28 ستمبر کو گجرات کے سابرکانٹھا ضلعے میں 14 مہینے کی معصوم سے ریپ کا الزام بہار کےرہنے والے ایک آدمی پر لگنے کے بعد ریاست کے آٹھ ضلعوں میں شمالی ہندوستان کے مزدوروں کے خلاف تشدد شروع ہو گیا جس کے بعد وہاں سے نقل مکانی جاری ہے۔
13 اکتوبر کی صبح اپنے طےشدہ وقت سے قریب چار گھنٹے کی دیری کے بعد جب نو بجے عظیم آباد ایکسپریس پٹنہ اسٹیشن پہنچی تو ٹرین سے اترنے والے زیادہ تر مسافروں کے چہرے پر گھر لوٹنے کی خوشی نہیں تھی۔ آخر ہوتی بھی کیسے، یہ اپنی خواہش سے تو بہار لوٹے نہیں ہیں۔ ان کو تو مجبور ہوکر آنا پڑا ہے۔ یہاں سے گجرات جاتے وقت ان کی آنکھوں میں جو خواب دکھتےتھے، ان میں اب سوناپن دکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگ کچھ بولنا نہیں چاہ رہے تھے۔ ان کو دیکھکر لگتا ہے کہ ان کے من میں کڑوا-سا کچھ گھل رہا ہے۔
عظیم آباد ایکسپریس 10 اکتوبر کی رات ساڑھے 9 بجے احمد آباد سے کھلی اور قریب 36 گھنٹے کے سفر کے بعد پٹنہ اسٹیشن پہنچی تھی۔ ٹرین کے سبھی جنرل ڈبے کھچاکھچ بھرے ہوئے تھے۔ سلیپر کوچ میں بھی برتھ سے زیادہ پیسنجر تھے۔ 28 ستمبر کو گجرات کے سابرکانٹھا ضلعے کے ہمت نگر میں 14 مہینے کی ایک معصوم بچی سے ریپ کا الزام بہار کے رویندر ساہو پر لگنے کے بعد گجرات کے آٹھ ضلعوں میں یوپی-بہار کے رہنے والوں کے خلاف شروع ہوئے تشدد کے بعد اس طرف سے آنے والی تمام ٹرینوں کے ڈبوں کی صورت حال ایک سی ہے۔ ٹرین بھرکر لوگ بہار لوٹ رہے ہیں۔
عظیم آباد ایکسپریس سے ہی بھاگل پور میں اپنے گاؤں اکبرنگر لوٹے بیجندر کمار کے لئے گجرات ایک خوفناک خواب ثابت ہوا ہے۔ بیجندر کمار احمد آباد کے نندیشوری میں ایک گیس کمپنی میں کام کرتے تھے۔ وہاں ان کی تنخواہ 10 ہزار روپے مہینہ تھی۔ آٹھ اکتوبر کی رات ان کے اور ان کے دوستوں کے کوارٹروں پر پتھراؤ کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ 10 اکتوبر تک وہ لوگ گجرات خالی کر دیں، ورنہ انجام برا ہوگا۔ پتھراؤ میں کچھ لوگوں کو چوٹیں بھی آئیں۔
بیجندر کمار نے کہا، ‘ حملہ آور ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے۔ 8 اکتوبر کی رات حملہ کرنے کے بعد نو تاریخ کو بھی وہ لوگ ہمارے کوارٹروں کے آس پاس لاٹھی-ڈنڈا لئے ہوئے نظر آئے تھے۔ ہم لوگ ڈرے ہوئے تھے اور گھروں میں دُبکے تھے۔ تشدد کی وجہ سے کئی دنوں سے فیکٹری بھی بند تھی۔ ‘ 10 اکتوبر کو بیجندر اور ان کے دوسرے معاونوں نے نندیشوری سے بس پکڑی اور وڈودرا آ گئے، وہاں سے ٹرین پکڑکر جمعہ کی رات گھر پہنچے۔ وہاں ڈر کا عالم یہ تھا کہ لوگوں کو بنا پوری تنخواہ لئے ہی لوٹنا پڑا ہے۔
بیجندر نے کہا، ‘ میری تنخواہ 10 ہزار بنتی تھی، لیکن چار ہزار روپے ہی مالک نے دیا۔ وہی لےکر لوٹ آیا ہوں۔ چھے ہزار روپے تو ڈوب ہی گئے، لیکن راحت یہی ہے کہ صحیح سلامت گھر لوٹ گیا ہوں۔ میرے ساتھ آئے دوسرے لوگوں کو بھی پوری تنخواہ نہیں مل پائی ہے۔ ‘ بیجندر کمار کی تین لوگوں کی فیملی ہے۔ بیجندر پڑھائی کرتے تھے۔ پڑھائی چھوڑ کر کام کرنے گجرات گئے تھے۔ گجرات سے تو لوٹ آئے، اب کیا کریںگے؟ اس سوال پر بیجندر نے کہا، ‘ یہی مزدوری کروںگا، لیکن گجرات میں پھر کبھی پاؤں نہیں رکھوںگا۔ ‘
8 اکتوبر کے حملے کے بعد سے فیکٹری مالک نے بھی بہت مدد کی۔ کھانےپینے کا انتظام کارخانہ کے مالک نے کیا تھا، تاکہ ان کو کھانے-پینے کے سامان کے لئے کوارٹر سے باہر نہیں نکلنا پڑے۔ عظیم آباد ایکسپریس سے ہی اترے نوین کمار کہتے ہیں، ‘ سارا ماحول آپ کو معلوم ہی ہے۔ دنگا -فساد ہو رہا ہے۔ بہاری لوگوں کو وہاں سے بھگانا چاہ رہے ہیں۔ ‘ نوین کمار مکامہ کے رہنے والے ہیں۔ وہ احمد آباد کے اسلالی میں ایک گار منٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ وہاں ان کو 12 ہزار روپے فی مہینہ ملتے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘ ہم لوگ جہاں رہتے تھے، اس کے پاس اسلالی موڑ پر بہاری لوگوں کو مقامی لوگوں نے بہت مارا-پیٹا تھا۔ ہم لوگ فیکٹری کے اندر اسٹاف کوارٹر میں رہتے تھے، لیکن ڈر تو ہمارے اندر بھی پھیلا ہوا تھا۔ ادھر، گھر کے لوگ بھی بہت فکر مند تھے، اس لئے ہم لوٹ آئے۔ ‘ عظیم آ باد ایکسپریس سے لوٹے محمد سرفراز وہاں میٹرو میں کام کرتے تھے۔ 12 ہزار روپے مہینہ ملتا تھا۔ وہ کچھ مہینے پہلے ہی گئے تھے، لیکن ان کو بھی لوٹنا پڑا۔ انہوں نے کہا، ‘ دل میں ڈر بیٹھا ہوا تھا۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو جاتا، اس لئے لوٹ آیا۔ ‘
سرفراز لکھی سرائے کے رہنے والے ہیں۔ ان کے پاس تھوڑی زمین ہے جس پر زراعت کر پانچ لوگوں کا پیٹ پالنا ممکن نہیں ہے، اس لئے گجرات سے لوٹنا ان کے لئے بہت مشکل فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ یہاں بیٹھے رہنے سے تو گھر نہیں چلنے والا ہے۔ بہار میں روزگار کہاں ہے؟ مجھے کہیں نہ کہیں تو جانا ہی ہوگا۔ دہلی یا پنجاب جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ‘
بہاریوں پر حملے کو لےکے بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے بہاریوں پر ہو رہے حملوں کو لےکر گجرات کے وزیراعلیٰ وجئے روپانی سے فون پر بات کی ہے۔ نتیش کمار نے ان سے کہا ہے، ‘ ہمارے ڈی جی پی اور چیف سکریٹری گجرات انتظامیہ کے رابطہ میں ہیں۔ ہم وہاں کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میں وہاں رہنے والے بہاریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بھلےہی جو بھی حادثہ ہوا ہو، جو جہاں ہے، وہیں بنا رہے۔ ‘ بہار کے ڈپٹی سی ایم سشیل کمار مودی کا کہنا ہے کہ گجرات میں بہاری محفوظ ہیں اور وہاں کی انتظامیہ تشدد میں شامل لوگوں پر کڑی کارروائی کر رہی ہے۔
انہوں نے کانگریس رہنما الپیش ٹھاکور پر تشدد کا الزام لگاتے ہوئے راہل گاندھی کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔ کانگریس رہنما الپیش ٹھاکور نے ان الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے، ‘ میری کمیونٹی پر تشدد کا الزام لگانے اور میرا نام اس میں گھسیٹنے کی سازش ہے۔ یہ میرا سیاسی کیریئر ختم کرنے کا بی جے پی کا گھٹیا سیاسی کھیل ہے۔ ‘ وہیں اس تشدد کے لئے آر جے ڈی نے گجرات کے وزیراعلیٰ وجئے روپانی کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔
ادھر، بچی سے ریپ کے معاملے میں گرفتاری کے بعد سے لےکر ابتک شمالی ہندوستانیوں پر حملے کی درجنوں وارداتیں ہو چکی ہیں، جن میں 500 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حملے کے معاملوں کو دیکھتے ہوئے گجرات کے چیف سکریٹری ڈاکٹر جے این سنگھ نے تمام ضلع کلکٹروں اور پولیس افسروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مہاجر مزدوروں سے ملکر تحفظ کو لےکے ان کو مطمئن کریں اور مہاجر اور مقامی لوگوں کے درمیان کشیدگی اور تشدد کا ماحول بنانے کی کوشش کرنے والوں پر کارروائی کریں۔
حساس علاقوں میں پولیس فورس بھی تعینات کی گئی ہے۔ گجرات میں کتنے بہاری رہتے ہیں، اس کا کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے، لیکن گجرات میں کام کرنے والے بہاری کمیونٹی کی تنظیم بہار ڈیولپمنٹ کاؤنسل کے مطابق گجرات میں قریب 15 لاکھ بہاری رہ رہے ہیں۔ ان میں کچھ کاروباری بھی ہیں، لیکن ایک بڑی آبادی وہاں کے کارخانوں میں کام کرتی ہے۔
بہار ڈیولپمنٹ کاؤنسل کے چیئر مین کے کے شرما نے فون پر بتایا، ‘ ہم نے ابتک متاثر علاقوں کا دورہ نہیں کیا ہے، لیکن معاملے کو لےکر ڈی جی پی اور چیف سکریٹری سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔ ‘ گجرات کی حکومت بھلےہی یہ یقین دہانی دے رہی ہے کہ حالات قابو میں ہیں، لیکن اس واقعہ کے بعد مہاجر شمالی ہندوستانیوں کے ذہن میں یہ ڈر مستقل جگہ بنا چکا ہے کہ آگے بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں۔
گجرات سے لوٹنے والے نوین کمار کہتے ہیں، ‘ کھیتی-باڑی اور دوسروں کے کھیت میں محنت-مزدوری کر کسی طرح چلا لیںگے، لیکن اب گجرات نہیں جائیںگے۔’ بھاگل پور کے کشن پور گاؤں کے رہنے والے بھولی منڈل پچھلے چار سالوں سے گجرات کے بھروچ ضلعے کے انکلیشور میں کپڑوں کے لئے رنگ بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کر رہے ہیں۔ بھروچ میں کسی طرح کا تشدد نہیں ہوا ہے، لیکن ڈرے ہوئے وہ بھی ہیں۔
انہوں نے فون پر بتایا، ‘ دو بیٹے-دو بیٹیوں اور فیملی کے دوسرے لوگوں کا خرچ گجرات کی کمائی سے چلتا ہے۔ کل اگر تشدد کی چپیٹ میں ہمارا علاقہ آ گیا تو بہار ہی لوٹنا پڑےگا، لیکن وہاں جاکر اینٹا-پتھر ڈھونے کے سوا کیا کام ملےگا؟ ‘ پچھلے چار سالوں میں کبھی بھی وہ اتنے ڈرے ہوئے نہیں تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ گجرات میں نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس واقعہ کے بعد سے دل میں بہت ڈر سمایا ہوا ہے۔ ‘
وہ اس نقل مکانی کے لئے نتیش حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ بھولی منڈل کہتے ہیں، ‘ اتنے سالوں میں بھی نتیش کمار نے کچھ نہیں کیا۔ گجرات میں 16000 کارخانے ہیں۔ اگر اتنے کارخانے بہار میں ہوتے، تو میں بہار سے یہاں آتا ہی کیوں؟ ‘ گجرات میں شمالی ہندوستانیوں پر تشدد کی اہم وجہ ریپ ہے، لیکن کچھ حد تک گجرات کے اہلکاروں میں شمالی ہندوستانیوں کے تئیں بڑھتی ناراضگی کا بھی اثر ہے۔ گجرات کی عوام کو اب لگنے لگا ہے کہ شمالی ہندوستان سے آنے والے لوگ ان کی نوکری کھا رہے ہیں۔
گجرات حکومت کو بھی اس کا بخوبی احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات حکومت ایک قانون لانے جا رہی ہے جس میں پیداوار اور سروس سیکٹر میں 80 فیصد کامزدوروں کی تقرری گجرات سے کرنی ہوگی۔ پچھلے مہینے ہی وجئے روپانی نے اس کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘ گجرات میں آپریشن شروع کرنے کے خواہش مند پیداوار اور سروس سیکٹر کے صنعت کاروں کو 80 فیصد تقرری گجراتیوں کی کرنی ہوگی۔ ‘
بہار اور اتر پردیش کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان دونوں ریاستوں سے جو نقل مکانی ہوتی ہے وہ دراصل افسوسناک ہے۔ یعنی کہ یہاں سے لوگ گجرات یا دوسری ریاستوں میں بہتر مواقع کی وجہ سے نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے نوکری کرنے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوین کمار کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان سے جب ہم نے پوچھا کہ وہ گجرات کیوں گئے، تو انہوں نے کہا، ‘ ہماری طرف اس سال سیلاب آیا تھا، اس لئے سوچا کہ کچھ دن باہر چلے جائیں اور کچھ کما لیں۔ ‘
دوسری ریاستوں سے گئے لوگوں کے پاس مقامی لوگوں کی طرح زیادہ تنخواہ مانگنے کے لئے مول بھاؤ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ لہذا کارخانہ مالک پیسہ بچانے کے لئے کم تنخواہ پر ان کو رکھ لیتے ہیں۔ 34 سالوں سے گجرات کے سورت میں رہ رہے کےکے شرما کہتے ہیں، ‘ گجراتیوں کے من میں یہ بات آہستہ آہستہ گھر کرنے لگی ہے کہ بہاری ان کی نوکری چھین رہے ہیں۔ لہذا ایک نہ ایک دن یہ آگ بھڑکےگی ضرور۔ آج بھڑکے یا20-10 سال بعد۔ ‘
قابل ذکر ہے کہ 2005 میں بہار میں جب نتیش کمار کی سرکار بنی تھی، تو اس کے قریب سات سال بعد بہار کے مزدور محکمے نے دعویٰ کیا تھا کہ 2008 سے 2010 کے درمیان بہار سے نقل مکانی میں 35 سے 40 فیصد کی گراوٹ آئی تھی۔ مزدور محکمے نے یہ بھی کہا تھا کہ پہلے 15 سے 20 لاکھ مزدور ہرسال بہار سے باہر چلے جاتے تھے، لیکن اب ان کو بہار میں ہی روزگار مل رہا ہے۔ لیکن، عظیم آباد ایکسپریس سے اترنے والے لوگوں سے بات چیت ہوئی تو کئی لوگوں نے بتایا کہ پچھلے5-4 سالوں سے وہ گجرات میں رہنے لگے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نوکری کے لئے بہار سے نقل مکانی بدستور جاری ہے۔
سوشل سائنٹسٹ ڈی ایم دیواکر کہتے ہیں، ‘ منریگا کے تحت روزگار میں بہار پھسڈی ہے۔ حال کے سالوں میں زراعت کی بھی حالت خراب رہی۔ ریاست میں کوئی نیا صنعتی کام ہو نہیں رہا ہے اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے الگ مشکلیں پیدا کر دیں۔ کل ملاکر جو صورت حال نظر آ رہی ہے، ان میں نقل مکانی کم ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ بلکہ یہ بڑھی ہی ہے۔ ‘ ڈی ایم دیواکر بھی مانتے ہیں کہ گجرات میں جاری تشدد میں بہت زیادہ نہیں بھی ہو تو تھوڑا رول نقل مکانی کا ضرور ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ بہار حکومت نے اتنے سالوں میں بھی نقل مکانی روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ نتیجتاً بہار کے لوگ کام کرنے کے لئے گجرات سمیت دوسری ریاستوں کا رخ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، کام-دھندے میں مشینی مداخلت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ روزگار کے موقع سکڑتے جا رہے ہیں۔ ‘ ڈی ایم دیواکر، ‘ ایسے میں مقامی لوگوں میں یہ جذبہ تو مضبوط ہوگا ہی کہ باہر کے لوگ ان کا روزگار مار لے جا رہے ہیں۔ لہذا اس تشدد میں اس عنصر (روزگار) کو خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہار حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کر نقل مکانی روکے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر