وزیر اعظم نریندر مودی کے یہاں وہاں کیے گئے مذاق اور طنز سے اگلی قطار میں بیٹھنے والوں کو ہنسایا تو جاسکتا ہے ، لیکن انتخابات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
وزیر اعظم مودی نے براہ راست راہل گاندھی کا مذاق اڑانے کی کوشش میں صاف طور پر Dyslexiaکے شکار طلبا کا ہی مذاق اڑا ڈالا ۔ اس کو لے کر لوگوں کا غصہ سمجھ میں آنے لائق ہے۔سب سے خراب بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ افسوس ناک تبصرہ ایک اسکل انڈیا مقابلہ کے فائنل میں پہنچے کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس سیشن کے دوران کیا، جب ایک طالبہ اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بتا رہی تھی، جو Dyslexia سے متاثر بچوں کی مدد کر سکتا ہے۔
راہل گاندھی پر حملہ کرنے کا کوئی بھی موقع نہ گنوانے والے مودی نے موقع بھانپتے ہوئے مذاق اڑانے کے لہجے میں پوچھا کہ کیا اس سے 40سے50 سال کی عمر کے طلبا کو بھی مدد ملےگی۔ جب اس طالبہ نے ‘ہاں’میں جواب دیا، تب انہوں نے کہا، ‘اگر ایسا ہے تو یہ ایسے بچوں کی ماؤں کے لئے خوشخبری ہے۔ ‘ اس پر سامعین قہقہہ لگانے لگے۔
Dyslexia یا کسی بھی طرح کا عذر ہنسنے کی بات نہیں ہے۔ ہندوستان میں معذور افراد پر ہنسنا عام بات ہے۔ عام چلن میں کوئی بھی آدمی جو ظاہری طور پر معذور ہو، بھدے مذاق کا نشانہ ہوا کرتا تھے۔لیکن حال کے سالوں میں لوگوں کو حساس بنانے کی کوششوں نے اس صورت حال میں کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے۔ یقینی طور پر اونچے عوامی عہدے پر بیٹھے لوگ کسی معذور کا مذاق نہیں ہی اڑائیںگے-ان سے تو مثال قائم کرنے کی امید کی جاتی ہے۔
لیکن بلاشبہ، مثالیں پھربھی مل جاتی ہیں۔ نومبر 2015 میں اس وقت صدر کے عہدے کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے نیویارک ٹائمس کے ایک بے حد معذور نامہ نگار کا مذاق بنایا تھا۔ اس پوری مہم کے دوران ٹرمپ ناشائستگی کا مجسمہ بنے رہے۔کبھی انہوں نے میکسیکن لوگوں کو ریپسٹ کہا، تو کبھی یہ جتایا کہ ایک خاتون اینکر ان سے مشکل سوال اس لئے پوچھ رہی تھی، کیونکہ اس کے پیریڈس چل رہے تھے۔ لیکن خواتین اور اقلیتوں کے خلاف اپنی توہین آمیز تنقیدوں کے باوجود وہ انتخاب جیت گئے۔
اب جبکہ ہندوستانی انتخابات کے لئے کمر کس رہے ہیں، نریندر مودی عالمی منچ پر حکمرانوں کے ساتھ ملنے-جلنے والے عالمی رہنما ہونے کے بچے-کھچے لبادے کو بھی اتار پھینک رہے ہیں اور اکثر اپنے پسندیدہ ٹارگیٹ-مسلمان، کانگریس اور نہرو-گاندھی فیملی-پر حملہ کرتے ہوئے بھونڈےپن کی کھائی میں گرے جا رہے ہیں۔ان کے ‘ 50 کروڑ کی گرل فرینڈ ‘،قبرستان اور سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے لئے ‘ جرسی گائے اور اس کا ہائبرڈ بچھڑا ‘ جیسے سارے بیان کسی نہ کسی انتخابی تشہیر کے دوران کے ہی ہیں۔
ان میں سے کچھ بیانات یقینی طور پر احتیاط سے تیار کیے گئے ہوںگے اور بھیڑ کے جذبات کو جگانے کے لئے اور رائےدہندگان کو صحیح وقت پر اشارہ دینے کے مقصد سے تقریروں میں شامل کیے گیے ہوںگی۔ لیکن، اس کا مقصد یقینی طور پر پارٹی کارکنان کو یہ بتانا بھی رہا ہے کہ ان کی حکمت عملی جارحانہ طورپر اقلیت مخالف اور گاندھی فیملی کو مسلسل طریقے سے گالیاں دینے والی ہونی چاہیے۔
نہرو اور ان کی اولادوں کے خلاف سنگھی نفرت کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے، حالانکہ، ‘ گناہوں کی پوری فہرست’کے لئے خاص طور پر نہرو اور سونیا اور راہل گاندھی کو نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔لیکن، مسلسل طریقے سے کی گئی بے عزتی کے باوجود اس کا نتیجہ خواہش کے مطابق نہیں رہا ہے۔ ہندوستان کی جدیدکاری کرنے والے کے طور پر نہرو کا مقام اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور ان کی وراثت کی تردید کی کوشش پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
جہاں تک راہل گاندھی کا سوال ہے، تو انہوں نے سب کو چونکایا ہے اور تین بڑی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں جیت درج کرنے کے بعد انہوں نے مودی کی نیند اڑا دی ہے۔ مودی کے حالیہ بیان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کانگریس صدر نے ان کے سامنے پریشانی کھڑی کر دی ہے۔
لیکن صرف مذاق اڑانا یا غیرمہذب تبصرہ کرنا ہی مودی کے مخصوص انداز کا حصہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر پورے ہو رہے قریب پانچ سالوں سے، انہوں نے چونکانے والی تعداد میں غلطیاں کی ہیں اور کئی عجیب دعوے کئے ہیں۔انہوں نے ڈاکٹروں اور سیلیبرٹیوں سے بھرے ایک جلسہ میں یہ دعویٰ کیا کہ قدیم دور میں جینٹک سائنس اور پلاسٹک سرجری کا وجود تھا۔ انہوں نے آب وہواکی تبدیلی کو مستردکر دیا اور کہا-‘آب وہوا میں تبدیلی نہیں ہو رہی ہے، دراصل ہم بدل رہے ہیں۔ ‘
نالے سے باورچی خانہ کی گیس نکالنے کی بات بھی انہوں نے ہی دنیا کو بتائی۔ تاریخی حقائق پر بھی ان کی گرفت مشکوک ہی ہے۔میڈیا میں ان کی طرف کئی بار توجہ دلائی گئی ہے اور ٹوئٹر پر اس کو لےکر ہزاروں چٹکلے بن چکے ہیں۔ لیکن یہ سب ان سے شردھا رکھنے والوں کو تھوڑا بھی کھسکا نہیں سکا ہے۔
یہاں تک کہ ویسے لوگ بھی، جو خود کومہذب شہری سمجھتے ہوںگے، وہ بھی ان کے مذاق یا جھوٹوں سے پریشان نہیں ہوتے ہیں-وہ بس ان کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور ان کی محبت اور ان کی بھکتی پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے۔ان کے لئے وہ صرف ایک عدد رہنما یا ایک کردار ماڈل نہیں ہیں، جن سے اونچے معیارات پر کھرا اترنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ نہ ہی وہ دوسروں کی طرح محض ایک سیاستداں ہیں ؛ وہ ان کو دوسری دنیا کا آدمی مانتے ہیں، جو انسانی حدود اور کمزوریوں سے پرے ہیں۔
جیسا کہ کسی بھی شعبے میں ہوتا ہے، ان پر سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یقینی طور پر ایک آدھ مشتبہ مدعی یا منطق پسند شخص کے ذریعے کی جانے والی تنقید کے لئے تھوڑا سا بھی صبر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مودی پر عدم اعتماد نہ کرنے کی قسم-سی کھا لی ہے۔
اندھ بھکتی کی یہ سطح دوسری جگہوں پر بھی دکھائی دیتی ہے-چاہے ٹرمپ ہوں یا فلیپینس کے صدر راڈرگو دوترتے، ان کے خراب عمل کی طرف چاہے جتنا بھی دھیان دلایا جائے، ان کے کٹر حامیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ٹرمپ کو خواتین کو لےکر ان کے قابل اعتراض تبصرہ کے باوجود بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ خواتین کے ووٹ ملے۔ اسی طرح غیر ملکی رہنماؤں کے خلاف بری بات کہنے اور غیرمہذب عوامی عمل کے باوجود، اپنے حامیوں کے درمیان دوترتے کی مقبولیت کم نہیں ہوئی ہے۔
اس لئے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ چاہے جو ہو جائے، مودی کی محبت میں ڈوبے لوگ ان کو ہی ووٹ دیںگے۔ وہ چاہے غلطیاں کریں یا کوئی غیر حساس تبصرہ کریں، مگر اس سے ان کے پیروکاروں پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔معیشت کی بدانتظامی، بڑھتی بےروزگاری، نوٹ بندی کے بعد جھیلی گئی مصیبتوں اور جی ایس ٹی کی خراب عمل آوری، جس کا سب سے زیادہ خمیازہ چھوٹے کاروباریوں کو اٹھانا پڑا، کے باوجود مودی بھکت ٹس سے مس نہیں ہوںگے۔ گجرات اسمبلی انتخاب نوٹ بندی کے سال بھر بعد ہوا تھا، پھر بھی بی جے پی کل پڑے ووٹ کا 49 فیصد حاصل کرکے جیت گئی۔
مودی کو اس سے راحت مل سکتی ہے، لیکن اب کوشش کنارے بیٹھکر کھیل دیکھنے والوں، پس و پیش کی حالت میں کھڑے لوگوں اور 2014 میں جوش کے ساتھ مودی کو حمایت دینے کے بعد بی جے پی سے دور چلے جانے والوں کو پھر سے جوڑنے کی ہے۔اس وقت کانگریس اور یو پی اے کی امیج ناکارہ اور خراب کی بن گئی تھی اور مودی کی تبدیلی، صفائی اور ترقی لانے کے دعوے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح تھے۔
مودی کی پہلی بار کے حامیوں کا ایک بڑا طبقہ ہے، جو مودی سے کافی مایوس ہے-وہ بھلے کانگریس کے بڑے خیر خواہ نہ ہوں، لیکن مودی سے بھی ان کا موہ بھنگ ہو گیا ہے۔ اس بار وہ آپشن کی تلاشکر سکتے ہیں۔انتخاب غیر متوقع نتیجہ دینے کے لئے جانے جاتے رہے ہیں، لیکن فی الحال مودی اور ان کی پارٹی اپنی فتح کے باوجود جیت کو پختہ نہیں مان سکتی۔
ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کی رہائی کے بعد راشٹرواد کے جنون پیدا کرنے کی کوششوں سے ایئراسٹرائک اور پلواما دہشت گردانہ حملے میں انٹلی جنس کی مبینہ ناکامی یا آخرکار عوامی رابطہ کے کھیل میں جیت کس رہنما کی جیت ہوئی، کو لےکر اٹھنے والے سوال ختم نہیں ہوںگے۔
شدت پسند راشٹر وادی میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ کسانوں اور دوسرے طبقوں کے مسائل پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ وہ رائےدہندگان بھی ہیں اور وہ ٹیلی ویژن چینلوں کی خبروں کو دیکھکر اپنا ووٹ نہیں دیتے۔ حزب مخالف پارٹیاں اس کا فائدہ اٹھانے سے پیچھے نہیں رہیںگی۔
ان طبقوں کو منانے کے لئے انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہوگی۔ مذاق بنانے والا بھدا تبصرہ یا حب الوطنی کا نسخہ ان پر اثردار نہیں ہوگا، جن کی روزی-روٹی متاثر ہوئی ہے اور جو اپنے مسائل کے لئے حکومت کو مجرم گردان تے ہیں۔پانچ سالوں سے جو خود کو نظرانداز محسوسکر رہے ہیں، ان کو کچھ ہفتوں میں طرح-طرح کے لالی پاپ تھماکر پھسلایا نہیں جا سکتا۔ کانگریس کو بہت سی غلطیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ 2014 سے بی جے پی اقتدار میں ہے۔
راہل گاندھی کی کھلی اڑائی جا سکتی ہے، لیکن ابھی وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے نہ ہوکر کرسی کے دعوے دار ہیں۔ یہاں-وہاں کئے جانے والے مذاق یا طنز سے آگے کی بنچ پر بیٹھنے والوں کو ہنسایا تو جا سکتا ہے، لیکن انتخابات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
Categories: فکر و نظر