خبریں

دارالعلوم دیوبند کی ہدایت؛ یوم جمہوریہ پر سفر کرنے سے پرہیز کریں طلبا

دارالعلوم کے انچارج  نے بتایا ،’دو سال پہلے  یوم جمہوریہ کے موقع پر پولیس نے مدرسے کے طلبا کو حراست میں لیا تھا اور میڈیا نے ان کو دہشت گرد بتا دیا تھا۔‘

دارالعلوم دیوبند۔ (فوٹو بشکریہ : wikimedia commons)

دارالعلوم دیوبند۔ (فوٹو بشکریہ : wikimedia commons)

نئی دہلی: دارالعلوم دیوبند  نے یوم جمہوریہ کے مد نظر اپنے طلبا سے اپیل کی ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ سفر کرنے سے بچیں۔ اس دوران ہونے والی جانچ  کا حوالہ دیتے ہوئےدارالعلوم نے کہا ہے کہ اس وقت ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس سے ڈر اور عدم تحفظ کا احساس  پیدا ہوتا ہے۔ دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، اس ہدایت میں کہا گیا ہے، ‘ اگر سفر کرنا بہت ضروری ہے تو طلبا کو صبروتحمل سے کام لینا چاہیے اور کسی بھی طرح کے تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اپنا کام ختم کرکے ان کو فوراً اپنے مدرسے واپس لوٹ آنا چاہیے۔ ‘

یہ ہدایت مدرسہ کے احاطے میں لگائی گئی ہے۔ حالانکہ، مدرسہ یا اس سے متعلق کسی بھی آدمی نے اس اطلاع کو کیمپس کے باہر پھیلانے کی مانگ نہیں کی ہے۔ 162 سال پرانے اس مدرسے کے ہاسٹل انچارج  مولانا منیر الدین عثمانی نے دیوبند میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی دنوں کی میٹنگ کے بعد یہ ہدایت جاری کی  گئی ہے۔ وہ ان صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے جن کو ان ہدایتوں کی جانکاری ملی تھی یا اسکرین شاٹ ملا تھا۔ انہوں نے اس سے متعلق  کوئی پریس کانفرنس منعقد نہیں کی۔

عثمانی نے کہا، ‘ کچھ خاصدنوں میں پولیس اور دیگر محکمہ اپنی حفاظتی تفتیش بڑھا دیتے ہیں۔ پہلے  ہمارے طلبا کا نہ صرف استحصال  کیا گیا ہے بلکہ کچھ لوگوں کے ذریعے ان پر حملہ بھی کیا گیا ہے۔ اس لئے اگر سفر کرنا بہت ضروری ہے تو ان کو زیادہ ہوشیار  رہنے کی ضرورت ہے۔ ‘ مدرسے کے ایک سابق ممبر اور مقامی مولانا مفتی اسعد قاسمی نے کہا، ‘ پولیس نے دو سال پہلے دارالعلوم کے طالب علموں کو یوم جمہوریہ کے موقع پر حراست میں لیا تھا اور میڈیا میں ان کو دہشت گرد بتایا تھا۔ حالانکہ اگلے دن ہی ان کو رہا کر دیا گیا۔ میڈیا نے یہ بات واضح  نہیں کی کہ انہوں نے غلط جانکاری چلائی تھی۔ دارالعلوم نہیں چاہتا کہ ایسا واقعہ دوبارہ ہو۔ ‘


یہ بھی پڑھیں : کیا دارالعلوم دیوبند واقعی دہشت گردی کا اڈہ ہے؟


قاسمی نے کہا، ‘ مدرسے کے طلبا پر گزشتہ سال سہارن پور اور باغپت میں ٹرینوں اور پلیٹ فارم پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سال 2017 میں سہارن پور میں بھی ان پر حملہ کیا گیا تھا لیکن ان تینوں ہی معاملوں میں ملزمین کی پہچان نہیں کی گئی۔ ‘ دارالعلوم کے ایک سینئر ایڈمنسٹریشن آفیسر اشرف عثمانی نے کہا، ‘ یہ باقاعدہ طور پر جاری کی جانے والے ہدایتوں کی طرح ہی ہے اور اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔ ہم طلبا کی حفاظت چاہتے ہیں اس لئے قومی تہواروں کے موقع پر ان کو باخبر کرتے رہتے ہیں۔ ‘

وہیں، صحافیوں کے سوالوں پر سہارن پور ضلع کے  ایک پولیس افسر نے ایسی کسی ہدایت کی جانکاری ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ بتا دیں کہ دیوبند لکھنؤ سے 600 کلومیٹر دور سہارن پور ضلع میں واقع ہے۔ اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر پولیس افسر نے کہا، ‘ ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے  ان واقعات کو زیادتی  سمجھا گیا ہو جب سکیورٹی ایجنسی  کوئی لاپروائی نہ برتنا چاہتی ہوں اور شک کی بنا پر طلبا کو حراست میں لے لیا ہو۔ ایسا کوئی نوٹس جاری کرنے کے بجائے مدرسہ انتظامیہ   کو ایڈمنسٹریشن  کے پاس آنا چاہیے اور مخالفت درج کرانی چاہیے۔ ‘

بی جے پی کی اقلیتی سیل کے مقامی رہنما محمد انور نے ہدایت کو عجیب بتاتے ہوئے کہا، ‘ ہم یوم جمہوریہ اور آزادی کے دن پر سفر کرتے ہیں۔ قومی تہواروں کے موقع پر ہماری خواتین بھی برقع پہن‌کر باہر جاتی ہیں۔ پولیس یا اکثریتی کمیونٹی کے لوگ کبھی بھی ان کو پریشان  نہیں کرتے  ہیں۔ دارالعلوم کو ڈر کا ماحول نہیں بنانا چاہیے۔’