خبریں

شیلٹر ہوم میں بچوں کے جنسی استحصال  سے نپٹنے کے لئے موجودہ نظام ناکافی: سپریم کورٹ

بہار کے مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر موجودہ نظام کافی ہوتا، تو مظفرپور میں جو بھی ہوا، وہ نہیں ہوتا۔

علامتی تصویر، ٖفوٹو : رائٹرس

علامتی تصویر، ٖفوٹو : رائٹرس

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شیلٹر ہوم میں بچوں اور لڑکیوں کے جنسی استحصال کے واقعات پر پابندی کے لئے موجودہ نظام کو جمعرات کو ناکافی بتایا اورمنسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سے کہا کہ وہ بچوں کے تحفظ کو لے کر پالیسی تیار کرنے کے بارے میں اس کو واقف کرائے۔جسٹس مدن بی لوکر،جسٹس ایس عبدالنذیر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے اس کے ساتھ ہی وزارت کے سکریٹری کو 8 اکتوبر کو حاضر ہوکر ایسے متاثرین کی کاؤنسلنگ اور ان کی بازآبادکاری، بچوں کی دیکھ بھال والے اداروں کی موجودہ حالت اور بچوں کے تحفظ سے متعلق پالیسی جیسے مدعوں کو سمجھنے میں عدالت کی مدد کریں۔

بنچ نے کہا، ‘موجودہ نظام کافی نہیں ہے۔  اگر یہ کافی ہوتا تو مظفرپور میں جو کچھ بھی ہوا وہ نہیں ہوتا۔  ‘بنچ بہار کے مظفرپور میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے چلائے جارہے شیلٹر ہوم میں 34 لڑکیوں سے مبینہ طور پر ریپ اور جنسی استحصال کے واقعات سے متعلق معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔بنچ نے کہا، ‘ان 34 لڑکیوں کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔  اس طرح کی اور بھی کئی لڑکیاں ہوں‌گی۔  کسی نہ کسی کو تو کچھ کرنا ہی ہوگا۔  ‘

اس معاملے میں سماعت کے دوران بنچ نے تبصرہ کیا کہ اس نے پہلے بھی بچوں کے  تحفظ سے متعلق  پالیسی کے بارے میں جانکاری مانگی تھی لیکن اس میں کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔وزارت کے وکیل نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جرم کی روک تھام کے لئے سپریم کورٹ  کے مشورہ کے مطابق  پالیسی تیار کرنے کے لئے قومی سطح پر تمام ریاستوں کے ساتھ مشورہ کیا جا رہا ہے۔مرکز نے کہا کہ ایسے معاملوں میں کی جانے والی کارروائی کے کئی پوائنٹ ریاستوں کو بھیجے گئے ہیں اور وزارت جلد ہی اس مسئلے پر ایک اجلاس منعقد کرے‌گی۔  انہوں نے کہا کہ تین ریاستوں نے ایسے معاملوں میں کی جا رہی کارروائی کے بارے میں جانکاری دی ہے۔

بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں دو باتیں ہیں۔  پہلی تو یہ کہ کچھ ریاست اس طرح کا واقعہ ہونا قبول‌کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہوا ہے تو اس کو درست کرنے کے لئےقدم اٹھانے ہوں‌گے۔دوسری بات یہ ہے کہ جہاں کچھ ریاستوں نے اس کو منظور کیا ہے وہیں کچھ ریاست یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریپ  کی  ایف آئی آر درج مت کرو تاکہ ہمارا ریکارڈ اچھا نظر آئے۔بنچ  نے کہا کہ چونکہ نیشنل چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کا سوشل آڈٹ کر رہا ہے، اس لئے وہ کچھ کہنا نہیں چاہتے۔  لہذا ؛ابھی اس صورتحال کو رہنے دیں۔

بنچ نے وزارت کے وکیل سے کہا کہ وزارت کے جوائنٹ سکریٹری کو بلائیں تاکہ اس موضوع کو صحیح سے سمجھا جا سکے۔وکیل نے جب یہ کہا کہ وزارت  پالیسی تیار کرنے کے لئے جلد ہی ایک اجلاس بلائے‌گی تو عدالت نے کہا کہ اگر کسی دیگر موضوع پر دھیان مرکوز کیا جائے‌گا تو اجلاس بلانا مددگار نہیں ہوگا ۔  پالیسی تیار کرنا ایک پہلو ہے جبکہ ان بچوں اور لڑکیوں کی بازآبادکاری اور تحفظ ایک دوسرا پہلو ہے۔

اس معاملے میں نیائے متر کا کردار نبھا رہی وکیل اپرنا بہادر نے کہا کہ شیلٹر ہوم  میں بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیوں کا جنسی استحصال ہوا ہے اور بچوں کی دیکھ بھال والے ادارے اور ان کی بازآبادکاری اہم مدعا ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان اداروں کے سوشل آڈٹ کے اعداد و شمار اور رپورٹ کا تجزیہ کرنا ہوگا۔وزارت کے وکیل نے بنچ کو مطلع کیا کہ10 ریاستوں کے بارے میں نیشنل چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن کے سوشل آڈٹ کی رپورٹ مل گئی ہے۔

نیائےمتر  نے آندھر پردیش کے ایک شیلٹر ہوم میں رہنے والے 26 بچوں کے مبینہ طورپر جنسی استحصال کے واقعہ کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔  انہوں نے کہا کہ عدالت شیلٹر ہوم میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کے معاملوں میں کارروائی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔

اس پر بنچ نے وزارت کے وکیل سے کہا کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات پر اپنی اسٹیٹس رپورٹ ساتھ لانے کے لئے جوائنٹ سکریٹری سے کہیں۔اس سے پہلے ملک بھر‌کے شیلٹر ہوم میں بچوں کے جسمانی اور جنسی استحصال پر فکر ظاہر کرتے ہوئے عدالت  نے فکر کاا ظہار کیا تھا اور مرکزی حکومت سے بچوں کے سے متعلق  پالیسی بنانے کو کہا تھا۔عدالت نے بتایا تھا کہ وزارت کے ذریعے سال 2015 سے مارچ 2017 تک ایک سوشل آڈٹ کیا گیا تھا، جس میں پایا گیا تھا کہ 1575 بچے استحصال کے شکار ہوئے تھے اور اب شیلٹر ہوم میں رہ رہے ہیں۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)