مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
پرینکا گاندھی کی سیاست میں انٹری، ایک ہفتے میں اتر پردیش کی 27 سیٹوں پر امیدوار کا اعلان اور بھیم آرمی کے رہنما چندرشیکھر راون سے ملاقات – گویا کانگریس نے یوپی کی سیاست میں قرینے سے بازی کی شروعات کر دی ہے۔اب کانگریس یوپی میں پرینکا گاندھی کے دھواں دھار دوروں کے ذریعے انتخابی ماحول کو پوری طرح بدل دینے کی تیاری میں لگی ہے۔ان سب کے باوجود لاکھ ٹکے کا سوال بنا ہوا ہے کہ 2019 کے انتخاب میں کانگریس کتنا آگے بڑھ پائےگی۔ کیا وہ سال 2009 کے اپنے مظاہرہ کو دوہرا پائےگی؟
23 جنوری 2019 کو جب پرینکا گاندھی کی سیاست میں انٹری اور ان کو مشرقی اتر پردیش کے کمان کا اعلان ہوا تو سب کے سامنے واضح ہو گیا کہ اتر پردیش میں لمبے عرصے سے حاشیے پر رہ رہی پارٹی کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کے لئے کانگریس نے اپنا آخری ہتھیار کو چلا دیا ہے۔2019 کا انتخاب جنگ عظیم کی طرح ہے۔ جنگ عظیم میں ہر جماعت اپنے تمام ہتھیارکا استعمال کرےگا کیونکہ سب کا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس جنگ عظیم میں کوئی بھی جماعت اپنے ناقابل خطا حملہ کرنے والے ہتھیار کو پویلین میں نہیں بٹھا سکتا۔
پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ، اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کیونکہ اگر اس انتخاب میں کانگریس یوپی میں اچھا مظاہرہ نہیں کر پاتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ دیگر ریاستوں میں اچھے مظاہرہ کے باوجود مرکز کی سیاست میں اس کی واپسی نہ صرف مشکل ہوگی بلکہ علاقائی جماعتوں کے پیچھے اس کو چلنا پڑےگا۔سال 1989 کے بعد سے کانگریس یوپی میں میں اسٹریم سیاست سے حاشیے پر چلی گئی۔ سال 2009 کے لوک سبھا انتخاب کو چھوڑکر کسی بھی اسمبلی یا لوک سبھا انتخاب میں اس کا مظاہرہ ٹھیک نہیں رہا۔
سال 2014 کی لوک سبھا اور 2017 کے اسمبلی انتخاب نے تو اس کے وجود کو تقریباً ختم کر دیا۔ لوک سبھا میں اس کو صرف رائے بریلی اور امیٹھی کی سیٹ آئی جبکہ اسمبلی میں اس کو صرف سات سیٹیں ملیں۔ان تین دہائیوں میں کانگریس نے اپنی واپسی کے لئے ہر کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایس پی سے اتحاد بھی کیا لیکن اس کا ساتھ بھی کام نہیں آیا۔ بار بار ریاستی صدر اور انچارج بدلے گئے۔ راہل گاندھی نے لمبی کسان یاترا کی پھر بھی پارٹی میں جان نہیں آ سکی۔
پوری پارٹی میں مایوسی کا ماحول بن گیا۔ تمام بڑے رہنما پارٹی کا ساتھ کر چھوڑ بی جے پی اور دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔ لیکن حال کے کچھ مہینوں سے حالات بدلے ہیں۔کرناٹک میں جنتا دل سیکولرکے ساتھ حکومت بنانا اور پھر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان میں جیت نے کانگریسیوں کے حوصلے کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ کانگریس کی واپسی ہو رہی ہے اور 2019 کا انتخاب ان کو پھر سے مرکز کے اقتدار میں پہنچا دےگا۔مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان کی جیتکے بعد کانگریسی یہ بھی کہنے لگے کہ یوپی میں کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی اپنے بل بوتے بھی اچھا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد ہونے اور اتحاد میں جگہ نہ دیے جانے سے کانگریس کے پاس اس کے سوا کوئی چارا بھی نہیں تھا کہ وہ اکیلے انتخاب میں اترے۔ اب جب کانگریس اکیلے انتخاب میں اتر گئی ہے تو اس کے سامنے اکھلیش-مایاوتی اور مودی-یوگی سے مقابلہ کرنے لائق پارٹی تنظیم کھڑا کرنے اور یوپی کے لئے بڑے چہرے کی ضرورت ہے۔پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارکر چہرے کی کمی کو دور کر لیا گیا ہے لیکن پارٹی کی تنظیمی کمزوری برقرار ہے اور عین انتخاب کے وقت اس میں زیادہ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔ سوائے اس کے کہ کارکن پرجوش رہیں اور اپنی پوری قوت انتخاب میں لگا دیں۔
پرینکا گاندھی کو مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا ہے۔یوں تو مشرقی اتر پردیش میں 24 اضلاع وارانسی، سون بھدر، سلطان پور، سدھارتھ نگر، سنت کبیرنگر، مرزاپور، مئو، مہراج گنج، کوشی نگر، جون پور، گونڈا، گورکھ پور، دیوریا، چندولی، بھدوہی، بستی، بہرائچ، بلرام پور، بلیا، اعظم گڑھ، امبیڈکرنگر، امیٹھی آتے ہیں، لیکن پرینکا گاندھی ریاست کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے آدھی یعنی کی 40 سیٹوں پر پارٹی کی ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔
اس میں وسط یوپی کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ سال 2009 میں پارٹی نے جو 21 سیٹیں جیتی تھیں، ان میں 90 فیصدی مشرقی اتر پردیش کی ہی تھیں۔سال 2009 میں پارٹی کو مرادآباد، بریلی، کھیری، دھورہرا، اناؤ، رائے بریلی، امیٹھی، سلطان پور، پرتاپ گڑھ، فرخ آباد، کانپور، اکبرپور، جھانسی، بارہ بنکی، فیض آباد، بہرائچ، شراوستی، گونڈا، ڈمریاگنج، مہراجگنج، کوشی نگر کی سیٹ پر جیت ملی تھی۔سال 2014 میں مودی لہرکے باوجود ان میں سے کئی سیٹوں پر کانگریس مضبوطی سے لڑی تھی اور دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔ اس میں کوشی نگر، بارہ بنکی، کانپور کی سیٹ اہم ہے۔ ان مقامات پر ہار کا فرق بھی ایک لاکھ کے اندر تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پرینکا اکیلے مودی اور یوگی کو روک پائیں گی ؟
یہاں ایک اور پہلو غور طلب ہے کہ پارٹی کو بھلے 7.5 فیصدی ووٹ اور دو سیٹیں ملی تھیں لیکن وہ 15 اسمبلی سیٹوں پر سب سے آگے رہی تھی جبکہ بی ایس پی 19.6 فیصدی ووٹ حاصل کر صرف 9 اسمبلی سیٹوں پر آگے تھی اور وہ کوئی لوک سبھا سیٹ بھی نہیں جیت پائی تھی۔مشرقی اتر پردیش میں کانگریس کا دوسرا مضبوط پہلو یہ ہے کہ اس کے پاس بھلے تنظیم نہ ہو لیکن قد آور رہنماؤں کی بڑی جماعت موجود ہے۔ یہ رہنما کافی وسائل والے ہیں اور خود کا نیٹ ورک اور وجود رکھتے ہیں۔ اپنے-اپنے علاقے میں ان کی موجودگی برابر رہتی ہے۔
ان رہنماؤں میں ڈاکٹر سنجے سنگھ (سلطان پور)، پی ایل پنیا (بارہ بنکی)، جتن پرساد (دھورہرا)، سلمان خورشید (فرخ آباد)، جناب پرکاش جیسوال (کانپور)، انو ٹنڈن (اناؤ)، نرمل کھتری (فیض آباد)، ونئے کمار (شراوستی)، آر پی این سنگھ (کشی نگر)، اکھلیش پرتاپ سنگھ (دیوریا) اہم ہیں۔ان رہنماؤں کو بھروسہ ہے کہ پرینکا گاندھی کے طور پر مقبول عام چہرہ مل جانے سے وہ اپنی سیٹ آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ پارٹی نے خود کو احیائےنو کرنے کی کوششوں میں حال کے سالوں میں سب سے زیادہ فوکس مشرقی اتر پردیش میں ہی کیا ہے۔
راہل گاندھی کی کسان یاترا انہی علاقوں میں ہوئی۔ کانگریسی رہنما اجئے کمار للو مشرقی اتر پردیش کے کوشی نگر ضلع کے تمکوہی سے آتے ہیں۔ یوتھ کانگریس کے صدر کیشو چندر مشرقی اتر پردیش کے ہی دیوریا ضلع کے رہنے والے ہیں۔کانگریس کی حمایت میں ایک اور بات ہوگی وہ یہ کہ اس کے پاس امیدواروں کی کمی نہیں ہوگی۔ ایس پی –بی ایس پی کا اتحاد ہونے کی وجہ سے ان جماعتوں سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے لئے کانگریس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ بی جے پی کی بس خالی نہیں ہے۔
ایس پی –بی ایس پی اتحاد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹی جماعتوں کی بھی پسند کانگریس بنی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال کانگریس کے لئے نفع بخش ہے۔ اس کو ہر سیٹ پر عوامی چہرے مل سکتے ہیں۔ اس میں دلت اور او بی سی ذاتوں کے رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہے۔لیکن دوسری جماعتوں سے آئے رہنماؤں کو ٹکٹ دینے میں کانگریس احتیاط برت رہی ہے۔ اس کی سوچ ہے کہ کہیں اس سے تنظیم کی تعمیر حاشیے پر نہ چلا جائے۔ دوسری جماعتوں سے آئے رہنما انتخابی موسم جاتے ہی پھر اپنا راستہ پکڑ سکتے ہیں۔ پھر بھی کانگریس کو جتاؤ امیدواروں کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی زور ہے کہ ریاست میں پارٹی اپنے پیر پر مضبوطی سے کھڑی ہو جائے۔
اس کے علاوہ کانگریس دلت، برہمن، مسلمان کے اپنے پرانے ووٹ بینک کو پانا چاہتی ہے۔ اس بار کا انتخاب اس کو اس ووٹ بینک کو اپنے پاس لانے کے لیے سب سے فائدےمند لگ رہا ہے کیونکہ نیچے کی سطح پر بھی یہ اشارہ جا رہا ہے کہ بی جے پی اپنی چمک کھو رہی ہے اور کانگریس کی واپسی ہو سکتی ہے۔یہ تینوں ووٹ بینک اپنی اپنی وجہوں سے بی جے پی سے کافی ناراض ہیں۔ مسلمانوں میں اب بی جے پی کے تئیں کچھ بھی ہمدردی نہیں بچی ہے۔ مرکز اور ریاست میں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں اور ان کے ذریعہ معاش پر جس طرح سے حملے بڑھے ہیں، اس سے مسلمان حکمتِ عملی کے طور پر بی جے پی کو ہرانے کے لئے اور زیادہ پرعزم ہیں۔
روہت ویمولہ کی خودکشی، چندرشیکھر راون کی گرفتاری، پھولن دیوی کے قتل کے ملزم شیر سنگھ رانا کو اقتدار کی طرف سے تحفظ، اونا میں دلتوں کی پٹائی، اشرافیہ کو اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے، ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کو کمزور کرنے کی کوشش، 13 پوائنٹ روسٹر وغیرہ نے دلتوں کو بی جے پی سے دور کر دیا ہے۔دلتوں میں بی ایس پی کی گرفت اب بھی بنی ہوئی ہے لیکن مرکزی اقتدار میں بی ایس پی کی کمزور دعوےداری، دلت سوالوں پر جدو جہد کے بجائے صرف بیان بازی تک محدود رہنے، ٹکٹ تقسیم میں فیک امیدواروں کو توجہ دینے کی وجہ سے دلتوں کا اس سے دل ٹوٹ رہا ہے۔
سب سے دلچسپ ہے برہمنوں کے سیاسی عمل میں تبدیلی۔ سال 2014 کی لوک سبھا اور 2017 کی اسمبلی انتخاب میں برہمنوں نے بی جے پی کو بھرپور حمایت دی۔ بی جے پی نے بھی برہمنوں کو ٹکٹ دینے میں فیاضی دکھائی لیکن یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے سے ان کو زور کا جھٹکا لگا۔اس کے بعد ایس سی/ایس ٹی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مرکزی حکومت کے ذریعے پلٹنے سے یوپی کے برہمن سب سے زیادہ ناراض ہیں۔ان کو مودی حکومت سے یہ امید نہیں تھی۔ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کو لےکے اشرافیہ میں سب سے زیادہ جارحانہ برہمن ہی رہے ہیں۔
برہمنوں کا یوپی کی بی جے پی حکومت سے ناراضگی لکھنؤ میں ایپل کمپنی کے مینیجر کا پولیس کے ذریعے قتل کے واقعہ میں بہت صاف طور پر دکھی۔ یہ ناراضگی صرف اس معاملے پر نہیں تھی بلکہ یوگی حکومت کے خلاف برہمنوں کا جمع غصہ تھا جو اس کے بہانے ظاہر ہوا۔برہمنوں کو لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے سے تنظیم اور اقتدار میں راجپوتوں کا تسلط بڑھا ہے اور ان کی دعوےداری کمزور ہوئی ہے۔ایس پی –بی ایس پی اتحاد میں بھی برہمن اپنے کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔
ایسے میں برہمنوں کی کانگریس کے تئیں پرانی محبت جاگ سکتی ہے۔ ویسے بھی برہمن اقتدار کے ساتھ جڑتے ہیں اور اپنی حامی پارٹی کے لئے ماحول بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ماضی میں بی ایس پی کے ہاتھی کے لئے وہ کافی کچھ کر چکے ہیں۔ان سب حالات کے باوجود پرینکا گاندھی کے لئے سب کچھ آسان نہیں ہے۔ سماجی بنیاد کے طور پر کانگریس کے پاس اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ایس پی –بی ایس پی کے اتحاد سے پچھڑے اور دلت ووٹ بینک میں پھوٹ لگانا آسان نہیں ہے۔ اشرافیہ میں ناراضگی کے باوجود بی جے پی سے الگ کسی جماعت کا دامن تھامنے کی گنجائش کم ہی دکھتی ہے۔
مشرقی اتر پردیش ہی وہ علاقہ ہے جہاں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی-کشواہا وغیرہ کی اپنی-اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔کانگریس کو ان سب کے ووٹ بینک کو منتشر کر اپنے لئے کم سے کم 20 فیصدی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور گورکھپور فلم فیسٹیول کے آرگنائزر ہیں۔یہ مضمون بنیادی طور پر گورکھپور نیوز لائن ڈاٹ کام پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر