بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ہندوستان کے سیکولرازم او ر اس کے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگرودوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔
ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ تجزیہ کے مطابق اگلے سال مئی 2019 کے عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)543رکنی لوک سبھا میں 179نشستوں پر سمٹ جائےگی۔ یعنی اگر موجودہ عوامی رجحان برقرار رہتا ہے ، تو 2014 کے مقابلے اس کی 107سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ شاید وزیرا عظم کو بھی اس کا ادراک ہوچکا ہے، اس لئے وہ عندیہ دے رہے ہیں کہ 2019میں اقتدار میں واضح منڈیٹ کے ساتھ واپسی کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔
چند روز قبل اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی کے حلقہ انتخاب رائے بریلی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ؛جب کانگریس انتخابات جیت جاتی ہے تو پاکستان میں تالیاں بجتی ہیں۔ ان کا اشارہ حال میں اختتام پذیر پانچ صوبائی انتخابات کی طرف تھا، جہان تین صوبوں میں کانگریس نے فتح حاصل کی۔ یہ ایک واضح پیغام تھا کہ اب تعمیر و ترقی کے بجائے پاکستان کا ہوا کھڑا کرکے ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرواکے ووٹ بٹورنے ہیں۔
فی الحال بی جے پی ، اس کی ذیلی اور مربی تنظیمیں اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ایک عوامی تحریک برپا کرنے کے فراق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے بڑھتی بے روزگاری اور معیشت کی بے حالی سے توجہ ہٹا کر ہندو ووٹروں کی ایک بار پھر جذباتی نعروں میں الجھا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ پارلیامان کے موجودہ اجلاس سے قبل بی جے پی کے اراکین خم ٹھونک کر اعلان کر رہے تھے کہ اس سیشن میں قانون پاس کرواکر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کروایا جائےگا، کیونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مگر شواہد ہیں کہ بی جے پی بھی اس قضیہ کو سلجھانے کے بجائے اس کو عوامی ڈسکورس میں بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ تصنیف ‘ایودھیا-رام جنم بھومی بابری مسجد وواد (تنازعہ) کا سچ’ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین دہائی قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولہ پر اتفاق کیا تھا۔ وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولہ پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔
دیورس کا کہنا تھا ؛رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لئے اسکی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔’ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائیگی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائیگا۔تجزیہ کاروں کے مطابق بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں ملک کی تقسیم ہند اور آ زادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پرحملہ اور چھٹا 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
یہ بھی پڑھیں : بابری مسجد-رام مندر تنازعہ : ہندو بنام مسلمان کے ساتھ ساتھ ہندو بنام ہندو بھی ہے
بابری مسجدکے انہدام میں عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ۔ اعتبار کی رہی سہی کسر 30 دسمبر 2010کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے پوری کر دی‘جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس نے قانون اور شواہد کو بالائے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو شامل بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔
1949ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی-یوتاؤں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔
اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے۔ دنیا بھر کے تاریخ داں اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔
اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ مگر اب آباواجداد کے گناہوں کے سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔
لاہور کی شہید گنج مسجد
یہاں پر بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ہندوستان کے سیکولرازم او ر اس کے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگرودوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
پریوی کونسل نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ 1935ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد سے ناراض مسلمانوں نے جلوس نکالا تو کئی افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔
عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تحویز پیش کی۔معروف قانون داں اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انہوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ قانون کی عملداری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی یہ گرودوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے‘جبکہ شاید ہی اب کوئی سکھ اب اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔
لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔ اس کے برعکس ہندوستانی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ہندوتوا کو مذہبی علامت کے بجائے ہندوستانی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی بتایا ۔انہوں نے ہندو انتہا پسندوں کے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروں پر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ 1992ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998ء میں بی جے پی حکومت نے انہیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of the BabriMasjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے وشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیامنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔
مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوں کو سیاسی طور پربیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوسناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں ،جو پچھلے 20برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،نے بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔
Categories: فکر و نظر