ہندو مسلم بچوں کو الگ الگ بٹھانے کے معاملے میں این ڈی ایم سی کے اسکول انچارج سی بی سہراوت کو معطل کر دیا گیا ہے ،وہیں دہلی حکومت نے جانچ کے حکم بھی دیے ہیں۔
نارتھ دہلی سٹی کارپوریشن کا ایک اسکول ہے، وزیرآباد گاؤں میں۔ اس اسکول میں ہندو اور مسلمان اسٹوڈنٹس کو الگ الگ سیکشن میں بانٹ دیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی سوکرتا بروآ نے اسکول کے حاضری رجسٹر کا مطالعہ کرکے بتایا ہے کہ پہلی کلاس کے سیکشن اے میں 36 ہندو ہیں۔ سیکشن بی میں 36 مسلمان ہیں۔ دوسری کلاس کے سیکشن اے میں 47 ہندو ہیں۔ سیکشن بی میں 26 مسلمان اور 15 ہندو ہیں۔ سیکشن سی میں 40 مسلمان۔ تیسری کلاس کے سیکشن اے میں 40 ہندو ہیں۔
سیکشن بی میں 23 ہندو اور 11 مسلمان۔ سیکشن سی میں 40 مسلمان۔ سیکشن ڈی میں 14 ہندو اور 23 مسلمان۔ چوتھی کلاس کے سیکشن اے میں 40 ہندو، سیکشن بی میں 19 ہندو اور 13 مسلم۔ سیکشن سی میں 35 مسلمان۔ پانچویں کلاس کے سیکشن اے میں 45 ہندو، سیکشن بی میں 49 ہندو، سیکشن سی میں 39 مسلم اور 2 ہندو۔ سیکشن ڈی میں 47 مسلم۔
‘ اب آپ اس اسکول کے ٹیچر انچارج کا بیان سنیے۔ پرنسپل کا تبادلہ ہو گیا تو ان کی جگہ اسکول کا چارج سی بی سہراوت کے پاس ہے۔ سیکشن کی تبدیلی ایک معیاری طریقہ کار ہے۔ تمام اسکولوں میں ہوتا ہے۔ یہ مینجمنٹ کا فیصلہ تھا کہ جو سب سے اچھا ہو کیا جائے تاکہ امن بنا رہے، ڈسپلن ہو اور پڑھنے کا اچھا ماحول ہو۔ بچوں کو مذہب کا کیا پتا، لیکن وہ دوسری چیزوں پر لڑتے ہیں۔ کچھ بچے سبزی کھانے والے ہیں اس لئے فرق ہو جاتا ہے۔ ہمیں تمام اساتذہ اور اسٹوڈنٹس کے مفادات کا دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ ‘
کیا یہ صفائی کافی ہے؟ اس لحاظ سے مذہب ہی نہیں، سبزی کھانے والے اور گوشت کھانے والے کے نام پر بچوں کو بانٹ دینا چاہیے۔ ہم کہاں تک تقسیم ہوتے چلے جائیںگے، تھوڑا رک کر سوچ لیجیے۔ سوکرتا بروآ نے اسکول میں دوسرے لوگوں سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے سہراوت جی آئے ہیں تبھی سے یہ بٹوارہ ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی شکایت بھی کی ہے مگر تحریری طور پر کچھ نہیں دیا ہے۔ کچھ سیکشن کو صاف صاف ہندو-مسلم میں بانٹ دیا ہے۔ کچھ سیکشن میں دونوں کمیونٹی کے بچے ہیں۔ سوچیے اتنی سی عمر میں یہ بٹوارہ ۔ اس سیاست سے کیا آپ کی زندگی بہتر ہو رہی ہے؟
سیاست ہمیں لگاتار بانٹ رہی ہے۔ وہ مذہب کے نام یکجہتی کا ہنکار بھرتی ہے مگر اس کا مقصد ووٹ اکٹھاکرنا ہوتا ہے۔ ایک قسم کا عدم تحفظ پیدا کرنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ آپ مذہب کے نام پر جب یکجا ہوتے ہیں تو آپ خود کو آئین سے ملے حقوق سے الگ کرتے ہیں۔ اپنی شہریت سے الگ ہوتے ہیں۔ اصلی بٹوارہ اس سطح پر ہوتا ہے۔ ایک بار آپ اپنی شہریت کو ان مذہبی دلیلوں کے حوالے کر دیتے ہیں تو پھر آپ پر اس سے بننے والی بھیڑ کا قبضہ ہو جاتا ہے جس پر قانون کا راج نہیں چلتا۔ بےسہارا لوگوں کا گروہ مذہب کے نام پر جمع ہوکر ملک کا بھلا نہیں کر سکتا ہے، مذہب کا تو رہنے دیجیے۔
آپ ہی بتائیے کہ کیا اسکولوں میں اس طرح کا بٹوارہ ہونا چاہیے؟ باقاعدہ ایسا کرنے والے استاد کی ذہنیت کی نفسیاتی جانچ ہونی چاہیے کہ وہ کن باتوں سے متاثر ہے۔ اس کو ایسا کرنے کے لئے کس نظریہ نے متاثر کیا ہے۔ قومیت کسی مذہب کی بپوتی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ اگر مذہب میں قومیت ہوتی، شہریت ہوتی تو پھر خود کو ہندو راشٹر کا ہندو کہنے والے کبھی کرپٹ ہی نہیں ہوتے۔ سب کچھ ایمانداری سے کرتے۔ جوابدہی سے کرتے۔
ہندو-ہندو یا مسلم-مسلم کرنے کے بعد بھی میونسپلٹی سے لےکر تحصیل تک کے دفتروں میں بد عنوانی بھی کرتے ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ ان سوالوں کا حل مذہب سے نہیں ہوگا۔ شہری حقوق سے ہوگا۔ کوئی اسپتال لوٹ لےگا تو آپ کسی مذہبی تنظیم کے پاس جانا چاہیںگے یا قانون سے ملے حقوق کا استعمال کرنا چاہیںگے۔ اس لئے ہندو تنظیم ہوں یا مسلم تنظیم ان کو مذہبی کاموں کے علاوہ سیاسی اسپیس میں آنے دیںگے تو یہی حال ہوگا۔
مذہب کا رول صرف اور صرف ذاتی ہے۔ اگر ہے تو۔ اس کی وجہ سے شہری زندگی میں اخلاقیات نہیں آتی ہے۔ شہری زندگی کی اخلاقیات آئینی ذمہ داریوں سے آتی ہے۔ قانون توڑنے کے خوف سے آتی ہے۔ نشانت اگروال کا قصہ جانتے ہوںگے۔ برہموس ایئراسپیس پرائیویٹ لمیٹڈ میں سینئر انجینئر ہیں۔ یہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے گئے ہیں۔ ان کو پاکستانی ہینڈلر نے امریکہ میں اچھی تنخواہ والی نوکری کا وعدہ کیا تھا۔ جانچ ایجنسی پتا لگا رہی ہے کہ انہوں نے برہموس میزائل سے جڑی جانکاریاں سرحد پار کی تنظیم کو تو نہیں دے دی ہے۔
ابھی جانچ ہو رہی ہے تو کسی نتیجہ پر پہنچنا ٹھیک نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹ میں چھپا ہے کہ اگروال کے کئی فیس بک اکاؤنٹ تھے۔ جس پر انہوں نے اپنا پروفیشنل تعارف شیئر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے پھنسانے کی کوشش بھی کی ہو۔ کئی لوگوں نے لکھا کہ اگر نشانت کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا تو ابھی تک سوشل میڈیا پر مہم چل پڑتی۔ بحث ہونے لگتی۔ ایک تو میڈیا اور سوشل میڈیا کا ٹرائل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس میں بھی اگر یہ میڈیا ٹرائل فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے لگے تو نتیجے کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
ہم اب جاننے کے لئے نہیں، رائے بنانے کے لئے اطلاع لیتے ہیں۔ اس لئے ڈبیٹ دیکھتے ہیں۔ جس میں نظریات کا میچ ہوتا ہے۔ ہمیں روز کچھ چاہیے جس سے ہم اپنے نظریہ کو مضبوط کر سکیں۔ نتیجہ یہی ہو رہا ہے۔ جو آپ کو اسکول میں نظر آیا اور جو آپ کو نشانت کے کیس میں دکھا۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا تھا ، جس کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔)
Categories: فکر و نظر