی کے اس فیصلے کو مجرم نہیں مانا۔ وہ نیت کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں، نتیجے کی بنیاد پر نہیں۔ نریندر مودی نے کم سے کم ایک ایسا اقتصادی سماج تو بنا دیا ہے جو نتیجے سے نہیں نیت سے تجزیہ کرتا ہے۔ حماقت کی ایسی اقتصادی جیت کب دیکھی گئی ہے؟ نوٹ بندی حماقت سے بھرا فیصلہ تھا۔ گیتا گوپی ناتھ جیسی ماہر اقتصادیات کو نیت کا ڈیٹا لےکر اپنا نیا ریسرچ کرنا چاہیے۔ کام آئےگا!
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر