ہندوستان میں کینسر کو لےکر کوئی ضد کسی رہنما میں نظر نہیں آتی۔ کینسر ہوتے ہی مریض کے ساتھ پوری فیملی برباد ہو جاتی ہے۔ کئی ادارے کینسر کے مریضوں کے لئے کام کرتے ہیں مگر اس کو لےکر ریسرچ کہاں ہے، بیداری کہاں ہے، تیاری کیا ہے؟
بی جے پی کے رہنما اننت کمار کا انتقال ہو گیا ہے۔ اننت کمار کرناٹک بی جے پی کے بڑے رہنما رہے ہیں۔ اننت کمار کی عمر کوئی بہت زیادہ نہیں تھی لیکن کینسر نے ان کی سیاسی سرگرمی ختم کر دی۔ بی جے پی کے ایک اور رہنما اور گووا کے وزیراعلیٰ منوہر پریکر کینسر سے جوجھ رہے ہیں۔ اسی طرح ملک کے لاکھوں لوگ اس بیماری کی چپیٹ میں ہیں۔
اپنی زندگی کو تحمل سے جینے والے ماہرماحولیات انوپم مشر بھی کینسر سے بچ نہیں سکے جبکہ انہوں نے کھانے پینے میں ڈسپلن کبھی نہیں توڑا۔ کئی آشنا اس بیماری کی چپیٹ میں ہیں۔ اننت کمار کی فیملی کو تسلی پہنچے اور ملک میں اس بیماری کو لےکر بحث چھڑے۔ سنیل دت نے کئی دہائی پہلے ‘ درد کا رشتہ ‘ فلم بنائی تھی۔ مشہور فلم ‘ آنند ‘ بھی کینسر کی ایک قسم پر تھی۔
ہندوستانی بر صغیر میں عمران خان کو کرکٹ کے باہر کینسر کے اسپتال کے لئے ہی جانا گیا۔ جو انہوں نے اپنی ماں کی یاد میں بنائی تھی۔ تب تک لگتا تھا کہ کینسر بڑے لوگوں کی بیماری ہے مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کی چپیٹ میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔غریب بھی اور امیر بھی۔منموہن سنگھ کے وقت جب غلام نبی آزاد وزیر صحت تھے تب جھجر میں ایمس کا کینسر کے لئے الگ سے کیمپس بنانے کا منصوبہ بنا تھا۔
2010 میں سنگ بنیاد بھی رکھی گئی مگر 8 سال گزر جانے کے بعد اس کیمپس کا پہلا مرحلہ پورا ہو رہا ہے۔ وہ بھی سابق ہیلتھ سکریٹری سی کے مشرا کی مستعدی کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی اس کیمپس کا افتتاح کریں۔ لیکن ابھی منزل بہت دور ہے۔ ایمس کا ڈاکٹر بی آر امبیڈکر آئی آر سی ایس سینٹر ہی واحد جگہ ہے جہاں غریب سے لےکر وی آئی پی کا کم خرچ میں علاج ہو جاتا ہے۔
باقی اسپتالوں کا حال بہت برا ہے۔ دہلی کے آس پاس پہلے کینسر کے چار-پانچ ہاسپٹل تھے، اب تیس سے چالیس کے قریب کھل گئے ہیں۔ پرائیویٹ ہی زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر ابھشیک نے بتایا کہ برٹن میں دس لاکھ کی آبادی پر ریڈی ایشن تھریپی کی چار سے پانچ مشینیں ہیں۔ ہندوستان میں ایک مشین ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستان کو 1300 ریڈی ایشن کی مشینیں چاہیے۔ اس وقت پرائیویٹ اور سرکاری ملاکر 600-650 مشینیں ہی ہیں۔ ایک مشین8-7 کروڑ کی آتی ہے۔
ہندوستان کو ابھی بنیادی ڈھانچہ بنانے کی سمت میں کام کرنا ہے۔ کام ہو رہا ہے مگر ریاستوں کی سطح پر حالت اچھی نہیں ہے۔ ہندوستان کے وزیر صحت جے پی نڈا ہیں جو اس وقت تلنگانہ ریاست کے الیکشن انچارج ہیں۔ کچھ وقت پہلے اپنی ریاست ہماچل پردیش میں وزیراعلیٰ بننے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ اس سے پہلے اتراکھنڈ کے الیکشن انچارج تھے۔
وزیر جی ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ وزیر صحت کب تھے! اتنی اہم وزارت سنبھالنے والا شخص اگر انتخابات میں مصروف رہےگا تو ہیلتھ کو لےکر کب فعال ہوگا۔ وزراء کو بھی اپنے دوست کو کھو دینے کے دکھ کی اس گھڑی میں ان سوالوں کو بھی بےحد سختی سے دیکھنا ہوگا۔ اوباما جب صدر تھے تب ان کے ساتھ جو بڈین نائب صدر تھے۔ ان کے بیٹے کو کینسر ہوا۔ نائب صدر ہوتے ہوئے بھی بڈین اپنے بیٹے کے علاج کا خرچ نہیں اٹھا سکے۔ گھر بیچنے کی نوبت آ گئی تھی۔
بیٹے کی موت کے بعد بڈین نے کہا کہ وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ لےکر کینسر کے خاتمے اور روک تھام کے لئے کام کریںگے۔ بڈین اور ان کی بیوی نے امریکہ بھر میں دورہ کیا۔ کینسر پر ریسرچ کرنے والوں سے بات کی۔ اسپتالوں کا دورہ کیا۔ ڈاکٹروں سے سمجھا۔ پھر پانچ سال کا ایک پروگرام تیار کیا۔ جس کو اوباما نے منظور کیا تھا۔ اس کو وائٹ ہاؤس مون شاٹ پروگرام کہا جاتا ہے۔اس کا ہدف ہے کینسر سے بچانے کی ریسرچ اور تدبیروں کو جلدی انجام پر پہنچانا۔
امریکہ میں ہرسال پانچ لاکھ لوگ کینسر سے مر جاتے ہیں۔ 2016 میں 17 لاکھ امریکن کو کینسر تھا۔ ہندوستان میں یہ اعداد و شمار یقیناً زیادہ ہوگا۔ بڈین نے قانون بھی پاس کرایا جس کو The 21st Century Cures Act کہتے ہیں۔ اس کے تحت کینسر مون شاٹ پروگرام کو اگلے سات سال میں 1.8 ارب ڈالر دیا جائےگا۔ بڈین اس ایکٹ کو لےکر اتنے فعال تھے کہ خود 20 سنیٹر سے ملاقات کی۔ اس ایکٹ کے لئے راضی کیا۔
کاش ایسی ضد ہندوستان کے کسی رہنما میں آ جائے۔ کینسر ہوتے ہی مریض کے ساتھ پوری فیملی برباد ہو جاتی ہے۔ کئی ادارے کینسر کے مریضوں کے لئے کام کرتے ہیں مگر اس کو لے کر ریسرچ کہا ں ہے، بیداری کہاں ہے، تیاری کیا ہے؟
(بہ شکریہ رویش کمار فیس بک پیج)
Categories: فکر و نظر