چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ متعین کی گئی رافیل قیمت کا موازنہ کرے۔ ہم نے معاملے کا مطالعہ کیا، ڈیفنس افسروں کے ساتھ بات چیت کی ، ہم فیصلہ لینے کے پروسیس سے مطمئن ہیں۔‘
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل میں کورٹ کی قیادت میں جانچ کی مانگ کرنے والی سبھی عرضیاں خارج کر دی۔ کورٹ نے کہا کہ ہمیں ڈیفنس ڈیل میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کؤل اور جسٹس کے ایم جوزف کی 3 رکنی بنچ نے یہ فیصلہ دیا۔ کورٹ نے کہا کہ رافیل حصول کے پروسیس کی جانچ عدالت کا معاملہ نہیں ہے۔
Supreme Court: We are satisfied that there is no occasion to doubt the process. A country can’t afford to be underprepared. Not correct for the Court to sit as an appellant authority and scrutinise all aspects. #RafaleDeal https://t.co/djJheTLAhr
— ANI (@ANI) December 14, 2018
چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ متعین کی گئی رافیل قیمت کا موازنہ کرے۔ ہم نے معاملے کا مطالعہ کیا، ڈیفنس افسروں کے ساتھ بات چیت کی ، ہم فیصلہ لینے کے پروسیس سے مطمئن ہیں۔‘کورٹ نے یہ بھی کہا کہ پہلے کا سودا فورتھ کمنگ نہیں تھا اور نیا سودا مالی فائدے کے ساتھ آیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ اصول کے مطابق آفسیٹ پارٹنر وینڈر کے ذریعے طے کیا جانا تھا، نہ کہ حکومت کے ذریعے۔
کورٹ نے مزید کہا کہ ہم اس فیصلے کی جانچ نہیں کر سکتے کہ 126 رافیل کی جگہ 36 رافیل کی ڈیل کیوں کی گئی۔ ہم حکومت سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ 126 رافیل خریدیں۔ جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’ ہم پہلے اور حالیہ رافیل ڈیل کے بیچ قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے جوڈیشیل تجزیے کی طاقتوں کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘
واضح ہو کہ اس معاملے میں گزشتہ شنوائی کے دوران سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے فرانس کی کمپنی داسو کے ساتھ سازش کرنے کا بھی الزام لگایاتھا جس نے آفسیٹ افسر ریلائنس کو دیے ہیں۔انھوں نے کہا تھا کہ یہ بد عنوانی کی طرح ہے اور یہ اپنے آپ میں ایک جرم ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ریلائنس کے پاس آفسیٹ قرار کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
گزشتہ 14 نومبر کو سپریم کورٹ نے معاملے کی شنوائی پوری کی تھی اور فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔کورٹ نے اس معاملے میں دائر کی گئی عرضیوں پر مختلف حزب کے وکیلوں کی دلیلیں سنی۔ کورٹ میں دائر عرضیوں میں رافیل لڑاکو ہوائی جہاز ڈیل میں بے ضابطگی کا الزام لگاتے ہوئے اس میں ایف آئی آر درج کرنے اور کورٹ کی قیادت میں جانچ کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔
یہ عرضیاں وکیل منوہر لال شرما اور وکیل ونیت ڈھانڈا اور عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ نے دائر کی تھیں۔ ان کے علاوہ سابق بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر یشونت سنہا، ارون شوری اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے مشترکہ طور پر عرضی دائر کی تھی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کی قیمتوں پر اسی حالت میں چرچہ ہو سکتی ہے جب اس ڈیل کے حقائق کو عام دائرے میں آنے دیا جائے۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا ،’ ہمیں یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ کیا قیمتوں کے حقائق کو عام کیا جانا چاہیے یا نہیں۔’
غور طلب ہے کہ ستمبر 2017 میں ہندوستان نے تقریباً 58 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کی خرید کے لیے فرانس کے ساتھ انٹر گورنمنٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اس سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس کے سفر کے دوران اس تجویز کا اعلان کیا تھا۔
الزام لگے ہیں کہ سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس سودے میں کی گئی تبدیلیوں کے لیے ڈھیروں سرکاری اصولوں کو طاق پر بھی رکھا گیا۔ یہ تنازعہ اس سال ستمبر میں تب اور گہرایا جب فرانس کی میڈیا میں ایک خبر آئی، جس میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ رافیل ڈیل میں ہندوستانی کمپنی کا انتخاب نئی دہلی کے اشارے پر کیا گیا تھا۔
اولاند نے ‘میڈیا پارٹ‘ نامی ایک فرنچ ویب سائٹ سے کہا تھا کہ حکومت ہند نے 58 ہزار کروڑ روپے کی رافیل ڈیل میں فرانسیسی کمپنی داسو کے ہندوستانی ساجھے دار کے طور پر انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کے نام کی تجویز دی تھی اور اس میں فرانس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں