مودی حکومت کے ذریعے کئے گئے معاہدے کے تحت گارنٹی سے متعلق اہتماموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ ٹوٹنے کی صورت میں ہندوستان کو پہلے پنچاٹ یا ثالثی کے ذریعے سیدھے طور پر ہوائی طیارے کے فرانسیسی فراہم کنندگان کے ساتھ معاملے کو سلجھانا پڑےگا۔
نئی دہلی: کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل(سی اے جی)نے رافیل کی خرید کے لئے حکومت ہند کے ذریعے فرانس کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں سرکاری گارنٹی کے بجائے محض یقین دہانی کے خط (لیٹر آف کنفرٹ) کو برتری دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سی اے جی کی پارلیامنٹ میں بدھ کو پیش رپورٹ میں رافیل معاہدے کے کمزور پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرانس حکومت کے ذریعے ہوائی جہاز کی فراہمی کے بارے میں سرکاری گارنٹی دینے کے بجائے یقین دہانی کے خط کو معاہدے کی بنیاد بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2007 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کے مجوزہ معاہدے میں پیشگی ادائیگی کے عوض میں 15 فیصد بینک گارنٹی کا اہتمام شامل کیا گیا تھا۔موجودہ حکومت کے ذریعے کئے گئے معاہدے کے تحت گارنٹی سے متعلق اہتماموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ ٹوٹنےکی صورت میں ہندوستان کو پہلے پنچاٹ یا ثالثی(آربٹریشن)کے ذریعے سیدھے طور پر ہوائی جہاز کے فرانسیسی فراہم کنندگان کے ساتھ معاملے کو سلجھانا پڑےگا۔
ثالثی کے ذریعے ہندوستان کے حق میں فیصلہ سنانے پر اور رافیل بنانے والی کمپنی داسو ایویشن کے ذریعے اس فیصلے پر عمل نہیں کر پانے پر ہی ہندوستان اپنے قانونی حقوق کے استعمال کا دعویٰ کر سکےگا۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے فرانس کے ساتھ پہلی باربین الاقوامی سمجھوتہ کرکے 36 رافیل کی خرید کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان اسی طرح کا بین الاقوامی سمجھوتہ امریکہ، برٹن اور روس کے ساتھ کر چکا ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ بدھ کو پارلیامنٹ میں رافیل پر اپنی رپورٹ پیش کر کےسی اے جی نے دعویٰ کیا کہ یہ رافیل معاہدہ یو پی اے کی ڈیل کے مقابلے 2.86 فیصد سستا ہے۔ حالانکہ کانگریس سمیت دیگراپوزیشن سی اے جی رپورٹ کی تنقید کر رہی ہیں۔
دفاعی مشاورتی کمیٹی کے ممبر اور کانگریس رکن پارلیامان پردیپ بھٹاچاریہ نے جنگی ہوائی جہاز رافیل کی خریدکے معاملے میں کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی)کی رپورٹ کو نامکمل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو ابھی درست کئے جانے کی ضرورت ہے۔کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر بھٹاچاریہ نے بدھ کو پارلیامنٹ میں سی اے جی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد کہا،رپورٹ کو ایک نظر دیکھنے کے بعد فوری طور پر ایسا لگتا ہے کہ معاہدے کا صحیح اندازہ ہوا ہی نہیں ہے۔ صحیح اندازہ کیوں نہیں ہوا، مجھے لگتا ہے کہ کچھ حقائق کو چھپانے کے لئے کوئی بندوبست ہوا ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں