سال 2018 میں دی وائر اردو نے 2600 سے زیادہ اسٹوریز شائع کی، جس میں روز مرہ کی خبروں کے ساتھ ساتھ تجزیہ، فیچرس اور گراؤنڈ رپورٹس شامل ہیں۔یہاں ہم 2018 میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10اسٹوریز آپ کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال سب زیادہ پڑھی جانے والی اسٹوریز میں اکثراوریجنل یعنی بنیادی طور پر اردو میں لکھی گئی تھی/ہیں۔ادارہ
کیا دارالعلوم دیوبند واقعی دہشت گردی کا اڈہ ہے؟
دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا مرکز بتانے والے لوگوں کو ان کے اپنے ادارے بھونسلا ملٹری اسکول کی یاد دلانا ضروری ہے۔یہ وہ ادارہ ہے جہاں دہشت گردی کی ٹریننگ پاکر ابھینو بھارت جیسی تنظیم نے ہندوستان کی منتخب شدہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کی تھی۔
حبیب جالب : رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے انداز میں سو چتے تھے۔ وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے آرزو مند رہے ،اور یہی وجہ رہی کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلیٰ طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے۔
اُردو بولنے والوں کی گھٹتی تعداد سے متعلق نئے اعداد و شمار چونکانے والے کیوں نہیں ہیں؟
آپ لاکھ کہیں کہ اردو بولنے والوں کی تعداد اس سے گئی گنا زیادہ ہے مگر اعداد و شمار کے حساب سے اردو کا کمزور ہونا، زبان کے لیے نیک فال نہیں ہے۔کچھ لوگوں کورپورٹس پر شک ہونے لگتا ہےااور اس کمی کے پیچھے بھی سازش نظر آتی ہے مگر حقیقت تلخ ہے۔یہ سچ ہے کہ زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہندوستان میں عام طور پرمسلمان ہی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرواتا ہے۔اور گزشتہ کچھ دہائیوں کی مردم شماری سے ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات بگڑنا شروع ہو گئے ہیں۔
محمد علی جوہر کی شاعری اور جذبہ حریت
مولانا کے مجاہد ملت ہو نے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ مولانا نے ہو س زیست پر کچھ اس طرح قابو پا لیا تھا کہ وہ بار بار تلقین کر تے ہیں۔ کہ جو انسان راہ حق اور راہ وطن میں موت سے ڈرتا ہے اس کی زندگی موت سے بد تر ہے۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ قلزم عشق میں ڈوبنا ہی در اصل پار اتر نا ہے اور انہوں نے اپنی زندگی سے اس کا عملی ثبوت بھی دیا۔ مولانا کے تخلیقی ذہن کو واردات قتل، شہادت اور خون سے جو مناسبت ہے اب تک اس کی مثالیں ادھر ادھر سے پیش کی گئیں۔ لیکن اس کی بہترین تو ثیق اس غزل سے ہوتی ہے جسے بلا شبہ مو لانا کی شاہکار غزل کہا جا سکتا ہے۔
اُردو میں ارُن دھتی رائے کےناول کا عنوان ’بے پناہ شادمانی کی مملکت ‘کیوں ؟
ویڈیو:ارُن دھتی رائے کے تازہ ترین ناول(The Ministry of Utmost Happiness) کے اُردو ترجمہ اور ترجمے کے فن پر دہلی یونیورسٹی میں استاداور معروف مترجم ڈاکٹرارجمند آراکے ساتھ بات چیت۔
شاہد زندہ ہے…
شاہد اعظمی اور نوشادقاسم جی جیسے وکیل جب ایسے مقدمے لڑرہے تھے تب وہ صرف پولیس کی تھیوری کو چیلنج نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے ساتھی وکیلوں کے ‘خلاف’ بھی لڑ رہے تھے۔ کیونکہ مدھیہ پردیش ، یو پی، کرناٹک اور مہاراشٹر کے کئی بار ایسوسی ایشن نے یہ قرارداد پاس کیا تھا کہ دہشت گردی کے معاملوں میں کوئی بھی وکیل ملزم کی طرف سے کھڑا نہیں ہوگا۔ اور ایسا کرنے کی جس نے بھی ہمت کی ان پر حملے ہوئے۔ انہیں کورٹ کے احاطے میں ساتھی وکیلوں نے پیٹا۔
کشمیر کی تاریخ : کیا حقیقت ہےکیا فسانہ ہے…
جموں میں تو اب کئی سالوں سے مسلم اکثریتی طبقہ کی سینوں میں میخ گاڑنے کے لیے گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کے یوم پیدائش تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے تاکہ یہ باورکرایا جائے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمراں تھے۔ اکھنور میں مہاراجہ گلاب سنگھ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشینوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔
اردو اخبارات پر شمس الرحمن فاروقی کا تبصرہ : کیا وہ احسان فراموش ہیں ؟
میں ان باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ اردو اخبارات کے بہت سے مسا ئل ہیں۔ ان کے قارئین کی تعداد کم ہے انہیں وسائل کی قلت کا سامنا ہے یہاں کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہیں بھی کم ہیں سرکاری اشتہارات بھی نہیں ملتے ہیں اور ایسے میں ان سے بہتر معیار کی توقع کرنا یقیناً مشکل کام ہے مگر نا ممکن بھی نہیں ہے۔ جی ہاں ٹکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا تا ہے رنگوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ اسلامیات اور ادب کے صفحات کے ساتھ ساتھ رسائل تفریح اور کھیل کی خبروں کے لئے بھی مناسب جگہیں مخصوص ہیں۔ فاروقی اور ان جیسے دیگر لوگوں کی شہرت کے پیچھے بھی اردو اخبارات کے احسانات ہیں۔ ہندوستان میں مسلم مسائل کو اٹھانے میں بھی اردو اخبارات کی کوششوں کا میں اقرار کرتا ہوں۔
سیتا مڑھی سے گراؤنڈ رپورٹ: ’ ایک گھنٹے کا وقت دیجیے سبھی مسلمانوں کو ختم کردیں گے ‘
سیتامڑھی شہرکے کاروبار پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ میہسول چوک پر راجا گیسٹ ہاؤس کے ناظم کا کہنا ہے کہ دس دنوں تک بازار کا کاروبار بند رہا۔ ہمارے کاروبار پراس کا برا اثر پڑا ہے۔ وہیں میہسول چوک -بس اسٹینڈ کے درمیان جوس کی دکان چلانے والے محمد حسین کہتے ہیں کہ فسادکا اثر اب بھی ہمارے کاروبار پر ہے۔ دوسری ریاستوں سے پھل لانے والے کاروباری ابھی سیتامڑھی آنے سے ڈر رہے ہیں۔
غورطلب ہے کہ ان فسادات سے ہوئے نقصان کا صحیح صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں چل سکا ہے۔ اقلیت کمیونٹی کے کئی لوگوں کی دکانیں جلا دی گئی ہیں۔ گوشالا چوک اور بکری بازار کے درمیان کئی دکانوں میں بھاری توڑپھوڑ کی گئی۔ پھوس کے ایک-دو گھر پھونک دئے گئے۔
اداریہ : ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
کسی بھی طرح کامقدمہ اور مقدمے کی دھمکیاں ہمیں نہیں ڈرا سکتیں۔ اس سے ہماری سچ بولنے کی قوت اور بڑھےگی، بالخصوص ایسے وقت میں جب میڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنی ذمہ داریوں کو بھول چکا ہے۔ایسے وقت میں ہمارے فنڈ کی اپیل صرف مقدمےبازیوں سے نمٹنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ دی وائر کے کام کرتے رہنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس کام میں ان سب کی حصہ داری ہے، جو بے خوف صحافت میں یقین رکھتے ہیں۔
بقول فیضؔ ؛ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
آپ کا تعاون بیش قیمتی ہے اور اس کے لئے ہم آپ کے بےحد شکرگزار ہیں۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں, فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ