اجمیر لٹریچر فیسٹیول کے کنوینر نے بتایا کہ نصیر الدین شاہ کو پروگرام کا افتتاح کرنا تھا لیکن ان کے بیان کے بعد مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ نہیں آئے۔
نئی دہلی: نصیر الدین شاہ کے حالیہ بیان کے بعد ہندتواوادیوں کی مخالفت کی وجہ سے اجمیر لٹریچر فیسٹیول کے آرگنائزرس نے اس پروگرام کو رد کردیا ہے جس کو ایکٹر نصیر الدین شاہ خطاب کرنے والے تھے ۔ شاہ کو یہاں تین دنوں تک چلنے والے فیسٹیول کے پانچوین سیشن کے ایک پروگرام میں خطاب کرنا تھا ۔ پروگرام کے ٹھیک پہلے ہندتوا تنظیموں نے جائے تقریب کے باہر مظاہرہ کیا۔مظاہرہ کرتے ہوئے ایک شخص نے شاہ کے پوسٹر پر سیاہی پھینک دی ۔ فیسٹیول کے کنوینر راس بہار گور نے کہا، شاہ کو پروگرام کا افتتاح کرنا تھا لیکن ان کے بیان کے بعد کچھ مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ نہیں آئے ۔
غور طلب ہے کہ ایکٹر نصیر الدین شاہ نے حال ہی میں اتر پردیش کے بلند شہر میں گئو کشی کے شک میں بھیڑ کے ذریعے کیے گئے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ کئی جگہوں پر ایک گائے کی موت کو ایک پولیس افسر کے قتل سے زیادہ توجہ دی گئی ۔ نصیر الدین شاہ نے اس ملک میں اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر بھی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاتھا کہ ،میں نے اپنے بچوں کو کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی ہے ۔ واضح ہوکہ نصیر الدین شاہ کاروان محبت انڈیا کو دیے گئے ایک ویڈیو انٹرویو میں اظہار خیال کر رہے تھے ۔ کاروان محبت نے سوموار کو یوٹیوب چینل پر یہ ویڈیو پوسٹ کیا ہے۔
نصیر الدین شاہ نے آخر کیا کہا تھا
نصیر کا کہنا تھا کہ ، زہر پھیلا یاجا چکا ہے اور اب اس کو روک پانا مشکل ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ جو لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں ، ان کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ کئی شعبے میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک گائے کی موت کو ایک پولیس افسر کی موت سے زیادہ توجہ دی گئی ۔انہوں نےاپنی بیوی رتنا پاٹھک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ، ہم نے طے کیا تھا کہ اپنے بچوں عماد اور ووان شاہ کو مذہبی تعلیم نہیں دیں گے ۔ کیوں کہ خراب یا اچھا ہونے کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔نصیر الدین شاہ نے کہا کہ ، مجھے بچپن میں مذہبی تعلیم ملی تھی ۔
رتنا ایک ترقی پسند گھرانے کی تھیں اور ان کو ایسا کچھ نہیں ملا ۔ اور ہم نے طے کیا کہ ہم اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم نہیں دیں گے ،کیوں کہ ہمار ماننا ہے کہ کسی انسان کے اچھے ہونے یا برے ہونے کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔شاہ نے کہا کہ ، ہم نے اپنے بچوں کو اچھے اور برے میں تمیز کرنا سکھایا ہے، جس میں ہمارا اعتماد ہے۔ میں نے ان کو قرآن شریف کی کچھ آیتیں سکھائی ہیں کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ اس سے تلفظ درست ہوتا ہے ۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے رامائن اور مہابھارت کو پڑھنے سے کسی کا تلفظ درست ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالات جلد ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ،میں ڈرا ہوا نہیں ہوں ،لیکن میرے اندر غصہ ہے ۔ میں اپنے بچوں کے لیے تشویش میں مبتلا ہوں کیوں کہ کل کو اگر بھیڑ ان کو گھیر کر پوچھتی ہے ،تم ہندو ہو یا مسلمان؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ یہ میرے لیے باعث تشویش ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ حالات جلد ٹھیک ہوں گے۔
ویڈیو: وہ انٹرویو جس کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہوا
شاہ نے کہا ،یہ چیزیں مجھے ڈراتی نہیں ہیں بلکہ غصہ دلاتی ہیں اور میں مانتا ہوں کہ اچھی سوچ والے ہر انسان کو غصہ ہونا چاہیے ۔ڈرنا نہیں چاہیے ۔ یہ ہمارا گھر ہے اور کس کی ہمت ہے جو ہمیں ہمارے گھر سے نکالے۔واضح ہو کہ گزشتہ 3 دسمبر کو بلندشہر کے سیانہ علاقے کے چنگراوٹھی میں مبینہ طور پر گئوکشی کو لےکر مشتعل بھیڑ کے تشدد میں تھانہ کوتوالی میں تعینات انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ اور سمت نامی ایک دیگر جوان کی موت ہو گئی تھی۔پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ دادری میں ہوئے اخلاق قتل معاملے میں 28 ستمبر 2015 سے 9 نومبر 2015 تک جانچ افسر تھے۔
اس معاملے میں 27 نامزد لوگوں اور 50سے60 نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بلندشہر تشدد معاملے اور انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قتل معاملے میں کلیدی ملزم بجرنگ دل کے رہنما یوگیش راج کو بنایا گیا ہے۔ فی الحال وہ فرارہے۔ معاملے میں ایک اور مطلوب شیکھر اگروال بھی فرار ہے۔اس معاملے میں ایک فوجی جیتو ملک عرف جیتو فوجی کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے علاوہ 11 سے 12 دوسرے لوگوں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش پولیس سبودھ کمار سنگھ کے قتل کے ملزمین کو پکڑنے سے پہلے مبینہ گئو کشی کے معاملے کی تفتیش کرےگی۔
بلندشہر کے اے ایس پی رئیس اختر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا، اس وقت ہماری اہم فکر یہ ہے کہ کن لوگوں نے گائے کو مارا ہے۔ گائے کے قتل کو لےکر پھیلے تشدد میں ہی انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت ہوئی تھی۔ ہمارا ماننا ہے کہ پہلے جب ہم گئو کشی کی جانچکر لیںگے تو اس سے پتہ چلےگا کہ کیسے سبودھ سنگھ کی موت ہوئی تھی۔ ‘یہی نہیں گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں یوگی آدتیہ ناتھ نے انسپکٹرسبودھ کمار سنگھ کے قتل کو ماب لنچنگ نہیں بلکہ ایک حادثہ قرار دیا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں ایک پروگرام کے دوران یوگی نے کہا تھا، ‘اتر پردیش میں ماب لنچنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ بلندشہر کا واقعہ ایک حادثہ ہے اور اس میں قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ کوئی بھی قصوروار بخشا نہیں جائےگا۔ غیر قانونی جانور کاقتل پورے اتر پردیش میں ممنوع ہے اور ڈی ایم اور ایس پی اس کے جواب دہ ہوںگے۔ ‘
اس کے علاوہ تشدد کے کچھ دنوں بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واقعہ کو لےکر ایک میٹنگ کی تھی جس میں سارا دھیان گئوکشی پر ہی رہا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے تشدد میں مارے گئے پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔این ڈی ٹی وی کے مطابق سی ایم نے اس واقعہ پر چیف سکریٹری، ڈی جی پی، چیف سکریٹری ہوم، اڈیشنل ڈائریکٹر جنرل انٹلی جنس آف پولیس کے ساتھ اجلاس کیا تھا۔ اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی گئی، جس میں انسپکٹر کا کہیں ذکر نہیں تھا۔گزشتہ 4 دسمبر 2018 کو جاری پریس ریلیز میں لکھا گیا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنجیدگی سے جانچکر کے گئوکشی میں ملوث تمام آدمیوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بلندشہر تشدد کے دوران انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قتل سے ناراض کئی سابق نوکرشاہوں نے ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے ریاست میں اس معاملے سے پہلے اور بعد میں پیداکشیدگی کو لےکر اپنی تشویش کا ا ظہار کیا ہے۔نئی دہلی میں جاری ایک ریلیز کے مطابق خط میں لکھا ہے کہ 3 دسمبر 2018 کو ہوئے تشدد کے دوران پولیس افسر سبودھ کمار کا قتل سیاسی تعصب کی سمت میں اب تک کا ایک بےحد خطرناک اشارہ ہے۔83 نوکرشاہوں کی طرف سے جاری اس خط میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں اقتدار کے بنیادی اصول، آئینی پالیسی اور سماجی سلوک ختم ہو چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک پجاری کی طرح شدت پسند اور اکثریتی سوچ کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
شاہ کی مخالفت میں بی جے پی رہنما کاٹوئٹ
دریں اثنا بی جے پی رہنما سنیل دیو دھر نے نصیر الدین شاہ کے ذریعے نبھائے گئے کرداروں سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے ان کے لیے بے حد نازیبا کلمات لکھے ہیں ۔
नसीरूद्दीन शाहजी मैं तो आपको Wednesday फ़िल्म का कॉमनमैन समझ रहा था मगर जनाब तो सरफ़रोश वाले गुल्फ़ाम निकले।
लेकिन बरखुरदार कांग्रेस के ज़माने में जब तशरीफ़ों के नीचे बम फट रहे थे तब आपके बच्चे डरे नहीं, अब मोदी जी ने जब उनकी तशरीफ़ो से हवा निकाली तब आपके बच्चों को ख़ौफ लगने लगा?— Sunil Deodhar (@Sunil_Deodhar) December 21, 2018
رپورٹس کے مطابق فیسٹیول میں شاہ شروعاتی سیشن میں اپنی کتاب کا رسم اجرا کر نے والے تھے ، لیکن مخالفت کی وجہ سے اس کو رد کر دیا گیا۔ پروگرام جمعہ کو شروع ہوا اور اتوار تک چلے گا۔
Naseeruddin Shah: What I said earlier was as a worried Indian. What did I say this time that I am being termed as a traitor? I am expressing concerns about the country I love, the country that is my home. How is that a crime? pic.twitter.com/XcQOwmzJSh
— ANI (@ANI) December 21, 2018
اس سے پہلے انہوں نے اپنے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھاکہ،میں نے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ ایک بیدار ہندوستانی شہری کے طور پر کہا تھا۔ انہوں نے کہا ؛ میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو مجھے غدار کہا جارہا ہے؟ میں نے اس ملک کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے میں پیا رکرتا ہوں ۔ وہ ملک جو میر اگھر ہے ۔ یہ آخر جرم کیسے ہوگیا؟
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں