کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا خیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اب اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔
مدھیہ پردیش کے رائےدہندگان کو کانگریس وعدہ کر رہی ہے کہ وہ گائےکاپیشاب کے تجارتی استعمال کا انتظام کرےگی۔ گلی گلی گئوشالا کھولنا تو اب کچھ عجوبہ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ گائےکاپیشاب، گوبر، گئوشالا وغیرہ پر جو بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)نے اپنی جو اجارہ داری سمجھ رکھی تھی، کانگریس اب اس کو چیلنج دے رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حماقت کی قومی مہم میں بھی کمر کسکے اتر پڑی ہے۔
اس سے ایک اور شک ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے شاید بی جے پی ہندوؤں کو پورا بیوقوف سمجھکر ایسے وعدے کیا کرتی تھی تو دوسری جماعت بھی اب ہندوؤں کے بارے میں ایسا ہی کچھ سوچنے لگی ہیں۔ورنہ 125 سال پرانی پارٹی، جس کو ہندوستان میں ماڈرن فلاسفی کے علمبردار ہونے کا بھی فخر تھا، وہ اب اس کے سارے تقاضے کو طاق پر رکھنے کو تیار ہو گئی ہے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اپنے رائےدہندگان کو لےکر اس کی رائے کچھ اونچی نہیں رہ گئی ہے۔
اس کی خبر ابھی ہمیں نہیں کہ دوسری جماعت، جیسی بہوجن سماج پارٹی کیا اسی قسم کے وعدے کر رہی ہے یا نہیں!اگر ایسا نہیں ہے تو کیا یہ مان لیا جائے کہ ان کے رائےدہندگان بالکل الگ قسم کی آبادی کے ممبر ہیں؟کیا ان کو ہندوؤں کے ووٹ نہیں چاہیے؟یا وہ ہندوؤں کو عقلمند مانتے ہیں؟ کمیونسٹ پارٹیوں کو تو چھوڑ ہی دیں۔ ہندوؤں کے بیچ سے بھی آواز نہیں سنائی دیتی کہ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ ان کی بے عزتی ہے۔
گائے یا پنچ گویہ کو لےکر ہندوؤں میں شردھا ہے۔ دوسرے مذہبی کمیونٹی میں وہی اس تناسب میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس سبب ہندوؤں سے زیادہ عقلمند ہیں۔ان میں حماقت کے دوسرے ماخذ ہیں۔لیکن ابھی ان کو چھوڑ دیں۔کیونکہ کانگریس اور بی جے پی کے اس طرح کے وعدے سے یہی لگتا ہے کہ انہوں نے مان لیا ہے کہ ان کے رائےدہندگان شاید صرف ہندو ہیں۔ 2014 سےایک گھبراہٹ-سی ہندوستان کے پارلیامانی جماعتوں پر طاری ہے، وہ یہ کہ ہندوؤں کو کس طرح لبھایا جائے۔
مقابلہ ہندوؤں کے ووٹ کے لئے ہی رہ گیا ہے اور اس میں بھی نظریہ کی زبان اعلیٰ طبقہ کی ہے۔ اس لئے گائے کو لےکر پوری سیاسی غوروفکر اشرافیہ کی سمجھ سے متاثر ہے جو ہندوؤں کی دوسری کمیونٹی پر بھی حاوی ہے۔
کانگریس کے اعلیٰ ترین رہنما مندر مندر گھوم رہے ہیں۔ وہ اس کو پرانااورذاتی مذہبی عقیدے کا معاملہ بتاتے ہیں۔ لیکن اس کا اتنا مظاہرہ کیوں ہونا چاہیے اور کیوں وہ انتخاب کے وقت ہی ہونا چاہیے، اس کا اطمینان بخش جواب وہ نہیں دے پاتے۔انتخابات کے وقت، کانگریس نے بھی رام ون گمن کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رام مدھیہ پردیش کے ہی نہیں، پورے ہندوستان کے جنگلات میں گھومے ہیں۔ اس لئے ایک رام ٹیک ناگپور کے پاس بھی ہے۔ آخر آسام میں بھی رام کتھا ہے اور بھیلوں میں بھی۔
رام کو چودہ سال ملے تھے، سو انہوں نے کافی سفر کیا ہوگا۔ لیکن رام جب جب کتھا سے نکالکر ہماری زندگی میں سیاسی جماعتوں کے ذریعے لائے جاتے ہیں تو خون بہتا ہے۔ پھر کانگریس کس راستے کا مسافر ہونے کی تیاری میں ہیں؟وہ راستہ آخر ایودھیا میں عالی شان رام مندر تعمیر تک جاتا ہے، کیا یہ اس پارٹی کو پتہ نہیں ہے؟ یا اصل میں اس کی بھی منزل وہی ہے؟
سماج میں ہر قسم کے خیالات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا وقت آئے کہ ہم یقین سے کہہ سکیں کہ سماج سے رجعت پسند خیال وداع ہو گئے ہیں۔سائنس کے شعبے میں سب سے زیادہ ایجادات کی زمین امریکہ میں بھی یہ ماننے والے ہیں کہ ڈارون کی ارتقائیت کا اصول غلط ہے اور زمین کے بننے اور انسان کے وجود کے لئے ایشور ذمہ دار ہے۔ لیکن کیا امریکہ میں ڈیموکریٹ اس طرح کی تشہیر اپنے انتخابی مہم میں کرتے ہیں؟
کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کرنا آج کی سیاسی اور حکمت عملی کی مجبوری ہے۔ چوں کہ ہندو ابھی یہی زبان سن اور پسند کر رہے ہیں، اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دھیان رہے کہ یہ پھر کسی ایک خاص وقت میں مقید نہیں رہتا۔کیرل میں ابھی انتخاب نہیں ہے، پھر بھی کیوں کانگریس سبری مالا سیاق و سباق میں بی جے پی جیسا ہی رخ اپنا رہی ہے؟ اس لئے یہ سمجھ غلط ہے کہ یہ حکمت عملی بھر رہےگی۔ یہ اس سے آگے جاکر نظریہ بن جاتا ہے۔
کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایساخیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔اس کے رہنما بار بار کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ اچھے ہندوؤں کی پارٹی ہے۔ اس کے رہنما کتابیں لکھ رہے ہیں کہ وہ کیوں اچھے ہندو ہیں اور کیوں بی جے پی کے لوگ اچھے ہندو نہیں ہیں۔ تو کیا اس ملک میں اب بحث صرف اچھے ہندو اور برے ہندو کے درمیان رہ گئی ہے؟
ایک سمجھ یہ ہے کہ اگر ہندو بھلے ہو جائیں تو ملک میں سیکولرازم محفوظ رہےگا۔ کچھ وقت پہلے صحافی دوست ہرتوش بل نے سوال کیا تھا کہ کیا اس ملک کی بیس فیصد اقلیت اپنی حفاظت کے لئے اس کا انتظار کریں کہ سارے ہندو بھلے ہو جائیں! کیا یہ مان لیا جائے کہ یہ ملک ہندوؤں کی خواہش سے چلےگا؟ یا، بل نے پوچھا، یہ ملک قانون کے مطابق چلےگا؟ کیا قانون بھی تبھی تک کام کرےگا جب تک ہندو چاہیںگے؟ جیسا ابھی ہم سبری مالا میں دیکھ رہے ہیں؟
انتخابات کی بحث صرف اسی وقت تک محدود نہیں رہتی۔ اس کی گونج دور تک جاتی ہے۔ پچھلے چار سالوں میں صرف ایک موقع ایسا رہا ہے جب سیاسی جماعتوں نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وہ تھا کیرانا میں ایک مسلمان عورت کو اپنی طرف سے امیدوار بنانا۔اس جرأت کا معقول جواب عوام نے دیا ان کو چنکر۔ باقی وقت سب ہندو علامتوں میں بات کر رہے ہیں۔ نوجوان رہنما اکھلیش یادو نے رام مندر کے جواب میں وشنو مندر بنانے کی بات کہی۔
باقی سب بی جے پی کی تنقید یہ کہہکر کر رہے ہیں کہ رام مندر دراصل اس کے لئے صرف انتخابی مدعا ہے، مندر بنانے میں اس کی دلچسپی نہیں ہے۔ تو کیا مندر بنانا مناسب ہے؟
کسی سیاسی رہنما میں یہ کہنے کی جرأت نہیں بچی کہ بابری مسجد کی جگہ مندر بنانا غلط ہے! کانگریس پارٹی بھی اگر یہ بول نہیں پا رہی ہے تو پھر اس کے اعتماد اور اس کی حریف پارٹی کے اعتماد میں کیا فرق ہے؟انتخابی مہم جس اشاراتی ثقافتی زبان میں چلائی جاتی رہی ہے، اس سے ملک کے مسلمان، عیسائی اور دیگر مذہبی پیروکار پوری طرح خود کو باہر کر دیا گیا محسوسکرکے رہے ہیں۔ یہ کانگریس کی بڑی ہار ہے۔
1957 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت کانگریس پارٹی کے ممبروں کو خطاب کرتے ہوئے جواہرلال نہرو نے کہا کہ بھلےہی انتخاب ہار جانا پڑے، پارٹی کو اپنے اصولوں کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہے۔معلوم پڑتا ہے کہ نہرو کافی پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔ یہ حکومت اور حکمراں جماعت تو ان کو ملک کی اجتماعی یاد داشت سے نکال ہی دینا چاہتی ہے لیکن کیا کانگریس بھی ان کو نہیں سنےگی؟
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں )
Categories: فکر و نظر