خبریں

ایودھیا تنازعہ: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا، کہا-ثالثی کے لئے نام دیں فریقین

اترپردیش حکومت اور رام مندر بنائے جانے  کی حمایت کرنے والے تمام فریقوں نے رام جنم بھومی تنازعہ ثالثی کو سونپنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہی معاملے کو حل کرے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ایودھیا زمین تنازعہ معاملے میں چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے بدھ کو ثالثی کو سونپنے یا نہیں سونپنے پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔آئینی بنچ کے دیگر ممبروں میں جسٹس ایس کے بوبڈے، جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر شامل ہیں۔

اس سے پہلے بنچ نے کہا تھا کہ اگر ثالثی کا ایک فیصدی بھی امکان ہو تو سیاسی طور پر حساس اس زمینی تنازعے کے حل کے لئے اس کو ایک موقع دیا جانا چاہیے۔لائیو لاء کے مطابق، ہندو فریق نے معاملے کو ثالثی کو سونپنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے عدالت میں کہا کہ یہ معاملہ جائیداد کے تنازعے کا نہیں ہے بلکہ عقیدہ اور یقین کا ہے۔رام للا وراجمان کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل سی ایس ویدیہ ناتھن نے کہا، یہ یقین ہے کہ اس مقام پر بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔ ہم کہیں اور مسجد بنوانے کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے تیار ہیں۔

کل ہند ہندو مہاسبھا نے بھی ثالثی کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ثالثی کا حکم دیا جاتا ہے تو Code of Civil Procedure کی ہدایت1 اصول 8 کے تحت عوامی نوٹس جاری کر کے عوام کو بھی اس میں شامل کرنے کی منظوری ملنی چاہیے۔وہیں دوسری طرف مسلم فریق نے ثالثی میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ Code of Civil Procedure کی دفعہ 89 کے تحت ثالثی کا حکم دینے کے لئے تمام فریقوں کا راضی ہونا ضروری نہیں ہے۔

ایس جسٹس بوبڈے نے کہا کہ عدالت معاملے کی سنجیدگی اور سیاست پر پڑنے والے اس کے اثرات کو لےکر باخبر تھی۔ اس کی کوشش رشتوں میں اصلاح کی  ہے۔حالانکہ جسٹس چندرچوڑ نے ثالثی کے عمل سے عدم اتفاق کا ظہار کیا۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو تنازعہ صرف فریقوں کے بیچ میں نہیں ہے اس میں ثالثی سمجھوتہ آخر کس طرح سے دو مذہب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ پائے‌گا۔ حالانکہ اسی دوران انہوں نے ثالثی کی ضرورت بھی بتائی۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، راجیو دھون نے کہا کہ یہ کورٹ کے اوپر ہے کہ ثالث کون ہو؟ ثالثی بند کمرے میں ہو۔اس پر جسٹس بوبڈے بولے نے کہا کہ یہ خفیہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا فریقوں کے ذریعے پرائیویسی  کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا میں اس پر تبصرہ نہیں ہونا چاہیے۔ کارروائی  کی رپورٹنگ نہ ہو۔ اگر اس کی رپورٹنگ ہو تو اس کو ہتک عزت قرار دیا جائے۔

جسٹس بوبڈے نے کہا جو پہلے ہوا اس پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں۔ تنازعے میں اب کیا ہے ہم اس پر بات کر رہے ہیں۔ کوئی اس جگہ بنے اور بگڑے تعمیر یا مندر، مسجد اور تاریخ کو بدل نہیں سکتا۔ بابر تھا یا نہیں، وہ راجہ تھا یا نہیں یہ سب تاریخ کی بات ہے۔جسٹس بوبڈے نے آگے کہا کہ ثالثی کا فیصلہ ہی تمام فریقوں کو ایک دھاگے میں باندھ سکتا ہے۔تمام فریقوں کو سننے کے بعد عدالت نے ایودھیا زمینی تنازعہ ثالثی کو سونپنے یا نہیں سونپنے پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا، سبھی فریق ثالث یا ثالثی کمیٹی کا نام سجھائیں، ہم جلدہی حکم جاری کریں‌گے۔ ‘

اس سے پہلے 26 فروری کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا تھاکہ اس معاملے کو عدالت کے ذریعے تقرر ثالثی کو سونپنے یا نہیں سونپنے کے بارے میں پانچ مارچ کو حکم دیا جائے‌گا۔بنچ نے عدالت کی رجسٹری سے کہا تھا کہ تمام فریقوں کو 6 ہفتے کے اندر سارے دستاویزوں کی ترجمہ شدہ کاپیاں دستیاب کرائیں۔ بنچ نے کہا تھا کہ اس معاملے پر اب آٹھ ہفتے بعد سماعت کی جائے‌گی۔

واضح ہو کہ، الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کل 14 اپیل دائر کی گئی ہیں۔ہائی کورٹ نے 2.77 ایکڑ متنازعہ کو زمین تین حصوں میں سنی وقف بورڈ، رام للا اور نرموہی اکھاڑا کے درمیان بانٹنے کا حکم دیا تھا۔