خاص رپورٹ: راجستھان میں کانگریس کی کمان سنبھال رہے سچن پائلٹ نہ تو خود اسمبلی کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے اور نہ ہی اشوک گہلوت کو انتخابی میدان میں امیدوار کی حیثیت سے اترتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، لیکن ان کے اس منصوبے پر ایک جھٹکے میں پانی پھر گیا۔
نئی دہلی میں گزشتہ بدھ کو جب دوسہ سے بی جے پی رکن پارلیامان ہریش مینا نے کانگریس کا ہاتھ تھاما تو کسی کو امید نہیں تھی کہ 24، اکبر روڈ (نئی دہلی واقع کانگریس صدر دفتر) سے اس سیاسی واقعہ سے بھی بڑی کوئی خبر باہر نکلےگی۔ لیکن خبر باہر نکلی۔ وہ بھی اتنی بڑی کہ جس نے راجستھان کانگریس میں پچھلے کئی مہینوں سے جاری ‘ کون بنےگا وزیراعلیٰ ‘ کے کھیل میں شہ ماتکے سرے اجاگر کر دیے۔
اس بڑی خبر کے سوتر دھار بنے کانگریس کے تنظیم کے جنرل سکریٹری اور سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت۔ انہوں نے کانگریس ہیڈکوارٹر میں ہریش مینا کی پارٹی میں استقبال کرتے ہوئے اچانک یہ اعلان کر کے سب کو چونکا دیا کہ وہ اسمبلی کا انتخاب اپنی روایتی سیٹ سردارپورا سے لڑیںگے اور پارٹی کے ریاستی صدر سچن پائلٹ بھی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتریںگے۔
گہلوت نے کہا، ‘ جو افواہیں چل رہی تھیں کہ کانگریس میں پھوٹ ہے۔ وہ بی جے پی کی سازش تھی۔ اس کا پچھلے دو مہینوں میں پردہ فاش ہو چکا ہے۔ وہ باتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ہم سب ایک ساتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔ الیکشن سچن پائلٹ بھی لڑیںگے۔ میں بھی لڑوںگا۔ سب لوگ انتخاب لڑیںگے۔ ‘ ان کے اس اعلان کو سنکر ریاستی صدر سچن پائلٹ اور راجستھان کے جنرل سکریٹری ان چارج اویناش پانڈے تو سکپکائے ہی، پریس کانفرنس میں آئے صحافی بھی حیران رہ گئے۔ سب نے گہلوت سے سوال کیا-‘ سچن پائلٹ کہاں سے الیکشن لڑیںگے؟ ‘
گہلوت نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور مائک سچن پائلٹ کو تھما دیا۔ پائلٹ نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ کہاں سے انتخابی میدان میں اتریںگے، لیکن گہلوت کے اعلان پر مہر ضرور لگا دی۔ پائلٹ نے کہا، ‘ راہل گاندھی جیکی ہدایت اور اشوک گہلوت جیکی درخواست پر میں بھی اسمبلی کا انتخاب لڑوںگا۔ گہلوت جی بھی انتخاب لڑیںگے۔ ‘
عام طور پر کسی رہنما کے لئے الیکشن میں امیدواری طے ہونا سیاسی سفر کا خوش کن پڑاؤ ہوتا ہے، لیکن سچن پائلٹ کے لئے یہ کوڑھ میں خاج کی طرح ہے۔ اصل میں راجستھان کا وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے پائلٹ نہ تو خود اسمبلی کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے اور نہ ہی گہلوت کو انتخابی میدان میں امیدوار کی حیثیت سے اترتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔
پائلٹ کی یہ چاہت اس حکمت عملی کا حصہ تھی جس کا چکرویو انہوں نے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے لئے رچا تھا۔ چرچہ کے مطابق اس کے پیچھے ان کی پہلی چال یہ سیاسی پیغام دینے کی تھی کہ اعلیٰ کمان راجستھان کی سیاست میں اشوک گہلوت کا سیدھا کردار نہیں چاہتا۔ راہل گاندھی ان کا استعمال تنظیم کے کام کاج میں ہی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر ریاستی کانگریس کے رہنماؤں میں یہ پیغام چلا جاتا تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا کہ اشوک گہلوت وزیراعلیٰ کی ریس سے باہر ہو گئے ہیں اور سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ بننے کو ہری جھنڈی مل گئی ہے۔ پائلٹ خود کو اور گہلوت کو اسمبلی انتخاب میں امیدوار نہ بننے دینے کی دوسری وجہ نتیجوں کے بعد ہونے والی ایم ایل اے گروپ کی میٹنگ تھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کانگریس میں وزیراعلیٰ وہی بنتا ہے جس کو اعلیٰ کمان آشیرواد دیتا ہے۔ عام طور پر اے آئی سی سی کے نگراں کی موجودگی میں ایم ایل اے گروپ کی میٹنگ ہوتی ہے اور اس میں وزیراعلیٰ طے کرنے کا حق اعلیٰ کمان کو دینے کی تجویز منظور کی جاتی ہے، لیکن 2008 کے اسمبلی الیکشن میں ایسا نہیں ہوا۔
2008 میں ایم ایل اے گروپ کی میٹنگ میں ایک لائن کی تجویز منظور ہونے کے بجائے سیکریٹ ووٹنگ ہوئی تھی۔ اس میں کانگریس کے 96 ایم ایل اے میں سے 92 نے اشوک گہلوت کو وزیراعلیٰ کے لئے اپنی پسند بتایا۔ ڈاکٹر سی پی جوشی اور شیش رام اولا نے اپنی دعوےداری ضرور پیش کی، لیکن ان کو ایم ایل اے کی حمایت نہیں ملی۔
سچن پائلٹ نہیں چاہتے تھے کہ 2008 کے عمل کو اس بار دوہرایا جائے۔ ان کو یہ خدشہ تھا کہ اگر اشوک گہلوت ایم ایل اے گروپ کی میٹنگ میں آئیںگے تو وہ نگراں کو سیکریٹ ووٹنگ کروانے کے لئے یقینی طور پر کہیںگے۔ اس حالت میں گہلوت ایم ایل اے کی پسند میں اول آ سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے ایم یال اے گروپ کی میٹنگ میں گہلوت کا داخلہ ممنوع کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔
اسی وجہ سے سچن پائلٹ نے اعلیٰ کمان کے سامنے خود، اشوک گہلوت اور ڈاکٹر سی پی جوشی کے الیکشن نہ لڑنے کی مانگ رکھی۔ حالانکہ اس کے پیچھے انہوں نے دلیل یہ دی کہ بڑے رہنماؤں کے انتخاب لڑنے سے وہ اپنی سیٹ پر مرکوز ہو جائیںگے اور باقی سیٹوں پر تشہیر کے لئے پورا وقت نہیں دے پائیںگے۔ اس سے پارٹی کا مظاہرہ متاثر ہوگا۔
پائلٹ کو امید تھی کہ راہل گاندھی ان کی بات مانیںگے۔ان کی امید کو اس وقت اور طاقت ملی جب مدھیہ پردیش میں کانگریس نے ریاستی صدر کمل ناتھ اور رکن پارلیامان جیوترادتیہ سندھیا کو اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑوایا۔ لیکن راہل گاندھی کے سامنے جب یہ مدعا آیا تو اشوک گہلوت نے صاف لہجے میں کہہ دیا کہ وہ اسمبلی الیکشن لڑیںگے۔
سچن نے راہل گاندھی کے ذریعے اشوک گہلوت پر خوب دباؤ بنانے کی کوشش کی، لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی۔ ایسی حالت میں پائلٹ کے لئے بھی انتخابی جنگ میں اترنا ضروری ہو گیا۔ اگر وہ الیکشن نہیں لڑتے تو سیدھا پیغام یہ جاتا کہ کانگریس ریاستی صدر وزیراعلیٰ کی ریس سے باہر ہو چکے ہیں۔ یعنی پائلٹ نے جو چکرویو اشوک گہلوت کی گھیرابندی کرنے کے لئے بنایا وہ خودہی اس میں الجھ گئے۔
یہ طے ہونے کے بعد کہ راجستھان میں کانگریس کے بڑے رہنما انتخاب لڑیںگے تو پائلٹ کے سامنے سیٹ کا بحران پیدا ہو گیا۔ ان کو اس بات کا ڈر ستا رہا تھا کہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں جیسا کہ ڈاکٹر سی پی جوشی کے ساتھ ہوا ویسا اس بار کہیں ان کے ساتھ نہ ہو جائے۔ غور طلب ہے کہ 2008 میں ڈاکٹر سی پی جوشی ریاست میں کانگریس کے مکھیا تھے اور ان کو وزیراعلیٰ کے عہدے کا مضبوط دعوے دار مانا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر جوشی کا وزیراعلیٰ بننے کا خواب اس وقت چور ہو گیا جب وہ محض ایک ووٹ سے ناتھ دوارا سے اسمبلی الیکشن ہار گئے۔ پائلٹ کو یہ خدشہ ہے کہ وہ بھی جوشی کی طرح گر نہ جائیں۔ اس سے بچنے کے لئے ان کو ایسی سیٹ تلاش کرنا ضروری ہو گیا جہاں داخلی انتشار اور ہار کی دور دور تک کوئی گنجائش نہ ہو۔ پائلٹ کی مناسب سیٹ کی تلاش اتنی لمبی ہو گئی کہ بی جے پی نے امیدواروں کی دو فہرستیں جاری کر دیں، لیکن کانگریس کی طرف سے انتخاب لڑنے والوں کی پہلی کھیپ بھی سامنے نہیں آئی۔
ذرائع کے مطابق کانگریس کی سینٹرل الیکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں ہی اس بات پر مہر لگ گئی تھی کہ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ، دونوں الیکشن لڑیںگے۔ گہلوت کی سیٹ کو لےکر کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا، لیکن پائلٹ مرکزی انتخابی کمیٹی کی میٹنگ میں اپنی سیٹ نہیں بتا پائے۔ انہوں نے اس کے لئے وقت مانگا۔ یہ وقت ضرورت سے زیادہ لمبا کھنچ گیا۔ پائلٹ خود کے نام کے بغیر امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
پائلٹ گروپ کے ایک رہنما ‘ آف دی ریکارڈ ‘ بات چیت میں اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اگر پہلی فہرست آ جاتی اور اس میں اشوک گہلوت کا نام ضرور ہوتا۔ اگر اس میں پائلٹ صاحب کا نام نہیں ہوتا تو اس کا غلط پیغام جاتا۔ ان کے مخالف یہ غلط فہمی پھیلاتے کہ پارٹی کے صدر کو الیکشن لڑنے کے لئے سیٹ نہیں مل رہی۔ ‘
اشوک گہلوت نے سچن پائلٹ کی اس کشمکش کو موقع کی طرح لیا۔ انہوں نے گزشتہ بدھ کو اے آئی سی سی میں ہوئی پریس کانفرنس میں جس طریقے سے خود اور پائلٹ کے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اس نے وزیراعلیٰ کی کرسی کے لئے ان دونوں کے درمیان جاری جنگ کی سمت طے کر دی۔ گہلوت نے اس بات کا اعلان بنا موقع اور دستور کے کیا جو پائلٹ کی دکھتی نبض ہے۔
سچن پائلٹ کی سیٹ کی تلاش کئی دنوں کی جدو جہد کے بعد جئے پور سے سو کلومیٹر دور جاکر رکی۔ سیٹ کا بحران دور ہوتے ہی کانگریس کی کئی دنوں سے اٹکی فہرست جمعرات دیر رات باہر آ گئی۔ پارٹی نے 152 امیدوار طے کر دئے ہیں۔ اس میں پائلٹ اور گہلوت کے علاوہ ڈاکٹر سی پی جوشی اور ڈاکٹر گرجا ویاس کے نام شامل ہیں۔
پائلٹ نے جس ٹونک سیٹ کو اپنا سیاسی ٹھکانہ چنا ہے وہ مسلم اور گرجر اکثریت علاقہ ہے۔ سچن کو امید ہے کہ یہ اتحاد ان کی کشتی کو پارکر دےگا۔ مقامی سیاست کے جانکاروں کا بھی یہی ماننا ہے۔ حالانکہ سیاسی گلیاروں میں یہ گفتگو زوروں پر ہے کہ وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھ رہے پائلٹ کو دوسہ یا اجمیر ضلع کو چھوڑکر ٹونک کی پناہ میں آنا پڑا۔
غور طلب ہے کہ سچن پائلٹ نے اپنی سیاسی پاری کا آغاز اپنے والد راجیش پائلٹ کی روایتی سیٹ دوسہ سے 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں جیت کے ساتھ کیا تھا۔ حالانکہ 2009 کا لوک سبھا انتخاب وہ یہاں سے نہیں لڑ پائے، کیونکہ حد بندی میں دوسہ سیٹ ایس ٹی کے لئے ریزرو ہو گئی۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں پائلٹ اجمیر سے انتخابی میدان میں اترے اور جیتے۔ حالانکہ 2014 کے عام انتخابات میں سچن کو یہاں سے منھ کی کھانی پڑی۔ پہلے یہ مانا جا رہا تھا کہ پائلٹ اجمیر یا دوسہ ضلع کی کسی سیٹ سے اسمبلی کا انتخاب لڑیںگے، لیکن ان کو نوابوں کا شہر ٹونک راس آیا۔
بی جے پی نے ٹونک سیٹ پر موجودہ ایم ایل اے اجیت میہتا کو امیدوار بنایا ہے، جن کو پائلٹ کے مقابلے مضبوط امیدوار نہیں مانا جا رہا۔ ذرائع کے مطابق ٹونک میں پائلٹ کو ٹکر دینے کے لئے بی جے پی کسی طاقتور چہرے پر داؤ کھیلنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ تو 11 دسمبر کو ہی پتا چلےگا کہ ٹونک سے پائلٹ کا ہوائی جہاز اڑان بھر پاتا ہے یا نہیں، لیکن ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسمبلی انتخاب لڑنے کے لئے ‘ رن وے ‘ پر اترنا پڑ گیا ہے۔ ان کے لئے ٹونک سے جیت درج کرنے سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے لیے اب کس راہ پر چلا جائے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر