میری کہانی کو خارج کرتے ہوئے اکبر اپنے ’پلائی ووڈ اور کانچ کے چھوٹےسے کیوبیکل‘میں چھپ رہے ہیں۔ یا تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا ان پر عمر کا اثر ہونے لگا ہے۔
اپنے بچاؤ میں پیش کئے ایم جے اکبر کے کمزور اور رٹی-رٹائی باتوں سے بھرے بیان میں صرف ایک جملہ بالکل سچ ہے-‘جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، لیکن ان میں زہر ہوتا ہے۔ ‘اصل میں، جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے، اسی وجہ سے وہ زیادہ دور نہیں جا پاتا۔
زیادتی اور استحصال کی میری کہانی کو خارج کرتے ہوئے اکبر اپنے مبینہ’پلائی ووڈ اور کانچ کے چھوٹےسے کیوبیکل’میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یا تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا ان پر عمر کا اثر ہونے لگا ہے۔ میں دوسری بات پر یقین کرنا پسند کروںگی، تو اس لئے ان کی یاد تازہ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ ہے۔
1993 میں جنوبی دہلی کے ایک شہری گاؤں کھڑکی ایکسٹینشن سے ایشین ایج کا آغاز ہوا تھا۔ اسی سال کے آخر تک یہ سوریہ کرن بلڈنگ کی دوسری منزل پر شفٹ ہو گیا۔یہی میں اس سے جڑی تھی۔ یہاں ایک بڑا-سا ہال تھا، جس میں گھوڑے کی نال کی ساخت کا مین ورک اسٹیشن تھا، جس کو چیف سب-ایڈیٹر کوشک متر سنبھالتے تھے۔
یہاں بھی اکبر کا ایک کیبن بنا ہوا تھا۔یہ پلائی ووڈ اور کانچ کا ہی بنا رہا ہوگا (اور کس مٹیریل سے آفس کا انٹیریئر بنتا ہے؟ )لیکن یہ کانچ شفاف نہیں تھا اور وہ ہمیشہ اپنا دروازہ بند رکھتے تھے۔ ایشین ایج کا یہ دفتر اتنا چھوٹا تھا کہ یہاں ایک ٹوائلٹ تک نہیں تھا۔ضرورت پڑنے پر ہم پاس کے اے ایف پی آفس کا ٹوائلٹ استعمال کرتے تھے۔
1995 کے درمیان یا 1996 کی شروعات میں اکبر، ایشین ایج بیورو اور فیچر سیکشن کے ساتھ سوریہ کرن سے نکلکر سامنے کی وندنا بلڈنگ کی چوتھی منزل پر شفٹ ہو گئے۔یہ ایک عارضی انتظام تھا کیونکہ سوریہ کرن والے دفتر میں رینوویشن کا کام چل رہا تھا۔ہم یہاں تقریباً سال بھر تک رہے اور 1997 کی شروعات میں سوریہ کرن کے نئے، بڑے سے اسٹائلیش دفتر میں لوٹے۔
یہ نسبتاً بڑا دفتر ہے، جہاں کم لوگ تھے۔ نئی ڈیسک کو سوریہ کرن کے الگ منزل پر شفٹ کر دیا گیا تھا۔
کانچ اور لکڑی والا وہ کیبن
اسی دفتر میں میری ڈیسک اکبر کے آفس کے باہر ایک چھوٹےسے کونے میں لگائی گئی تھی۔ جی ہاں، یہ ایک آفس ہی تھا۔ یہ بڑا تھا۔ ان کی ایک بہت بڑی پالش کی گئی لکڑی کای ڈیسک تھی(جس پر لائن سے کئی گنیش رکھے تھے)اور اسی کے ساتھ لگا ایک چھوٹا ورک اسٹیشن بھی تھا۔
ان کی سیٹ کے پیچھے لکڑی کی چمچماتی ہوئی کیبنیٹ(الماریاں)تھیں، جس میں نیچے سامان رکھنے کی جگہ تھی اور اوپر بک شیلف۔ کمرے کے دوسرے کونے پر ان کی ڈیسک کے بالکل سامنے ایک تپائی پر بہت موٹی ڈکشنری رکھی ہوتی تھی۔
اکبر ہم سب سے کتنے الگ ہیں، اس کو لےکر میں دفتر میں کئی بار بات ہوتی کہ ان کا کمرہ ساؤنڈ پروف ہے۔اور سچ میں ایسا ہو سکتا تھا، کیونکہ ان کے پچھلے دونوں (سوریہ کرن اور وندنا بلڈنگ) کیبن کے برعکس، اس کمرے میں جب وہ چلاتے تھے، ٹھیک باہر بیٹھے ہونے کے باوجود مجھے بےحد دھیمی آواز سنائی دیا کرتی۔
اس سے پہلے کے ان کے کیبن میں جب بھی وہ کسی صحافی پر یا فون پر کسی بیچارے پر زور زور سے چلاتے، تب دفتر کیا شاید پوری بلڈنگ میں ان کی آواز گونجتی تھی۔ نئے آفس میں ایسا نہیں تھا، جہاں سب-ایڈیٹر کے لئے پلائی ووڈ اور کانچ سے بنٹے الگ الگ ورک اسٹیشن تھے، لیکن بیورو چیف کے لئے ایک کھلا کیوبیکل!
بچاؤ میں ان کا دوسرا پہلو تھا کہ میں نے وینو صندل، جنہوں نے انڈین ایکسپریس کو دئے ایک انٹرویو میں میرے الزامات کو بکواس بتایا ہے، سے ان کی شکایت کی تھی۔ دکھ کی بات ہے کہ عمر کا اثر ان کی یادداشت پر بھی ہو رہا ہے۔ میں نے وینو سے کبھی شکایت نہیں کی، بلکہ میرے مضمون میں، ان کی مجھ سے اکبر کی طرفداری کرنے کو لےکر ان کے بارے میں اپنی شکایت لکھی۔
اسی طرح، میں نے ان کے ساتھ کام کرنا جاری نہیں رکھا۔ جیسا کہ میں نے لکھا ہے، ان کی سکریٹری رچنا گروور کو اپنا استعفی سونپتے ہوئے میں نے نوکری چھوڑ دی تھی۔
رچنا ایشین ایج میں کام کرنے کے دوران سے ہی میری دوست رہی ہیں۔ اور جو کچھ میرے ساتھ ہوا، وہ نہ صرف اس کے گواہ ہیں، بلکہ ان کی بھی جو مجھ سے پہلے اور بعد میں آئیں۔ میں ان کے اکبر کے بچاؤ میں اترنے کی مجبوری سمجھتی ہوں، جس کے چلتے انہوں نے فری پریس جرنل کو بیان دیا۔
دلچسپ یہ ہے کہ اکبر کی طرح ان کا بچاؤ بھی اکبر کے آفس کے مبینہ طور پرچھوٹے ہونے کے ارد-گرد ہی ہے۔
اکبر کے ماضی کے سامنے آنے کے بعد ایشین ایج کے پرانے شریک کاروں اور دوستوں سے ہوئی بات چیت کے کچھ اسکرین شاٹ اس مضمون کے ساتھ لگائے ہیں۔ اس میں رچنا سے ہوئی بات چیت بھی ہے، جہاں انہوں نے کہا کہ ان کو میری کہانی کے بارے میں پتا تھا اور کہا، ‘یہ صحیح ہے لیکن باقی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجھے معاف کرنا رچنا، میں تم کو اس میں نہیں گھسیٹنا چاہتی تھی۔ تم نے میرا ساتھ تب دیا، جب مجھے اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اور یہ بات بہت معنی رکھتا ہے۔
(غزالہ وہاب فورس نیوز میگزین کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور ڈریگن آن یور ڈوراسٹیپ:منیجنگ چائنا تھرو ملیٹری پاور کی معاون مصنفہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر