د ی ہندو کے چیئر مین اور سینئر صحافی این رام نے کہا کہ رافیل ڈیل سے جڑی جانکاریاں دباکر یا چھپاکر رکھی گئی تھیں جس کی وجہ سے ہی ان سے متعلق دستاویز مفاد عامہ کے لئے شائع کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس کو چوری ہو گئے دستاویز کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس کو لےکر فکرمند نہیں ہیں۔
نئی دہلی: د ی ہندو پبلی کیشن گروپ کے چیئر مین این رام نے بدھ کو کہا کہ رافیل ڈیل سے جڑے دستاویز مفاد عامہ کے لئے شائع کئے گئے اور ان کو فراہم کرانے والے خفیہ ذرائع کے بارے میں’دی ہندو ‘ سے کوئی بھی فرد کوئی جانکاری حاصل نہیں کرپائےگا۔سینئر صحافی این رام نے کہا کہ جانکاری دباکر یا چھپاکر رکھے جانے کی وجہ سے ہی دستاویز شائع کئے گئے۔ غور طلب ہے کہ بدھ کو حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ رافیل ڈیل سے جڑے دستاویز وزارت دفاع سے چوری ہو گئے اور اس کی تفتیش جاری ہے۔
این رام نے سے کہا، آپ اس کو چوری ہو گئے دستاویز کہہ سکتے ہیں،لیکن اس کو لےکرہم فکرمند نہیں ہیں۔ہمیں یہ خفیہ ذرائع سے ملا تھا اور ہم اپنے ذرائع کے تحفظ کے لئے پرعزم ہیں۔ کوئی بھی ان ذرائع کے بارے میں ہم سے کوئی جانکاری حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا، دستاویز خودہی بولتے ہیں اور خبریں(اسٹوری)خودبخود بولتی ہیں۔ ‘
انہوں نے رافیل ڈیل پر قسط وار رپورٹ لکھی ہیں۔ اس میں ایک تازہ رپورٹ بدھ کو شائع ہوئی۔ اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے عدالت کی ایک بنچ کے سامنے بدھ کو کہا کہ رافیل ڈیل پر جنہوں نے بھی دستاویز عام کئے ہیں وہ سرکاری پرائیویسی کے قانون اور عدالت کے ہتک عزت قانون کے تحت مجرم ہیں۔بنچ رافیل ڈیل کے خلاف تمام عرضی کو خارج کرنے والے عدالت کے فیصلے کے خلاف ریویو پیٹیشن پر سماعت کر رہی ہے۔
رام نے کہا، میں عدالت کی کارروائی پر تبصرہ نہیں کروںگا۔ لیکن ہم نے جو کچھ شائع کیا وہ شائع ہو چکا ہے۔ وہ تصدیق شدہ دستاویز ہیں اور وہ مفاد عامہ ے لئے شائع کئے گئے کیونکہ تفصیلات دباکر یا چھپاکر رکھی گئی تھیں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘… پریس کا فرض ہے کہ تحقیقاتی صحافت کے ذریعے-مفاد عامہ کے لئے بامعنی اطلاع یا مدعے کو سامنے لائے جائیں۔ ‘
قابل ذکر ہے کہ رام نے آٹھ فروری کو’دی ہندو’میں لکھا تھا کہ ہندوستان اور فرانس کے درمیان 59000 کروڑ روپے کے رافیل ڈیل کو لےکر چلے مذاکرہ کے دوران وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کے ذریعے’متوازی بات چیت’کئے جانے پر وزارت دفاع نے اعتراض کیاتھا۔ یہ رافیل ڈیل معاہدے سے جڑے سرکاری دستاویز پر مبینہ طور پر مبنی تھا۔
رام نے کہا، ہم نے جو کچھ کیا وہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل19 (1) (اے)-بولنے اور اظہاررائے کی آزادی-کے تحت اور حق اطلاعات کے قانون، بالخصوص اس کی دفعہ 8 (1) (آئی) اور دفعہ 8 (2) کے تحت پوری طرح سے محفوظ ہے۔ “دی ہندو کے مطابق،انہوں نے کہا، ‘اس میں کسی قومی سلامتی کے مفاد سے سمجھوتہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ‘
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں سرکاری پرائیویسی قانون، 1923 کو ختم کئے جانے کی وکالت کرتے ہوئے این رام نے کہا،پرائیویسی کا قانون نوآبادیاتی قانون کا ایک قابل اعتراض حصہ ہے جو جمہوریت مخالف ہے اور آزاد ہندوستان میں پبلی کیشن کے خلاف شاید ہی کبھی استعمال کیا گیا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا،اگر جاسوسی یا کچھ اور ہوتا ہے تو وہ الگ معاملہ ہے۔ یہاں ایسا مواد ہے جس کو عام کیا جانا چاہیے اور ایسی اطلاع ہے جو عام ہونی چاہیے۔ یہ تمام قارئین کے لئے آزادانہ طورپر دستیاب ہونی چاہیے۔ ‘اٹارنی جنرل نے عدالت میں جو تبصرہ کیا ہے اس کا تحقیقاتی صحافت پر پڑنے والے اثر کو لےکر رام نے کہا، اگر یہ حکومت کی پالیسی کی نمائندگی کرتی ہے، تو واضح طور پر اس کا صحافت اور خاص طورپر تحقیقاتی صحافت پر اثر پڑےگا۔ ‘
حالانکہ انہوں نے کہا، ‘ ایسے کسی بھی کوشش کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں تھا۔ ‘انہوں نے کہا، صرف د ی ہندو ہی نہیں بلکہ کچھ دیگر آزاد میڈیا اداروں نے بھی رافیل ڈیل پر جانکاری کو عام کیا ہے۔ 1980 کی دہائی میں ہوئے بوفورس گھوٹالہ کی تفتیش میں بھی ہم نے اہم ترین کردار نبھایا تھا۔ ‘
انہوں نے کہا، اس حکومت میں میڈیا اداروں میں ڈر کا ماحول پیدا ہوا ہے لیکن اب ہندوستانی میڈیا نے اور بھی بہت کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ اس مدعے کو بڑے پیمانے پر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ اس مدعے پر کچھ لوگ جو سکوت کا ماحول بنائے رکھنا چاہتے تھے وہ ٹوٹا ہے۔ ‘
این رام نے آگے کہا کہ اپنی اس تفتیش میں دی ہندو نے پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کیا ہے۔ حالانکہ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جو کچھ بھی ہمارے ہاتھ میں آیا اس کو تحقیقاتی صحافت کے نام پر ہم نے عام کر دیا۔انہوں نے کہا، مثال کے طور پر رافیل ڈیل معاملے میں آزادانہ جانچکے دوران ہندوستان سے متعلق 13 کارروائیوں کی جانکاری ہمارے ہاتھ لگی لیکن اخبار نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو شائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، حکومت نے کہا تھا کہ اس طرح کی تکنیکی جانکاریاں بہت ہی حساس ہیں اور وہ دشمن ملک کے لئے معاون ہو سکتی ہیں اور نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ حالانکہ میں اس بات سے متفق نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم نے ان تکنیکی جانکاریوں کو شائع نہیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں