خبریں

رافیل معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل غلط: پرشانت بھوشن

سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل معاملے میں جانچ کی مانگ والی سبھی عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ڈیفنس ڈیل میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ذریعے رافیل معاملے میں جانچ کی مانگ والی عرضیوں کو خارج کرنے کے بعد سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایئر فورس سے پوچھے بغیر وزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس میں جاکر ڈیل کر لی اور اس کے بعد طے قیمت سے زیادہ پیسہ دے دیا۔بھوشن نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے رافیل معاملے میں سیل بند لفافے میں رپورٹ دی ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی جانکاری نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کورٹ نے آفسیٹ پارٹنر منتخب کرنے کے معاملے کو بھی غلط نہیں مانا ہے۔سپریم کورٹ نے مانا ہے کہ داسو ایویشن کو اپنا آفسیٹ پارٹنر منتخب کرنا تھا حالانکہ ڈیفنس ڈیل میں لکھا ہے کہ بغیر حکومت کی رضامندی کے کوئی فیصلہ نہیں لیا جا سکتا ہے۔ غور طلب ہے کہ جمعہ کو سپریم کورٹ نے رافیل ڈیل میں کورٹ کی قیادت میں جانچ کی مانگ والی سبھی عرضیاں خارج کر دی۔

کورٹ نے کہا کہ ہمیں ڈیفنس ڈیل میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔ رافیل معاملے میں وکیل منوہر لال شرما اور وکیل ونیت ڈھانڈا اور عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ نے عرضی دائر کی تھی۔ ان کے علاوہ سابق بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر یشونت سنہا، ارون شوری اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے مشترکہ طور پرعرضی دائر کی تھی۔

اس معاملے میں گزشتہ شنوائی کے دوران سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے فرانس کی کمپنی  داسو کے ساتھ سازش کرنے کا بھی الزام لگایا جس نے آفسیٹ افسر ریلائنس کو دیے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ بد عنوانی کی طرح ہے اور یہ اپنے آپ میں ایک جرم ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ریلائنس کے پاس آفسیٹ قرار کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

فیصلہ پڑھتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’کورٹ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ متعین کی گئی رافیل قیمت کا موازنہ کرے۔ ہم نے معاملے کا مطالعہ کیا، ڈیفنس افسروں کے ساتھ بات چیت کی ، ہم فیصلہ لینے کے پروسیس سے مطمئن ہیں۔‘کورٹ نے مزید کہا کہ ہم اس فیصلے کی جانچ نہیں کر سکتے کہ 126 رافیل کی جگہ 36 رافیل کی ڈیل کیوں کی گئی۔ ہم حکومت سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ 126 رافیل خریدیں۔

جسٹس رنجن گگوئی نے کہا،’ ہم پہلے اور حالیہ رافیل ڈیل کے بیچ قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے جوڈیشیل تجزیے کی طاقتوں کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘بنچ نے کہا کہ لڑاکو ہوائی جہاز کی ضرورت ہے اور ملک ان کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔کورٹ نے کہا،’ خرید، قیمت اور آفسیٹ ساجھےدار کے معاملے میں مداخلت کے لیے اس کے پاس کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے۔’

غور طلب ہے کہ ستمبر 2017 میں ہندوستان نے تقریباً 58 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہاز کی خرید کے لیے فرانس کے ساتھ انٹر گورنمنٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اس سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس کے سفر کے دوران اس تجویز کا اعلان کیا تھا۔

الزام لگے ہیں کہ سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس سودے میں کی گئی تبدیلیوں کے لیے ڈھیروں سرکاری اصولوں کو طاق پر بھی رکھا گیا۔ یہ تنازعہ اس سال ستمبر میں تب اور گہرایا جب فرانس کی میڈیا میں ایک خبر آئی، جس میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ رافیل ڈیل میں ہندوستانی کمپنی کا انتخاب نئی دہلی کے اشارے پر کیا گیا تھا۔

اولاند نے ‘میڈیا پارٹ’ نامی ایک فرنچ ویب سائٹ سے کہا تھا کہ حکومت ہند نے 58 ہزار کروڑ روپے کی رافیل ڈیل میں فرانسیسی کمپنی داسو کے ہندوستانی ساجھے دار کے طور پر انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کے نام کی تجویز دی تھی اور اس میں فرانس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔

یہاں پڑھیں سپریم کورٹ کا پورا فیصلہ:

Rafael Judgment by on Scribd