آدی واسیوں کے تئیں مودی کے دعوے کی حقیقت کیا ہے اس کا انکشاف دی وائر نے کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت پچھلے پانچ برسوں میں آدی واسیوں کے حقوق کو ضبط کرنے میں کس طرح آئین ہند کے خلاف جاکر قانون سازی میں ملوث رہی لیکن عوامی احتجاج اور غصے کے باعث حکومت کے یہ منصوبے کامیاب نہ ہو سکے۔
انتخابات کے دور میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان طنز و تنقید کا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ تنقید اگر دلائل اور حقائق کی روشنی میں ہوتی ہے تو اس سے عوام اور جمہوری قدروں کو بہت فیض پہنچتا ہے لیکن اگر یہ تنقید جھوٹے اساس پر کی جائے تو عوام کو اس سے تو کوئی فائدہ ہوتا نہیں ہے، البتہ تنقید کرنے والا خود رسوا ہو جاتا ہے! ایسی ہی رسوائی کا سامنا گجرات کانگریس کو اس وقت کرنا پڑا جب ان کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ کیا گیا جس میں دو تصویروں کا موازنہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرکز میں مودی حکومت نمامی گنگے مشن کا یہ سچ نہیں دکھاتی ہے کہ مودی حکومت میں گنگا ندی میں آلودگی بڑھ گئی ہے۔ اس کے برعکس مودی حکومت اپنے اشتہاروں میں گنگا کی صاف ستھری تصویریں دکھاکر یہ دعوی کرتی ہے کہ ان کا نمامی گنگے مشن کامیاب رہا۔
گجرات کانگریس نے یہی تصویر اپنے آفیشل فیس بک پیج پر بھی شئیر کی تھی۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ مودی کے نمامی گنگے مشن سے بہت کچھ حاصل نہیں ہوا ہے، اور دی وائر کی مودی مارکشیٹ نامی تحقیق ہمیں اس بات سے بخوبی آگاہ کرتی ہے۔ اس تحقیق کے انفراسٹرکچر پیج پر50ویں نمبر پر یہ حقیقت درج ہے۔لیکن گجرات کانگریس کے سوشل میڈیا صفحات پر آلودگی زدہ گنگا کی جو تصویریں عام کی گئی تھیں وہ دراصل مودی حکومت سے پہلے کی تھی جن کو انڈیا واٹر پورٹل نے 10 اپریل 2014 کو اپنے ایک مضمون میں بھی شائع کیا تھا۔ جب کہ غور طلب بات ہے کہ مودی 26 مئی 2014 کو پرائم منسٹر بنے تھے۔ مودی کے پرائم منسٹر بننے سے پہلے ہی یہ تصویر انٹریٹ پر موجود تھی، لہٰذا گجرات کانگریس کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔
ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ جب ٹی وی چینلوں پر سیاسی لیڈروں کو بحث کے لئے بلایا جاتا ہے تو کئی دفع معاملات بےقابو ہو جاتے ہیں اور وہ بد زبانی اور مار پیٹ کی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں! ایسا ہی ایک معاملہ زی کے بانگلہ چینل کے ایک پروگرام میں ہوا جب ترنمول کانگریس کے ایک لیڈر اور منسٹر ربندر ناتھ گھوش بی جے پی لیڈر کی کسی بات پر پروگرام کے درمیان ہی بےقابو ہو گئے۔
منسٹر کا یہ رویہ بلا شبہ نا زیبا تھا لیکن ان کے اس ردعمل کے بعد بی جے پی کارکنوں نے سوشل میڈیا میں ان کو نشانہ بنایا اور یہ دعویٰ کیا کہ ترنمول کانگریس کے لیڈر غنڈے ہیں جنہوں نے پروگرام کے درمیان بندوق نکال لی! چوکیدار پیوش نامی ٹوئٹر ہینڈل سے پروگرام کی ویڈیو کو شئیر کیا گیا۔ اس ویڈیو ٹوئٹ کو اب تک تقریباً 3000 ری ٹوئٹ حاصل ہو چکے ہیں۔ جس وقت الٹ نیوز نے اس ویڈیو کو رد کیا تھا تو اس وقت اس کو 1300 ری ٹوئٹ ہی حاصل ہوئے تھے۔
TMC MLA pulls out Gun during live TV debate. This is happening in India and we are talking of intolerance.
Unbelievable but not shocking !#MamtaKeGunde
CC : @KailashOnline @BJP4Bengal @TajinderBagga @me_locket pic.twitter.com/H4FCJCILm2— Chowkidar Piyush (@PiyushSinghk) April 25, 2019
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ ٹی ایم سی لیڈر کے ہاتھ میں نظر آنے والی چیز بندوق نہیں ہے بلکہ وہ انکا مائک تھا جس میں وہ غصہ ہونے سے پہلے بول بھی رہے تھے اور ایک وقفے کے دوران انہوں نے اس مائک کو اپنے لیکٹرن پر رکھ دیا تھا۔ جب ان کو بی جے پی لیڈر کی کسی بات پر غصہ آیا تو انہوں نے اسی مائک کو دوبارہ اٹھا لیا اور بی جے پی لیڈر کی جانب حملہ آور ہوئے لیکن ٹی وی اینکر نے ان کو روک لیا۔ الٹ نیوز نے اپنے سلو موشن ویڈیو میں اس بات کو واضح کیا۔ ویڈیو؛
Slowed down TMC leader from Alt News on Vimeo.
گزشتہ ہفتے ٹی ایم سی اور بی جے پی کے یہ جھگڑے صرف یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ ان جھگڑوں نے مزید جھوٹی خبروں کو عام کیا۔ ان جھوٹی خبروں میں وہ ویڈیو بھی شامل تھی جس کو کرشنا نگر کے بی جے پی امیدوار کلیان چوبے نے شئیر کیا۔ چوبے نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ؛
ٹی ایم سی کے غنڈوں نے بی جے پی کے کارکن ساغر رائےپرمغربی بنگال کے کالی گرام گاؤںمیں بری طرح حملہ کیا۔ بتایاجارہاہےکہ رائےٹی ایم سی کےکارکنوں کوبوتھ کیپچرکرنےسےروکرہےتھے۔
کلیان چوبے کے علاوہ بھی متعدد افراد نے اس ویڈیو کو اسی عبارت کے ساتھ عام کیا۔ لیکن الٹ نیوز نے حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ یہ ویڈیو مغربی بنگال کا نہیں ہے بلکہ صوبہ بہار کے بھاگلپور کا ہے جہاں گھریلو تلخی کی وجہ سے باپ نے اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنے بڑے بیٹے کا قتل کر دیا تھا۔ یہ اس مہینے کا معاملہ تھا جس کو پربھات خبر، دینک جاگرن، دینک بھاسکر اور بھاگلپور لائیو جیسے اخباروں نے شائع کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے 24 اپریل کو نریندر مودی جھارکھنڈ صوبہ کے لوہردگا علاقے میں عوام کو خطاب کر رہے تھے۔ پربھات خبر میں شائع ہوئی خبر کے مطابق مودی نے دعویٰ کیا کہ؛جب تک مودی ہے، چوکیدار ہے، آپ کے جل، جنگل اور زمین پر کوئی پنجہ نہیں مار سکتا !
مودی نے اپنے اس جملے سے ایک تیر سے دو نشانے مارے، انہوں نے ایک طرف یہ دعویٰ کیا کہ ان کی موجودگی میں آدی باسیوں کے حقوق بالکل محفوظ ہیں اور ان کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ دوسری طرف انہوں نے اپنے جملے میں لفظ ‘پنجہ’ کا استعمال کر کے اپنی سیاسی مخالف کانگریس پارٹی پر نشانہ لگایا اور یہ ظاہر کرنا چاہا کہ کانگریس ہی آدی واسیوں کے حقوق ضبط کر لیتی ہے۔آدی واسیوں کے تئیں مودی کے دعوے کی حقیقت کیا ہے اس کا انکشاف دی وائر نے کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت پچھلے پانچ برسوں میں آدی واسیوں کے حقوق کو ضبط کرنے میں کس طرح آئین ہند کے خلاف جاکر قانون سازی میں ملوث رہی لیکن عوامی احتجاج اور غصے کے باعث حکومت کے یہ منصوبے کامیاب نہ ہو سکے۔
صوبائی حکومت نے تین سال قبل نئی ڈومیسائل پالیسی سے عوام کو متعارف کرایا تھا جس کے مطابق وہی لوگ صوبے کے اصل باشندے قرار دئے جائیں گے جو گزشتہ 30 برس سے وہاں رہتے ہیں۔ حکومت کی یہ پالیسی عوام مخالف تھی جس کو احتجاج اور غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم ارجن منڈا نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔اسی طرح حکومت نے چھوٹا ناگپور ٹیننسی ایکٹ اور سنتھال پرگنہ ٹیننسی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لئے اسمبلی میں ایک بل داخل کیا تھا جس کو پرزور مذمت اور احتجاج کے بعد واپس لینا پڑا۔ اس کے علاوہ فارسٹ رائٹس ایکٹ کو کمزور کرنے میں بھی مودی حکومت کم نہیں رہی ہے۔
لہٰذا، مودی کا یہ دعویٰ کہ وہ اور ان کی حکومت آدی واسیوں کے ہمدرد ہیں، بالکل سفید جھوٹ ہے۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر